وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب منحرف ارکان کو نکال کر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے آج دوبارہ ووٹنگ کا حکم دے دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما و اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کی جانب سے حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں جنہیں لاہور ہائی کورٹ نے مںظور کرلیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے درخواست پر حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے ان کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ پی ٹی آئی اور دیگر کی اپیل پر جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے سنایا۔
لاہور ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں 16 اپریل کا حمزہ شہباز کے حلف کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے گورنر کے انتخاب سے متعلق مراسلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی فیصلہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جس میں عدالت نے حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آج سے حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے فیصلے غیر موثر ہوں گے، وہ وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے اور ان کی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صوبے اور عوامی مفاد میں کیے گئے 30 اپریل سے آج تک حمزہ شہباز اور کابینہ کے تمام اقدامات کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر پنجاب یکم جولائی شام 4 بجے اجلاس بلائیں جس میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے، تمام ادارے عدالتی احکامات کی پاس داری کرائیں، وزیر اعلی کے انتخاب کا عمل مکمل کیے بغیر اجلاس ملتوی نہیں ہوگا۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ گورنر پنجاب آرٹیکل 130 کی شق پانچ کے تحت اپنے فرائض سر انجام دیں گے، گورنر پنجاب نومنتخب وزیر اعلیٰ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے حلف لیں گے، گورنر الیکشن کے کنڈکٹ کے متعلق اپنی رائے نہیں دیں گے، گورنر الیکشن پروسیس سے اگلے روز 11 بجے تک حلف لینے کا پابند ہوگا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ڈی سیٹ کیے گئے 25 ارکان کے ووٹ دوبارہ شمار نہیں کیے جائیں گے۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ پریزائیڈنگ افسر کا کردار ادا نہیں کرسکتی اس لیے ڈی سیٹ ہونے والے پچیس ارکان کے ووٹ نکال کر دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی جائے.
یہ فصلہ پانچ رکن پر مشتمل لارجر بنچ نے دیا جس میں شامل جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے بنچ کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس ساجد محمود نے عثمان بزدار کو قائم مقام وزیرعلی کے عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ دیا۔