پارلیمنٹ کو خود کمزور کرنے والے
موجودہ پارلیمنٹ کی صورت حال ماضی سے مختلف ہے جہاں حکومت کو بمشکل دو چار ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے
سپریم کورٹ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو کمزورکیا جا رہا ہے ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ادارہ کوتاہی کر رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔
چند روز قبل پیپلز پارٹی کے رہنما وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے بجٹ اجلاس میں وزیر اعظم ، وزرا اور ارکان کے پارلیمنٹ نہ آنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہا ہے کہ آپ کو ایوان میں آنا چاہیے۔ جو ارکان آتے ہیں ان کا کیا قصور ہے کہ آ کر بیٹھ جائیں اور دو گھنٹے بعد گھر واپس چلے جائیں اگر یہ طریقہ رہا تو پھر ہم بھی نہیں آئیں گے۔
سینیٹ میں بھی یہ حال ہے کہ اتنی بڑی کابینہ میں بعض دفعہ ایک وزیر بھی موجود نہیں ہوتا۔ وفاقی وزرا تو کیا موجودہ اور سابق وزرائے اعظم کا بھی سینیٹ کو نظر انداز کرنا معمول رہا ہے۔
پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی کو نظرانداز کرنا حکمران طبقہ کا وتیرہ رہا ہے ۔ حکومت کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کی اکثریت قومی اسمبلی جان بوجھ کر نہیں آ رہی ۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ نہیں آتے تھے البتہ ہر منگل کو کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ قومی اسمبلی کی اہمیت یہ ہے کہ وزیر اعظم کو یہی ایوان منتخب کراتا ہے اور بجٹ کی منظوری بھی قومی اسمبلی دیتی ہے۔
قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی قانون نہیں بنتا۔ کہنے کو سینیٹ بالاتر ہے جہاں تمام صوبوں کی یکساں نمایندگی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں ایسا نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کے پسندیدہ لوگ منتخب ہوتے ہیں جو اپنی پارٹی کی نمایندگی کرتے ہیں اور سینیٹ میں امیر لوگ آزادانہ طور پر بھی منتخب ہو کر آجاتے ہیں۔وقت کے وزیر اعظم کو جب مرضی کی قانون سازی کرنا ہو تو وہ قومی اسمبلی مجبوری میں آجاتے ہیں۔
اکثر وہ قومی اسمبلی آنا گوارا نہیں کرتے۔ قومی اسمبلی کے تقریباً ہر اجلاس میں شرکت کا ریکارڈ صرف وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور یوسف رضا گیلانی کا ہے جس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دونوں اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ نہیں تھے اور وہ اپنے پارٹی سربراہوں کے علاوہ خود کو پارلیمنٹ میں جواب دہ بھی سمجھتے تھے۔ (ق) لیگ کے وزیر اعظم شوکت عزیز خود کو پارلیمنٹ کی بجائے صدر جنرل پرویز مشرف کو اہمیت دیتے تھے اور انھیں جنرل مشرف نے ہی منتخب کرایا تھا تو وہ قومی اسمبلی آنا کیوں ضروری سمجھتے۔
وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو صدر جنرل ضیا الحق نے منتخب کرایا تھا مگر وہ پارلیمنٹ کو نظرانداز نہیں کرتے تھے۔حکمران ہی جب ملک کے سب سے اہم ادارے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دے گا تو حکمران پارٹیوں کے ارکان کو کیا پڑی کہ وہ ایوان میں آئیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی صورت حال ماضی سے مختلف ہے جہاں حکومت کو بمشکل دو چار ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور حکومتی پارٹی کے ارکان کا یہ حال ہے کہ وہ بجٹ اجلاس میں بھی نہیں آ رہے جبکہ یہ جب اپوزیشن میں تھے تو پارلیمنٹ میں بعض دفعہ ان کی تعداد حکومتی ارکان سے زیادہ ہوتی تھی اور اسی خوف سے حکومتی ارکان ایوان میں آجاتے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کاروں کے مطابق چاہے وفاق ہو یا صوبے عدالتیں نظام چلا رہی ہیں۔ عدالتوں کو ملوث بھی تو قومی اسمبلی کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کیا ہے جو اگر آئین کے مطابق ایوان چلاتے تو عدالتوں میں جانے کی نوبت نہ آتی۔ ان کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا گیا تو پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی کمزور ہوئیں اور عدالتوں کو نظام چلانا پڑا۔
پنجاب جیسی صورت حال اور کسی صوبائی اسمبلی کی نہیں ہے جہاں دس صوبائی نشستیں رکھنے والی (ق) لیگ کے اسپیکر نے شریف فیملی کی مخالفت میں عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی کو تماشا بنایا اور بجٹ پیش نہ ہونے دیا جس پر حکومت کو گورنر کے حکم پر ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس منعقد کرنا پڑا۔ جب قومی و صوبائی اسمبلیوں ہی میں آئین پر عمل نہ کیا جائے اور اسپیکر غیر جانبدار نہ رہیں تو یہی صورت حال ہوتی ہے۔ زیادہ ذمے داری ارکان پارلیمنٹ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خود پارلیمنٹ کی کمزوریوں کو دور کریں۔
