خیبر روڈ اور حکومتی رٹ
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سوچ غالب آ گئی ہے کہ حکومت کو مجبور کرنے کے لیے عام عوام کو تکلیف دی جائے
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سردار مہتاب احمد خان اس صوبے کے وزیراعلیٰ تھے تو انھوں نے سیکریٹری صحت کے عہدے پر ہمارے موجودہ وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے والد سلیم جھگڑا کو تعینات کر دیا۔
ان کی تعیناتی کے احکامات جاری ہونے کے ساتھ ہی صوبے کی ساری ڈاکٹرز برادری سراپا احتجاج بن گئی۔ اسپتالوں میں ہڑتال ہوئیں۔ سلیم جھگڑا وفاقی سیکٹریریٹ گروپ کے ایک تگڑے آفیسر تھے اللہ نے انھیں قد کاٹھ بھی اچھا دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبان کا یہ اعتراض تھا کہ وہ ڈاکٹر نہیں اسی لیے انھیں سیکریٹری ہیلتھ نہ بنایا جائے اور اس عہدے پر ایک ڈاکٹر کو تعینات کیا جائے جس کے پاس محکمے کو چلانے کے لیے سمجھ بوجھ موجود ہو اور وہ صوبے کے پورے صحت کے نظام سے گہری واقفیت رکھتا ہو۔ سردار مہتاب کی سوچ کچھ اور تھی۔
وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور مردان میڈیکل کمپلیکس جیسے ادارے جو کئی سال سے تعمیر مکمل ہونے کے باوجود چالو نہیں ہو سکے تھے کو جلد از جلد عوام کے لیے کھول دینا چاہتے تھے۔ جب احتجاج کافی شدید ہوا تو سردار مہتاب بھی غصے میں آ گئے اور انھوں نے صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پر پابندی لگا دی اور یہ تاریخی کلمات ادا کیے کہ سرکاری ملازمین حکومت کے ماتحت ہیں اس لیے انھیں ہڑتال اور سرکاری دفاتر بند کرنے کا حق حاصل نہیں۔ دوسرا عوامی فلاح کے کسی منصوبے کو صرف اپنے مفاد کے لیے عوام پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر جیت حکومت کی ہوئی اور سلیم جھگڑا سردار مہتاب حکومت کے خاتمے تک سیکریٹری صحت رہے۔
حیات آباد اور مردان میڈیکل کمپلیکس چالو بھی ہوئے اور آج کل ہزاروں مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ماضی کا یہ واقعہ صرف آئے روز اسمبلی چوک میں سرکاری ملازمین کے احتجاج کے باعث یاد آیا۔ ہر روز کسی نہ کسی محکمے کے ملازمین سڑکوں پر نکل کر خیبر روڈ سمیت جی ٹی روڈ جو شہر کی شہ رگ ہے بند کر دیتے ہیں۔ پھر پورا شہر جام ہو جاتا ہے۔ چند لمحوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔اردگرد کے راستے پہلے سے بند ہونے کے باعث صرف ایک دو راستے شہر، صدر اور یونیورسٹی کو ملانے کے لیے کھلے رہ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مہذب معاشروں میں احتجاج اور جلوس پر پابندی ہوتی ہے مگر وہاں پر احتجاج اپنے مطالبات کو حکومت کے سامنے رکھنے کے لیے انتہائی منتظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سوچ غالب آ گئی ہے کہ حکومت کو مجبور کرنے کے لیے عام عوام کو تکلیف دی جائے۔ اس طرح سے حکومت کو جلد دباؤ میں لایا جا سکتا ہے ابھی گزشتہ روز وکلا نے اس کا بھرپور عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھایا۔ انھوں نے خیبر روڈ پر ٹینٹ لگا کر اسے عام لوگوں کے لیے بند کر دیا تو حکومت چند لمحوں میں ہی ڈھیر ہو گئی۔ اسی لیے ہر احتجاج کرنے والی تنظیم چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے عوام ہی کو تکلیف دیتے ہیں اور یہ تکلیف جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی جلدی ان کے مطالبات بھی مانے جائیں گے۔
