لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں
رابنسن کروسو کی طرح کسی گمنام جزیرے پر اپنی دنیا آباد کر لیں، شریانوں میں دوڑتا ہوا لہو آپ کا تعاقب کرتا ہے
رات کا وقت ہو، سمندر کا سفر ہو، تاروں کی جھلملاہٹ میں آپ کو لہروں پر کاغذ کی کشتیاں تیرتی نظر آئیں گی اور ان کشتیوں میں لفظ ہوں گے۔ یہ لوگوں کی کہانیاں ہیں، اجنبی لوگوں کی کہانیاں، جنھیں پڑھتے ہی آپ کو وہ اپنے لگیں گے، ان کے دکھ سکھ بھی آپ کو آشنا محسوس ہوں گے۔
کچھ ایسا ہی راجہ شہزاد کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے بھی محسوس ہوا۔ ان کے محبوب دوست شعیب گنڈا پور جو انگلستان میں رہتے ہیں، انھوں نے راجہ شہزاد کو ان کہانیوں کی اشاعت پر مجبور کیا۔ شہزاد نے اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ :
راقم کی وابستگی ریڈیو پاکستان کراچی سے ''بچوں کی دنیا'' سے شروع ہوئی اور ''بزمِ طلبا'' سے ہوتے ہوئے برس یا دو انویسٹیگیٹو جرنلزم تک رہی۔ چند ایک ڈرامے بھی لکھے۔ یہ وابستگی اگرچہ عنفوانِ شباب میں ہی ختم ہوئی (یعنی بہ عمر انیس بیس برس) لیکن خوش قسمتی رہی کہ یاور مہدی اور عصمت زہرہ (بہت حسین ، ذہین اور دوست نما سینئر پروڈیوسر جو انتظار حسین کی بھانجی بھی تھیں) جیسے شفیق اور باہنر لوگوں کی چھتر چھایا ملی۔
چوں کہ راقم کی مادری زبان سندھی/ کچھی اور فادری زبان پہاڑی پوٹھوہاری ہے، تو اردو سے محبت کے صلے میں کائنات نے ریڈیو پاکستان کراچی میں یہ دو قدآور اور زبان دان اساتذہ دیے۔ جو آٹھ برس وہاں گزرے، اردو کے حُسن کو برتنے کا موقع ملا۔
اردو سے محبت کا ایک اور ربط و رشتہ ہمارے اسکول کی اُردو کی استاد مس شہناز بھی تھیں۔ غالباً یوپی کے پہاڑوں سے ان کے اجداد آئے ہوں گے۔ کرنچی آنکھیں، ترک نقش، اکثر سفید سلک پہنتیں اور جتنے سلیقے سے تیار ہوتیں، اتنے ہی سلیقے سے بات کرتیں۔ کلاس میں میرے علاوہ بہت کم ہی طلبا اردو ادب اور شاعری میں انٹرسٹڈ تھے۔ یہ بھی نعمت تھی کہ وہ تیرہ چودہ برس کے اس طالب علم سے اردو ادب و فلسفہ ڈسکس کرتیں اور کتابوں کا تبادلہ کرتیں۔
ایک بار ہاف ٹائم میں مجھے '' بہاء اللہ و عصرِ جدید'' پڑھتا پایا اور مانگ کر لے گئیں۔ کچھ ہفتوں بعد اس پر ہم نے سیر حاصل بات کی۔ اب سوچتا ہوں کہ کتنا خوش نصیب رہا کہ ہمیشہ اچھے لوگ ملے۔
ان کا افسانوی مجموعہ مکتبۂ دانیال کی چوری نورانی نے شایع کیا ہے اور بہت سجا سنوار کر اس کی پیشکش کی ہے۔ میں نے اس مجموعے کی پشت پر لکھا ہے۔
آپ سات سمندر پار کرلیں، رابنسن کروسو کی طرح کسی گمنام جزیرے پر اپنی دنیا آباد کر لیں، شریانوں میں دوڑتا ہوا لہو آپ کا تعاقب کرتا ہے۔ دور دراز رہ جانے والے لوگوں کی پرچھائیاں آپ کے ذہن میں بھنور ڈالتی ہیں اور آپ انھیں لفظوں میں قید کرتے ہیں۔
