تارکین وطن کے مسائل پر غور

دنیا بھر کے ممالک میں پھیلے ہوئے پاکستانی تارکین وطن کی سوچ کا محور ان کا اپنا مادر وطن ہی رہتا ہے

رباب بست و کشاد تارکین وطن کی شکایات و مسائل سے بالعموم اغماض برتتے نظر آتے ہیں۔فوٹو:فائل

KARACHI:
دنیا بھر کے ممالک میں پھیلے ہوئے پاکستانی تارکین وطن کی سوچ کا محور ان کا اپنا مادر وطن ہی رہتا ہے اور ان کے نہاں خانۂ دل میں طے شدہ مالیاتی ہدف مکمل ہونے پر اپنے آبائی گھر لوٹنے کی تمنا مچلتی رہتی ہے۔ ان کی اکثریت اپنے گھر والوں کے اخراجات کی کفالت کرنے کے علاوہ اپنے مستقبل کے لیے کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتے ہیں جس سے پاکستان کے سرکاری خزانے میں زر مبادلہ کے ذخیرہ کی مطلوبہ سطح کے قائم رہنے میں مدد ملتی ہے جس سے حکومت کو ان تارکین وطن کی ترسیلات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ارباب بست و کشاد تارکین وطن کی شکایات و مسائل سے بالعموم اغماض برتتے نظر آتے ہیں۔ بیرون ملک اچھی ملازمت یا کاروبار کرنے والے یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی قطعۂ اراضی یا پراپرٹی وغیرہ خرید لی جائے جو وطن لوٹنے پر ان کے کام آئے مگر بسا اوقات ان کے اثاثہ جات قبضہ گروپوں کے تصرف میں آجاتے ہیں اور ملکی نظام انصاف ان کی مدد سے قاصر رہتا ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے، جس کا اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان کی زیر صدارت سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ہوا۔


بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے مقدمات چھ ماہ میں نمٹانے، ان کی شکایات کے ازالے کے لیے ڈویژن کی سطح پر خصوصی تھانے بنانے اور تمام ہائی کورٹس میں تارکین وطن کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے ہیلپ لائن قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ سفارشات یقیناً تارکین وطن کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اصل سوال ان سفارشات پر کما حقہ عمل درآمد کا ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اس معاملے پر خصوصی توجہ دیں گے۔ چیف جسٹس نے پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں تلقین کی کہ تمام سطح کی عدالتوں میں بر وقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے کیونکہ فوری اور ارزاں انصاف کی فراہمی عدلیہ کی اولین ذمے داری اور ترجیح ہے۔ انھوں نے حکومت سے عدالتوں میں ججز کی تعداد بڑھانے کا تقاضہ بھی کیا اور کہا ہے کہ ماتحت عدالتوں میں ججوں کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر اور سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔ اس سوال کا جواب حکومت کو اپنی گورننس کو بہتر بنا کر دینا ہو گا۔
Load Next Story