پہلے پہل ایسے مظاہرے پولیس یا انتظامی سرکاری افسران کے خلاف معمولی پیمانے پر ہوتے تھے پھر صوبے کی سطح پر ملازمین یا سیاسی جماعتیں احتجاج کی کال دیتی تھیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صرف ایک محکمہ صحت کے اندر ملازمین کی درجن سے زائد تنظیمیں ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز، ایڈ ہاک ڈاکٹرز، نرسنگ ایسوسی ایشن، ایڈہاک نرسیں، سینئر نرسیں نچلے ملازمین کی بھی اسی طرح کئی ناموں سے الگ الگ تنظیمیں ہیں۔ ایک روز ایک سڑک بند کرتے ہیں تو دوسرے روز دوسری تنظیم والے۔ اسی طرح سارے سرکاری محکموں کی یہی صورتحال ہے۔
ایک تو یہ اپنا سرکاری کام چھوڑ کر سڑک پر نکلتے ہیں اور پھر وہاں بھی روڈ بند کرکے عوام کو ہی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس دن کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور اکثر تو سرکار کی ہی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ آپ نے کبھی دیکھا یا سنا ہو گا کہ کسی شہر میں ریسکیو کے مرکزی دفتر کے باہر لوگ احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوں یا روڈ بند کی ہو۔ شیر شاہ سوری روڈ پر واقع ریسکیو کے مرکزی دفتر جہاں بڑی مشینری موجود ہوتی ہے روڈ بند کر دیا جاتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے۔
اوئے بھائی اگر احتجاج آپ کا آئینی حق ہے تو دوسرے شہریوں کو بھی آئینی حق حاصل ہیں۔ اپنے ایک آئینی حق کے لیے احتجاج کرنے والے دوسرے شہریوں کے کئی آئینی حقوق پامال کر رہے ہوتے ہیں۔ احتجاج کے لیے جمع ہونا قانونی حق صحیح لیکن سڑک بند کرنا کار سرکار میں مداخلت ہے اور قابل دست اندازی پولیس بھی ہے۔ تو پھر کیوں احتجاج کرنے والوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا کہ انھوں نے سڑک بند کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا۔ حکومت کی رٹ صرف ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ بندوبستی علاقوں میں قائم کرنی چاہیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے اس اہم مسئلے کی طرف فوری توجہ دے۔ اگر حکومت صرف سرکاری ملازمین کے احتجاجوں کو ہی کنٹرول کر لے تو شہریوں کی مشکلات میں کافی کمی ہو سکتی ہے ورنہ ہر روز کوئی نہ کوئی یہ سڑک بند کرکے اپنے کسی بھی مطالبے کو منوائے گا ایسے میں حکومتی رٹ سوتی ہے تو سوتی رہے۔
ان کی تعیناتی کے احکامات جاری ہونے کے ساتھ ہی صوبے کی ساری ڈاکٹرز برادری سراپا احتجاج بن گئی۔ اسپتالوں میں ہڑتال ہوئیں۔ سلیم جھگڑا وفاقی سیکٹریریٹ گروپ کے ایک تگڑے آفیسر تھے اللہ نے انھیں قد کاٹھ بھی اچھا دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبان کا یہ اعتراض تھا کہ وہ ڈاکٹر نہیں اسی لیے انھیں سیکریٹری ہیلتھ نہ بنایا جائے اور اس عہدے پر ایک ڈاکٹر کو تعینات کیا جائے جس کے پاس محکمے کو چلانے کے لیے سمجھ بوجھ موجود ہو اور وہ صوبے کے پورے صحت کے نظام سے گہری واقفیت رکھتا ہو۔ سردار مہتاب کی سوچ کچھ اور تھی۔
وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور مردان میڈیکل کمپلیکس جیسے ادارے جو کئی سال سے تعمیر مکمل ہونے کے باوجود چالو نہیں ہو سکے تھے کو جلد از جلد عوام کے لیے کھول دینا چاہتے تھے۔ جب احتجاج کافی شدید ہوا تو سردار مہتاب بھی غصے میں آ گئے اور انھوں نے صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پر پابندی لگا دی اور یہ تاریخی کلمات ادا کیے کہ سرکاری ملازمین حکومت کے ماتحت ہیں اس لیے انھیں ہڑتال اور سرکاری دفاتر بند کرنے کا حق حاصل نہیں۔ دوسرا عوامی فلاح کے کسی منصوبے کو صرف اپنے مفاد کے لیے عوام پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر جیت حکومت کی ہوئی اور سلیم جھگڑا سردار مہتاب حکومت کے خاتمے تک سیکریٹری صحت رہے۔