ایسے ہی راجہ شہزاد نے بھی رہنے کے لیے دنیا کا آخری کونا منتخب کیا۔ وہ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور شاید عمر بھر وہیں رہنے کا ارادہ ہے۔ ان کی ڈیڑھ ، دو اور تین صفحات کی کہانیوں میں سے کردار نکلتے چلے آتے ہیں۔ فاتح مفتوح ، ہندو مسلمان ، اصیل رذیل، اشراف نور باف ، اللہ میاں کی چڑیاں اور دولہ شاہ کے چوہے، بس یوں کہیے کہ کرداروں کی آبادی سے آبادی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ انھیں یہ سب لوگ اپنی جزئیات کے ساتھ سال ہا سال بعد بھی کیسے یاد رہے۔
وہ قرۃ العین حیدر کو مرشدِ اعظم مانتے ہیں۔ ''اگیاری '' اس مجموعے میں شامل ان کا ایک ایسا ناولٹ ہے جس پر قرۃ العین کے رنگ کی چھوٹ ہے۔ ایک مٹتی ہوئی قوم ، تہذیب اور اس کے بجھتے ہوئے آتش کدوں کی بھوبھل اس ناولٹ میں نظر آتی ہے۔
انھوں نے جس دردمندی سے کراچی کی پارسی اقلیت کے دکھ پروئے ہیں اور پنجاب میں فرنگی پادریوں کے ہاتھوں کرسچن ہو جانے والی برادری کے درد کو محسوس کیا ہے، وہ ان کے نوکِ قلم سے لہو بن کر ٹپکا ہے۔
راجہ شہزاد کی کہانیاں ملال کے مجیٹھے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں جیسے ہار سنگھار کی ڈنڈیوں سے رضائی کی فرو رنگی جاتی ہے۔ کراچی کی جمیلہ اسٹریٹ، لاہور کا شاہ عالمی بازار، کوئٹہ کے وفا روڈ اور توغی روڈ، کون سا شہر اور کون سی بستی ہے جو ان سے چھوٹی ہے! ان کے کرداروں کو وہ زخم آئے ہیں جنھیں کوئی مرہم درکار نہیں۔ وقت کی ریت ان کی مٹھیوں سے سرکتی جاتی ہے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں۔
راجہ شہزاد خوش نصیب ہیں کہ انھیں ثریا ایسی بیوی اور شعیب گنڈا پور اور شمس حامد ایسے یارِ غار ملے۔ وہ غار کی پناہ میں آنے والے کسی جوگی بیراگی کی طرح ہیں، تب ہی کہانیاں چھپوانے سے شرماتے ہیں۔ وہ اسی طرح شرماتے رہیں اور کہانیاں لکھتے رہیں لیکن لازم نہیں کہ اتنی مختصر کہانیاں لکھیں۔
کچھ ایسا ہی راجہ شہزاد کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے بھی محسوس ہوا۔ ان کے محبوب دوست شعیب گنڈا پور جو انگلستان میں رہتے ہیں، انھوں نے راجہ شہزاد کو ان کہانیوں کی اشاعت پر مجبور کیا۔ شہزاد نے اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ :
راقم کی وابستگی ریڈیو پاکستان کراچی سے ''بچوں کی دنیا'' سے شروع ہوئی اور ''بزمِ طلبا'' سے ہوتے ہوئے برس یا دو انویسٹیگیٹو جرنلزم تک رہی۔ چند ایک ڈرامے بھی لکھے۔ یہ وابستگی اگرچہ عنفوانِ شباب میں ہی ختم ہوئی (یعنی بہ عمر انیس بیس برس) لیکن خوش قسمتی رہی کہ یاور مہدی اور عصمت زہرہ (بہت حسین ، ذہین اور دوست نما سینئر پروڈیوسر جو انتظار حسین کی بھانجی بھی تھیں) جیسے شفیق اور باہنر لوگوں کی چھتر چھایا ملی۔
چوں کہ راقم کی مادری زبان سندھی/ کچھی اور فادری زبان پہاڑی پوٹھوہاری ہے، تو اردو سے محبت کے صلے میں کائنات نے ریڈیو پاکستان کراچی میں یہ دو قدآور اور زبان دان اساتذہ دیے۔ جو آٹھ برس وہاں گزرے، اردو کے حُسن کو برتنے کا موقع ملا۔
