قوم سر اُٹھا کے اورسینہ تان کے کب چلے گی
حکومت بظاہر قوم کوریلیف دینے کی غرض سے برسراقتدار آئی تھی،مگراس نے تو قربانی کے نام پرقوم کاخون بھی نچوڑ کررکھ دیا ہے
موجودہ حکومت بظاہر IMF کی اُن شرائط پر عمل کررہی ہے جو سابقہ تحریک انصاف حکومت نے اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت تسلیم کرلی تھیں لیکن اس نے اپنے آخری دنوں میں اس پر عمل کرنے سے انحراف کرتے ہوئے تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے بھی کم کردی تھیں جس کی وجہ سے IMF نے بھی مجوزہ قرضہ کی رقم پاکستان کو دینے سے انکارکر دیاتھا۔مگر ہماری اس موجودہ حکومت نے اس معاہدہ پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے نہ صرف وہ تمام شرائط من وعن مان لی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اورنئی شرائط پر فوری طور پرکام شروع کردیاہے۔
سالانہ بجٹ دیکھنے اور سننے کو تو بہت سندر اوردلفریب تھالیکن سپر ٹیکس کے نام سے ٹیکسوں میں حالیہ اضافے نے اس بجٹ کی ساری دلفریبی دھندلا کے رکھ دی ہے۔ سابقہ حکومت نے جن شرائط پرمعاہدہ کیا تھا ہماری یہ حکومت نے اس بھی دوقدم بڑھ کر اطاعت گذاری کی ایسی مثال قائم کردی ہے جو آج تک ہماری کسی حکومت نے نہیں کی۔پٹرول پر لیوی کی مد میں تیس روپے تسلیم کیے گئے تھے اور وہ بھی ماہانہ چار روپے کی قسطوں میں لیکن موجودہ حکومت نے یک دم پچاس روپے کی لیوی لگانے کا فوری وعدہ بھی کرلیا وہ بھی ایسے حالات میں جب پٹرول کے نرخ 234 روپے فی لٹرتک پہنچ چکے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ 18 صنعتوں پر دس فیصد اضافی ٹیکس بھی مان لیا ہے اور مئی کے مہینے میں سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کی مد میں جو چھوٹ دی گئی تھی وہ بھی نہ صرف واپس لے لی گئی ہے بلکہ حیران کن طور پر اس میں بے تحاشہ اضافہ بھی کردیا ہے۔ نئے نظام کے تحت اب جس شخص کی تنخواہ ایک لاکھ یااس سے زائد ہوگی وہ 12فیصد انکم ٹیکس دیگا۔یعنی ایک لاکھ آمدنی والااب سالانہ ایک لاکھ 44 ہزار رووپے انکم ٹیکس دیگا۔یہ تنخواہ دار طبقے پرسراسر ذیادتی کے مترادف ہے۔ہمارے ملک میں تنخواہ دار لوگ ہی سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ۔اُن کاانکم ٹیکس پہلے کٹ جاتاہے اورانھیں تنخواہ بعد میں ملتی ہے۔ اس کے باوجود سارا بوجھ بھی انھی کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتاہے۔
موجودہ حکومت بظاہر قوم کو ریلیف دینے کی غرض سے برسراقتدار آئی تھی،مگر اس نے تو قربانی کے نام پرقوم کاخون بھی نچوڑ کررکھ دیا ہے ۔ 75سالوں سے یہ قوم قربانی دیتی آئی ہے۔ اس کے باوجود اُسے سکھ کاایک سانس اورلمحہ بھی میسر نہیں ہوسکاہے، نئی حکومت مالی اورمعاشی بدحالی کاذمے دار سابقہ حکومت کو گردانتی رہتی ہے لیکن خود اس سے بھی زیادہ تباہی اور بد حالی کاباعث بن کر رخصت ہوتی ہے۔یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔
ہم سے الگ ہونے والی بنگلہ دیشی قوم ہم سے آگے نکل چکی ہے ۔اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے بہت بہتر ہوچکے ہیں ۔اس کی کرنسی کی ویلیو بھی ہم سے کئی درجہ اچھی ہے۔اس کی ایکسپورٹ بھی ہم سے تقریباً ڈبل ہوچکی ہے۔ آخر کیاوجہ ہے کہ ہم 75 سال بعد بھی آج وہیں ہی کھڑے ہیں جہاں 1947 میں کھڑے تھے۔ ہر چار پانچ سال بعد ہمیں ڈرایا اور دھمکایاجاتاہے کہ اگر ہم نے قربانی نہیں دی تو پھرہماراملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
