نیشنل ایکشن پروگرام حائل رکاوٹیں

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے جتنی تنظیموں کوکالعدم کیا تھا، وہ سب اب دوبارہ فعال ہوچکی ہیں

حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے جتنی تنظیموں کوکالعدم کیا تھا، وہ سب اب دوبارہ فعال ہوچکی ہیں (فوٹو انٹرنیٹ)

ISLAMABAD:
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت امن و امان سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا ، اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردارکو ایک بار پھر سے بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ گزشتہ چار برس میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کو نظر اندازکرنے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع ہر حال میں یقینی بنائیں گے، پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے امن و امان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضا ہے۔

ملک سے دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے2014میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی، جس کے تحت وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں منظم اور موثر ہم آہنگی کے لیے نیکٹا کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اس سے مفر نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا کے قیام کے بعد سیکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف اپنی جان پرکھیل کر بھرپورکارروائیاں کیں، مگر بعض حلقوں کی طرف سے نیشنل ایکشن پروگرام پر اس کی تمام شقوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

اہم فیصلوں کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی اور عدم توجہی اس کی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے 8سال بعد بھی نیکٹا کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جاسکا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گرد دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔

حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے جتنی تنظیموں کوکالعدم کیا تھا، وہ سب اب دوبارہ فعال ہوچکی ہیں، جو ادارے دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں اور انتہا پسندی کی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں، ہم نے ان کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم کردیا، ان کا نام مختلف فہرستوں میں ڈال دیا، کیا صرف اتنا کر دینا ہی کافی ہے؟ عوام کو انتہاپسندی کے سیلاب سے بچانے کے لیے روشن خیال سیاست بے دست و پا ہو چکی ہے، میڈیا پر انتہا پسندی کے چاہنے والے اَن گنت شکلوں میں ایک ایسے تاریک دن کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں جس سے رات کی تاریکی بھی شرما جائے۔

نیشنل پلان میں ملک سے مسلح ملیشیاز کا خاتمہ کرنے کی شق بھی تھی، یہ کام پاک فوج کرتی رہی اور اس نے یہ کر بھی دکھایا اور خیبر پختونخوا کی قبائلی پٹی، بلوچستان اورکراچی سے دہشت گردوں کے مراکز اور لشکروں کا خاتمہ کر دیا مگر ملک میں مسلح جتھوں کوکام کرنے کی اجازت نہ دینے کا ہدف حاصل نہ ہو سکا اور سرکار کی ناک کے نیچے مسلح گروہ مختلف ناموں سے آج بھی کام کر رہے ہیں، اب بھی جلسے منعقد کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں، بیان بازی کرتے ہیں اور پہلے کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری رپورٹ میں ایسے کسی بھی مسلح گروہ کا ذکر نہیں جو پہلے تو سرگرمِ عمل تھا مگر نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں اسے ختم کر دیا گیا ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ عوام کو تحفظ کیسے دیا جائے دہشت گردی کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ جو عوامل دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں یا جن کے سہارے دہشت گرد پھلتے اور پھولتے ہیں، اْن کی بیخ کْنی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ ان میں مذہبی انتہا پسندی سرفہرست ہے، دیکھا جائے تو دہشت گردی مذہبی انتہا پسندی کی ہی پیداوار ہے۔ اس کی ایک شکل فرقہ واریت ہے جو نہ صرف نفرت اور عدم برداشت کو جنم دیتی ہے بلکہ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کا سبب بنتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے20 نکاتی پروگرام میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئی تھی، جن میں نفرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر پابندی اور لاؤڈ اسپیکرز کے غلط استعمال پر قید اور جرمانے کی سزا بھی شامل ہے، جن ذرایع سے پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے، اْن میں دہشت گرد تنظیموں کے لیے اندرون اور بیرون ملک مختلف حلقوں کی طرف سے فنڈز کی فراہمی بھی شامل ہے، چنانچہ نیشنل ایکشن پلان میں جو سفارشات کی گئی ہیں۔