اردو سے محبت کا ایک اور ربط و رشتہ ہمارے اسکول کی اُردو کی استاد مس شہناز بھی تھیں۔ غالباً یوپی کے پہاڑوں سے ان کے اجداد آئے ہوں گے۔ کرنچی آنکھیں، ترک نقش، اکثر سفید سلک پہنتیں اور جتنے سلیقے سے تیار ہوتیں، اتنے ہی سلیقے سے بات کرتیں۔ کلاس میں میرے علاوہ بہت کم ہی طلبا اردو ادب اور شاعری میں انٹرسٹڈ تھے۔ یہ بھی نعمت تھی کہ وہ تیرہ چودہ برس کے اس طالب علم سے اردو ادب و فلسفہ ڈسکس کرتیں اور کتابوں کا تبادلہ کرتیں۔
ایک بار ہاف ٹائم میں مجھے '' بہاء اللہ و عصرِ جدید'' پڑھتا پایا اور مانگ کر لے گئیں۔ کچھ ہفتوں بعد اس پر ہم نے سیر حاصل بات کی۔ اب سوچتا ہوں کہ کتنا خوش نصیب رہا کہ ہمیشہ اچھے لوگ ملے۔
ان کا افسانوی مجموعہ مکتبۂ دانیال کی چوری نورانی نے شایع کیا ہے اور بہت سجا سنوار کر اس کی پیشکش کی ہے۔ میں نے اس مجموعے کی پشت پر لکھا ہے۔
آپ سات سمندر پار کرلیں، رابنسن کروسو کی طرح کسی گمنام جزیرے پر اپنی دنیا آباد کر لیں، شریانوں میں دوڑتا ہوا لہو آپ کا تعاقب کرتا ہے۔ دور دراز رہ جانے والے لوگوں کی پرچھائیاں آپ کے ذہن میں بھنور ڈالتی ہیں اور آپ انھیں لفظوں میں قید کرتے ہیں۔
ایسے ہی راجہ شہزاد نے بھی رہنے کے لیے دنیا کا آخری کونا منتخب کیا۔ وہ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور شاید عمر بھر وہیں رہنے کا ارادہ ہے۔ ان کی ڈیڑھ ، دو اور تین صفحات کی کہانیوں میں سے کردار نکلتے چلے آتے ہیں۔ فاتح مفتوح ، ہندو مسلمان ، اصیل رذیل، اشراف نور باف ، اللہ میاں کی چڑیاں اور دولہ شاہ کے چوہے، بس یوں کہیے کہ کرداروں کی آبادی سے آبادی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ انھیں یہ سب لوگ اپنی جزئیات کے ساتھ سال ہا سال بعد بھی کیسے یاد رہے۔
وہ قرۃ العین حیدر کو مرشدِ اعظم مانتے ہیں۔ ''اگیاری '' اس مجموعے میں شامل ان کا ایک ایسا ناولٹ ہے جس پر قرۃ العین کے رنگ کی چھوٹ ہے۔ ایک مٹتی ہوئی قوم ، تہذیب اور اس کے بجھتے ہوئے آتش کدوں کی بھوبھل اس ناولٹ میں نظر آتی ہے۔
انھوں نے جس دردمندی سے کراچی کی پارسی اقلیت کے دکھ پروئے ہیں اور پنجاب میں فرنگی پادریوں کے ہاتھوں کرسچن ہو جانے والی برادری کے درد کو محسوس کیا ہے، وہ ان کے نوکِ قلم سے لہو بن کر ٹپکا ہے۔
راجہ شہزاد کی کہانیاں ملال کے مجیٹھے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں جیسے ہار سنگھار کی ڈنڈیوں سے رضائی کی فرو رنگی جاتی ہے۔ کراچی کی جمیلہ اسٹریٹ، لاہور کا شاہ عالمی بازار، کوئٹہ کے وفا روڈ اور توغی روڈ، کون سا شہر اور کون سی بستی ہے جو ان سے چھوٹی ہے! ان کے کرداروں کو وہ زخم آئے ہیں جنھیں کوئی مرہم درکار نہیں۔ وقت کی ریت ان کی مٹھیوں سے سرکتی جاتی ہے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں۔
راجہ شہزاد خوش نصیب ہیں کہ انھیں ثریا ایسی بیوی اور شعیب گنڈا پور اور شمس حامد ایسے یارِ غار ملے۔ وہ غار کی پناہ میں آنے والے کسی جوگی بیراگی کی طرح ہیں، تب ہی کہانیاں چھپوانے سے شرماتے ہیں۔ وہ اسی طرح شرماتے رہیں اور کہانیاں لکھتے رہیں لیکن لازم نہیں کہ اتنی مختصر کہانیاں لکھیں۔