ہم کیوں پیچھے رہ گئے۔ ہماری قوم کے مقدر میں وہ کون سادن ہوگاجب یہ قوم سر اُٹھاکے اور سینہ تان کر چل سکے گی۔دنیا ہمیں کب تک امداد اورقرض دیتی رہے گی۔ہم نے کبھی سوچاہے کہ ہم کب اس کاسہ لیسی اوردریوزہ گری سے باہر نکل پائیںگے۔وہ کون سادن ہوگاجب ہم پرایک روپے کابھی قرضہ نہیں ہوگااور ہم ایک آزاد اورخودمختار قوم کے طور پراپنے فیصلے خود کررہے ہونگے۔ہمیں اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے کسی IMF اورکسی ورلڈ بینک سے قرضہ نہیںمانگناپڑے گا۔
سب سے پہلے ہمیں اُن وجوہات اوراسباب پر غور کرناہوگا جنکی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھناپڑرہے ہیں۔ ایک دوسرے پرالزام تراشی سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کوسرجوڑ کر ملک کے مالی اورمعاشی مسائل کامستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ غیر ملکی احتیاج اورغلامی سے چھٹکارے کے لیے ٹھوس اقدام اُٹھانے ہونگے۔ہم جب ایک طرف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے تو پھر سیاسی استحکام کیوں قائم ہونے نہیں دیتے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کے یہاں بھی معاشی استحکام اس وقت شروع ہوا جب سے وہاں سیاسی استحکام قائم ہوپایا ہے۔
اس سے پہلے وہاں کے حالات بھی ہماری ہی طرح گذر بسر ہو رہے تھے۔ آج وہاں حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہے جو مسلسل اورمتواتر دوسری بار انتخابات جیت کر برسراقتدار آئی ہے۔ وہاں نیب کی طرح کوئی ادارہ بھی موجود نہیں ہے لیکن وہاں کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی ایسی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی جیسی ہمارے یہاں سنائی دیتی ہیں۔
ہم دس بیس سال سے صرف یہ ایک کام بڑی جانفشانی اورتندہی سے کررہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر سیاست چمکاتے رہتے ہیں اورکچھ وصول بھی نہیں کرپاتے ۔ ڈاکٹر عاصم ، ایان علی ، پاپڑ اورفالودے والا، مقصود چپڑاسی اور نجانے کیسے کیسے اورکتنے کتنے کردار مالی بدعنوانی کے عنوان بنائے گئے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
عمران خان کی توسیاست کامحور ہی یہی ایک مسئلہ ہے۔ اس کے بغیر اُن کے پلڑے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ چارسال تک برسراقتدار رہے ، اور نیب اور ایف آئی اے کو بھی اپنی مرضی و منشاء کے تحت چلاتے رہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں کر پائے۔ اُلٹا اِن دواداروں کو چلانے کے لیے قومی خزانے سے بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی رہی۔وہ آج بھی تسلسل سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کاملزم ملک کا وزیراعظم بناہواہے،وہ اگر ایسا نہ کہیں تو پھر کیا کہیںگے۔ جب کہ اپنے دور میں وہ سب کو جیلوں میںتوڈال کراپنی ذاتی اناکی تسکین کاسامان تو کرتے رہے لیکن کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دے پائے۔