اْن میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کی فراہمی روکنا بھی شامل تھا۔ چند تنظیموں کو دہشت گردی کے شْبے میں اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث پائے جانے کے الزام میں خلاف قانون قرار دے کر اْن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن ان کالعدم تنظیموں کی قیادت اور اْن کے کارکنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تنظیموں کا نہ صرف ڈھانچہ برقرار رہا بلکہ اْنہوں نے نئے نام کے ساتھ اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ ملک میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں ان کالعدم تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے20نکاتی پروگرام میں اْن تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو نئے ناموں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس امر کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی درج ہیں کہ پرانی تنظیمیں نئے لیبل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری نہ رکھ سکیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان کی ایک شق کے تحت اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ کالعدم دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تنظیموں کے سربراہان کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آکر اپنے مذموم پروپیگنڈہ کا موقعہ نہ مل سکے۔

اْن تمام جرائد اور اخبارات کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی جو نفرت اور تشدد پر اکسانے والے ان رہنماؤں کے خیالات اور تقریروں کو اپنے صفحات پر جگہ دیں گے۔دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یعنی اْن کے کمیونی کیشن سسٹم کا خاتمہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل ایکشن پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کرسکیں۔ وفاقی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کو دہشت گرد تنظیموں کی ویب سائٹوں کو ختم کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر ایسے اقدامات کی بھی سفارش کی گئی ہے جن کے تحت دہشت گرد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹا اور زہریلا پروپیگنڈا نہ پھیلا سکیں۔اب بھی پاکستان میں17لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ان کی اکثریت کیمپوں میں زندگی بسر کر رہی ہے اور کچھ خیبر پختون خوا کے شہروں میں اپنے رشتے داروں کے ہمراہ رہ رہے ہیں۔ حکام کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق افغان مہاجرین کے ان کیمپوں کو دہشت گرد اور دیگر جرائم میں ملوث افراد اور تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس بناء پر عوام کے مختلف حصوں کی طرف سے ان مہاجرین کو واپس اْن کے وطن بھیجنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے بھی امداد فراہم کی گئی ہے لیکن جب تک افغانستان کی طرف سے ان مہاجرین کی واپسی میں تعاون حاصل نہیں ہوتا ، اس کام کو انجام دینا محال نظر آتا ہے۔

دوسری طرف ان مہاجرین کی ایک لمبے عرصے سے پاکستان میں موجودگی سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کے مختلف حصوں خصوصا کے پی کے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ان مہاجرین کی واپسی کو ضروری قرار دیا جارہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ان تارکین وطن کی واپسی کو بھی ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان جرائم میں ملوث پائے جانے والے افراد کو فوری طور پر سزا دی جائے تاکہ دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں اور عوام کا ڈر اور خوف دور ہوسکے۔

بدقسمتی سے ہمارے قانونی اور عدالتی نظام میں موجود کچھ خامیوں کی وجہ سے دہشت گرد سزاؤں سے بچتے چلے آرہے تھے اس کی وجہ سے انھیں دہشت گردی کو مزید پھیلانے کا موقعہ ملا اور عوام میں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھا۔اگرچہ دہشت گردوں نے پورے ملک میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں ، جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن صوبہ کے پی کے ان کی سب سے بڑی آماجگاہ ہیں۔

فاٹا کے دہشت گردی کا مرکز بننے میں اس کے صدیوں پرانے سیاسی ، انتظامی اور سماجی نظام کا بڑا ہاتھ ہے۔ ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دے کر دہشت گردی کے خلاف اس کارروائی کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے ، تاکہ پاکستان کے عوام سکھ اور چین کی فضا میں سانس لے سکیں، ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہ سکے۔

اب حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے تو بہتر ہو گا کہ حکومت نیکٹا کو مکمل طور پر فعال کرنے کے لیے تمام ضروری وسائل فراہم کرے تاکہ سیکیورٹی اداروں کی استعداد کارکو بڑھا کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
Load Next Story