حیات آباد اور مردان میڈیکل کمپلیکس چالو بھی ہوئے اور آج کل ہزاروں مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ماضی کا یہ واقعہ صرف آئے روز اسمبلی چوک میں سرکاری ملازمین کے احتجاج کے باعث یاد آیا۔ ہر روز کسی نہ کسی محکمے کے ملازمین سڑکوں پر نکل کر خیبر روڈ سمیت جی ٹی روڈ جو شہر کی شہ رگ ہے بند کر دیتے ہیں۔ پھر پورا شہر جام ہو جاتا ہے۔ چند لمحوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔اردگرد کے راستے پہلے سے بند ہونے کے باعث صرف ایک دو راستے شہر، صدر اور یونیورسٹی کو ملانے کے لیے کھلے رہ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مہذب معاشروں میں احتجاج اور جلوس پر پابندی ہوتی ہے مگر وہاں پر احتجاج اپنے مطالبات کو حکومت کے سامنے رکھنے کے لیے انتہائی منتظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سوچ غالب آ گئی ہے کہ حکومت کو مجبور کرنے کے لیے عام عوام کو تکلیف دی جائے۔ اس طرح سے حکومت کو جلد دباؤ میں لایا جا سکتا ہے ابھی گزشتہ روز وکلا نے اس کا بھرپور عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھایا۔ انھوں نے خیبر روڈ پر ٹینٹ لگا کر اسے عام لوگوں کے لیے بند کر دیا تو حکومت چند لمحوں میں ہی ڈھیر ہو گئی۔ اسی لیے ہر احتجاج کرنے والی تنظیم چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے عوام ہی کو تکلیف دیتے ہیں اور یہ تکلیف جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی جلدی ان کے مطالبات بھی مانے جائیں گے۔
پہلے پہل ایسے مظاہرے پولیس یا انتظامی سرکاری افسران کے خلاف معمولی پیمانے پر ہوتے تھے پھر صوبے کی سطح پر ملازمین یا سیاسی جماعتیں احتجاج کی کال دیتی تھیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صرف ایک محکمہ صحت کے اندر ملازمین کی درجن سے زائد تنظیمیں ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز، ایڈ ہاک ڈاکٹرز، نرسنگ ایسوسی ایشن، ایڈہاک نرسیں، سینئر نرسیں نچلے ملازمین کی بھی اسی طرح کئی ناموں سے الگ الگ تنظیمیں ہیں۔ ایک روز ایک سڑک بند کرتے ہیں تو دوسرے روز دوسری تنظیم والے۔ اسی طرح سارے سرکاری محکموں کی یہی صورتحال ہے۔
ایک تو یہ اپنا سرکاری کام چھوڑ کر سڑک پر نکلتے ہیں اور پھر وہاں بھی روڈ بند کرکے عوام کو ہی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس دن کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور اکثر تو سرکار کی ہی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ آپ نے کبھی دیکھا یا سنا ہو گا کہ کسی شہر میں ریسکیو کے مرکزی دفتر کے باہر لوگ احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوں یا روڈ بند کی ہو۔ شیر شاہ سوری روڈ پر واقع ریسکیو کے مرکزی دفتر جہاں بڑی مشینری موجود ہوتی ہے روڈ بند کر دیا جاتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے۔
اوئے بھائی اگر احتجاج آپ کا آئینی حق ہے تو دوسرے شہریوں کو بھی آئینی حق حاصل ہیں۔ اپنے ایک آئینی حق کے لیے احتجاج کرنے والے دوسرے شہریوں کے کئی آئینی حقوق پامال کر رہے ہوتے ہیں۔ احتجاج کے لیے جمع ہونا قانونی حق صحیح لیکن سڑک بند کرنا کار سرکار میں مداخلت ہے اور قابل دست اندازی پولیس بھی ہے۔ تو پھر کیوں احتجاج کرنے والوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا کہ انھوں نے سڑک بند کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا۔ حکومت کی رٹ صرف ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ بندوبستی علاقوں میں قائم کرنی چاہیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے اس اہم مسئلے کی طرف فوری توجہ دے۔ اگر حکومت صرف سرکاری ملازمین کے احتجاجوں کو ہی کنٹرول کر لے تو شہریوں کی مشکلات میں کافی کمی ہو سکتی ہے ورنہ ہر روز کوئی نہ کوئی یہ سڑک بند کرکے اپنے کسی بھی مطالبے کو منوائے گا ایسے میں حکومتی رٹ سوتی ہے تو سوتی رہے۔