ان کے دور میںاربوں روپوں کی مالی بدعنوانیوں کے کیس توبنائے گئے لیکن عدل انصاف کی چھلنی سے گذارے نہیں جاسکے ۔ہرزہ سرائی اورالزام تراشی ان کی سیاست کااصل منبع ہے۔ اُن کی ساری سیاست صرف اسی ایک پوائنٹ کے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔وہ اپنے علاوہ ہرکسی کو چور اورڈاکو سمجھتے ہیں۔اسی لیے کسی سے سیاسی سمجھوتہ بھی نہیں کرپاتے۔ قوم نے اُن سے جو امیدیں باندھ لی تھیں وہ اُن امیدوں پرپورا اتر تے دکھائی نہیںدیتے۔
سالانہ بجٹ دیکھنے اور سننے کو تو بہت سندر اوردلفریب تھالیکن سپر ٹیکس کے نام سے ٹیکسوں میں حالیہ اضافے نے اس بجٹ کی ساری دلفریبی دھندلا کے رکھ دی ہے۔ سابقہ حکومت نے جن شرائط پرمعاہدہ کیا تھا ہماری یہ حکومت نے اس بھی دوقدم بڑھ کر اطاعت گذاری کی ایسی مثال قائم کردی ہے جو آج تک ہماری کسی حکومت نے نہیں کی۔پٹرول پر لیوی کی مد میں تیس روپے تسلیم کیے گئے تھے اور وہ بھی ماہانہ چار روپے کی قسطوں میں لیکن موجودہ حکومت نے یک دم پچاس روپے کی لیوی لگانے کا فوری وعدہ بھی کرلیا وہ بھی ایسے حالات میں جب پٹرول کے نرخ 234 روپے فی لٹرتک پہنچ چکے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ 18 صنعتوں پر دس فیصد اضافی ٹیکس بھی مان لیا ہے اور مئی کے مہینے میں سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کی مد میں جو چھوٹ دی گئی تھی وہ بھی نہ صرف واپس لے لی گئی ہے بلکہ حیران کن طور پر اس میں بے تحاشہ اضافہ بھی کردیا ہے۔ نئے نظام کے تحت اب جس شخص کی تنخواہ ایک لاکھ یااس سے زائد ہوگی وہ 12فیصد انکم ٹیکس دیگا۔یعنی ایک لاکھ آمدنی والااب سالانہ ایک لاکھ 44 ہزار رووپے انکم ٹیکس دیگا۔یہ تنخواہ دار طبقے پرسراسر ذیادتی کے مترادف ہے۔ہمارے ملک میں تنخواہ دار لوگ ہی سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ۔اُن کاانکم ٹیکس پہلے کٹ جاتاہے اورانھیں تنخواہ بعد میں ملتی ہے۔ اس کے باوجود سارا بوجھ بھی انھی کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتاہے۔
موجودہ حکومت بظاہر قوم کو ریلیف دینے کی غرض سے برسراقتدار آئی تھی،مگر اس نے تو قربانی کے نام پرقوم کاخون بھی نچوڑ کررکھ دیا ہے ۔ 75سالوں سے یہ قوم قربانی دیتی آئی ہے۔ اس کے باوجود اُسے سکھ کاایک سانس اورلمحہ بھی میسر نہیں ہوسکاہے، نئی حکومت مالی اورمعاشی بدحالی کاذمے دار سابقہ حکومت کو گردانتی رہتی ہے لیکن خود اس سے بھی زیادہ تباہی اور بد حالی کاباعث بن کر رخصت ہوتی ہے۔یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔
ہم سے الگ ہونے والی بنگلہ دیشی قوم ہم سے آگے نکل چکی ہے ۔اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے بہت بہتر ہوچکے ہیں ۔اس کی کرنسی کی ویلیو بھی ہم سے کئی درجہ اچھی ہے۔اس کی ایکسپورٹ بھی ہم سے تقریباً ڈبل ہوچکی ہے۔ آخر کیاوجہ ہے کہ ہم 75 سال بعد بھی آج وہیں ہی کھڑے ہیں جہاں 1947 میں کھڑے تھے۔ ہر چار پانچ سال بعد ہمیں ڈرایا اور دھمکایاجاتاہے کہ اگر ہم نے قربانی نہیں دی تو پھرہماراملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