چند روز قبل پیپلز پارٹی کے رہنما وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے بجٹ اجلاس میں وزیر اعظم ، وزرا اور ارکان کے پارلیمنٹ نہ آنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہا ہے کہ آپ کو ایوان میں آنا چاہیے۔ جو ارکان آتے ہیں ان کا کیا قصور ہے کہ آ کر بیٹھ جائیں اور دو گھنٹے بعد گھر واپس چلے جائیں اگر یہ طریقہ رہا تو پھر ہم بھی نہیں آئیں گے۔
سینیٹ میں بھی یہ حال ہے کہ اتنی بڑی کابینہ میں بعض دفعہ ایک وزیر بھی موجود نہیں ہوتا۔ وفاقی وزرا تو کیا موجودہ اور سابق وزرائے اعظم کا بھی سینیٹ کو نظر انداز کرنا معمول رہا ہے۔
پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی کو نظرانداز کرنا حکمران طبقہ کا وتیرہ رہا ہے ۔ حکومت کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کی اکثریت قومی اسمبلی جان بوجھ کر نہیں آ رہی ۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ نہیں آتے تھے البتہ ہر منگل کو کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ قومی اسمبلی کی اہمیت یہ ہے کہ وزیر اعظم کو یہی ایوان منتخب کراتا ہے اور بجٹ کی منظوری بھی قومی اسمبلی دیتی ہے۔
قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی قانون نہیں بنتا۔ کہنے کو سینیٹ بالاتر ہے جہاں تمام صوبوں کی یکساں نمایندگی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں ایسا نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کے پسندیدہ لوگ منتخب ہوتے ہیں جو اپنی پارٹی کی نمایندگی کرتے ہیں اور سینیٹ میں امیر لوگ آزادانہ طور پر بھی منتخب ہو کر آجاتے ہیں۔وقت کے وزیر اعظم کو جب مرضی کی قانون سازی کرنا ہو تو وہ قومی اسمبلی مجبوری میں آجاتے ہیں۔
اکثر وہ قومی اسمبلی آنا گوارا نہیں کرتے۔ قومی اسمبلی کے تقریباً ہر اجلاس میں شرکت کا ریکارڈ صرف وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور یوسف رضا گیلانی کا ہے جس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دونوں اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ نہیں تھے اور وہ اپنے پارٹی سربراہوں کے علاوہ خود کو پارلیمنٹ میں جواب دہ بھی سمجھتے تھے۔ (ق) لیگ کے وزیر اعظم شوکت عزیز خود کو پارلیمنٹ کی بجائے صدر جنرل پرویز مشرف کو اہمیت دیتے تھے اور انھیں جنرل مشرف نے ہی منتخب کرایا تھا تو وہ قومی اسمبلی آنا کیوں ضروری سمجھتے۔
وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو صدر جنرل ضیا الحق نے منتخب کرایا تھا مگر وہ پارلیمنٹ کو نظرانداز نہیں کرتے تھے۔حکمران ہی جب ملک کے سب سے اہم ادارے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دے گا تو حکمران پارٹیوں کے ارکان کو کیا پڑی کہ وہ ایوان میں آئیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی صورت حال ماضی سے مختلف ہے جہاں حکومت کو بمشکل دو چار ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور حکومتی پارٹی کے ارکان کا یہ حال ہے کہ وہ بجٹ اجلاس میں بھی نہیں آ رہے جبکہ یہ جب اپوزیشن میں تھے تو پارلیمنٹ میں بعض دفعہ ان کی تعداد حکومتی ارکان سے زیادہ ہوتی تھی اور اسی خوف سے حکومتی ارکان ایوان میں آجاتے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کاروں کے مطابق چاہے وفاق ہو یا صوبے عدالتیں نظام چلا رہی ہیں۔ عدالتوں کو ملوث بھی تو قومی اسمبلی کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کیا ہے جو اگر آئین کے مطابق ایوان چلاتے تو عدالتوں میں جانے کی نوبت نہ آتی۔ ان کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا گیا تو پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی کمزور ہوئیں اور عدالتوں کو نظام چلانا پڑا۔
پنجاب جیسی صورت حال اور کسی صوبائی اسمبلی کی نہیں ہے جہاں دس صوبائی نشستیں رکھنے والی (ق) لیگ کے اسپیکر نے شریف فیملی کی مخالفت میں عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی کو تماشا بنایا اور بجٹ پیش نہ ہونے دیا جس پر حکومت کو گورنر کے حکم پر ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس منعقد کرنا پڑا۔ جب قومی و صوبائی اسمبلیوں ہی میں آئین پر عمل نہ کیا جائے اور اسپیکر غیر جانبدار نہ رہیں تو یہی صورت حال ہوتی ہے۔ زیادہ ذمے داری ارکان پارلیمنٹ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خود پارلیمنٹ کی کمزوریوں کو دور کریں۔