ہم کیوں پیچھے رہ گئے۔ ہماری قوم کے مقدر میں وہ کون سادن ہوگاجب یہ قوم سر اُٹھاکے اور سینہ تان کر چل سکے گی۔دنیا ہمیں کب تک امداد اورقرض دیتی رہے گی۔ہم نے کبھی سوچاہے کہ ہم کب اس کاسہ لیسی اوردریوزہ گری سے باہر نکل پائیںگے۔وہ کون سادن ہوگاجب ہم پرایک روپے کابھی قرضہ نہیں ہوگااور ہم ایک آزاد اورخودمختار قوم کے طور پراپنے فیصلے خود کررہے ہونگے۔ہمیں اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے کسی IMF اورکسی ورلڈ بینک سے قرضہ نہیںمانگناپڑے گا۔
سب سے پہلے ہمیں اُن وجوہات اوراسباب پر غور کرناہوگا جنکی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھناپڑرہے ہیں۔ ایک دوسرے پرالزام تراشی سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کوسرجوڑ کر ملک کے مالی اورمعاشی مسائل کامستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ غیر ملکی احتیاج اورغلامی سے چھٹکارے کے لیے ٹھوس اقدام اُٹھانے ہونگے۔ہم جب ایک طرف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے تو پھر سیاسی استحکام کیوں قائم ہونے نہیں دیتے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کے یہاں بھی معاشی استحکام اس وقت شروع ہوا جب سے وہاں سیاسی استحکام قائم ہوپایا ہے۔
اس سے پہلے وہاں کے حالات بھی ہماری ہی طرح گذر بسر ہو رہے تھے۔ آج وہاں حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہے جو مسلسل اورمتواتر دوسری بار انتخابات جیت کر برسراقتدار آئی ہے۔ وہاں نیب کی طرح کوئی ادارہ بھی موجود نہیں ہے لیکن وہاں کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی ایسی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی جیسی ہمارے یہاں سنائی دیتی ہیں۔
ہم دس بیس سال سے صرف یہ ایک کام بڑی جانفشانی اورتندہی سے کررہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر سیاست چمکاتے رہتے ہیں اورکچھ وصول بھی نہیں کرپاتے ۔ ڈاکٹر عاصم ، ایان علی ، پاپڑ اورفالودے والا، مقصود چپڑاسی اور نجانے کیسے کیسے اورکتنے کتنے کردار مالی بدعنوانی کے عنوان بنائے گئے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
عمران خان کی توسیاست کامحور ہی یہی ایک مسئلہ ہے۔ اس کے بغیر اُن کے پلڑے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ چارسال تک برسراقتدار رہے ، اور نیب اور ایف آئی اے کو بھی اپنی مرضی و منشاء کے تحت چلاتے رہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں کر پائے۔ اُلٹا اِن دواداروں کو چلانے کے لیے قومی خزانے سے بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی رہی۔وہ آج بھی تسلسل سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کاملزم ملک کا وزیراعظم بناہواہے،وہ اگر ایسا نہ کہیں تو پھر کیا کہیںگے۔ جب کہ اپنے دور میں وہ سب کو جیلوں میںتوڈال کراپنی ذاتی اناکی تسکین کاسامان تو کرتے رہے لیکن کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دے پائے۔
ان کے دور میںاربوں روپوں کی مالی بدعنوانیوں کے کیس توبنائے گئے لیکن عدل انصاف کی چھلنی سے گذارے نہیں جاسکے ۔ہرزہ سرائی اورالزام تراشی ان کی سیاست کااصل منبع ہے۔ اُن کی ساری سیاست صرف اسی ایک پوائنٹ کے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔وہ اپنے علاوہ ہرکسی کو چور اورڈاکو سمجھتے ہیں۔اسی لیے کسی سے سیاسی سمجھوتہ بھی نہیں کرپاتے۔ قوم نے اُن سے جو امیدیں باندھ لی تھیں وہ اُن امیدوں پرپورا اتر تے دکھائی نہیںدیتے۔