وفاقی بجٹ منظور معاشی ترجیحات کا تعین
بجٹ میں ایسے ٹیکس اور لیویز موجود ہیں جن کا تقریر میں ذکر نہیں ہوا
قومی اسمبلی نے مالی سال 2023-22 کے لیے وفاقی بجٹ (فنانس بل) کی کثرت رائے سے منظوری دیدی، شق وار منظوری کے دوران پیٹرولیم لیوی کی قیمت میں مرحلہ وار 50 روپے لیٹر اضافے، 10فیصد سپر ٹیکس اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف ختم کرکے نئی ٹیکس شرح کی ترامیم کی منظوری دی گئی، موبائل فون کی درآمد پر 16ہزار تک لیوی عائد ہوگی۔
ایئر لائنز، آٹوموبیل، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزرز، اسٹیل، شوگرانڈسٹری، ٹیکسٹائل، بینکنگ اور دیگر سیکٹرز پر 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر 200فیصد کردی گئی، LPG کے فی میٹرک ٹن یونٹ پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنیکی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔بعد ازاں مالی بل 2022 منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
قومی بجٹ سال بھر کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے، ہر سال قومی بجٹ کو عوام دوست بجٹ قرار دیا جاتا ہے مگر قومی بجٹ مالیاتی اعدادوشمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہوتا ہے جسے عوام سمجھ ہی نہیں پاتے البتہ جب عام آدمی اشیاء کی خریداری کے لیے بازار جاتا ہے تو اسے آٹے دال کے بھاؤ سے نئے بجٹ کی سمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت اپنے اقتصادی اور معاشی ماہرین کی مدد اور مشاورت کے بعد ملکی محاصل (آمدنی)، تقریباً 466ارب روپے کے اضافی وسائل حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جس کے لیے 10 فیصد تک سُپر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقیناً اس کے ملکی معیشت پر جہاں دور رس اثرات مرتب ہوں گے وہاں عوام الناس کے مختلف طبقات پر بھی اس کے اثرات اضافی بوجھ کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف سے عمران حکومت کے قرضے کے معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کے مشکل اور عوام میں ناراضگی کا باعث بننے والے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت قرض کی بقیہ اقساط ہی نہ مل سکیں بلکہ آیند ہ کے لیے بھی آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے بچانے کے لیے اس طرح کے مشکل فیصلے کرنے ضروری تھے۔
اس سے قبل میاں شہباز شریف کی حکومت پچھلے ایک ماہ کے دوران پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں بھی بھاری اضافہ، کم از کم 84روپے سے زائد فی لیٹر کر چکی ہے، بعض معاشی ہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ایسے ٹیکس اور لیویز موجود ہیں جن کا تقریر میں ذکر نہیں ہوا، فنانس بل میں انھیں شامل کرکے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کی بری خبرسنائی گئی ہے جس کا نشانہ متوسط طبقہ بنے گا،تاہم دوسری جانب کچھ معاشی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس سلیب میں تبدیلی اور 6لاکھ کی سالانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ اور 6لاکھ سے 12لاکھ آمدنی پر 100 روپے ٹیکس ادا کرنے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ لوگ سرکاری نوکری میں ہی اپنا محفوظ مستقبل دیکھ رہے ہیں، سوائے ملازمت کے کوئی اور شعبہ بچا ہی نہیں ہے۔
ان لوگوں کے متعلق کوئی غور و خوض بھی نہیں ہے جو ملازمت کے نام پر سرکار پر بوجھ نہیں بنے ہیں، ان لوگوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے جو غربت کی لکیر کے آس پاس یا اس نیچے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ٹیکسز میں سب سے زیادہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات اور لیوی کی مد میں 750 ارب اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کرکے کیا گیا، تاحال حکومت لیوی کی مد میں 135ارب اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آیندہ مالی سال کے آغاز میں ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم 30 روپے فی لیٹر مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
آیندہ مالی سال کے لیے حکومت نے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج اور ایل پی جی پر لیوی سمیت دیگر مدات میں بھی ملک کی ناگفتہ بہ معیشت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔وفاقی بجٹ میں تعلیم، روزگار اور صحت کے شعبوں پر توجہ مفقود نظر آئی۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کی ساری توجہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مرکوز ہے، جو عوامی مسائل کا تدارک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔تعلیم اور صحت جو ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے اس کے لیے بہت کم بجٹ رکھا جاتا ہے،ریاست کے نوکر(بیورو کریسی) پاکستان میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ ریاست کے مالک اور وارث بنیادی حقوق کو ترستے رہتے ہیں۔
عوام کے ساتھ قومی بجٹ کے نام پر ہرسال جو کھلواڑ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح میں کمی اور ان ڈائریکٹ ٹیکس یعنی جگا ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام کی غم خواری کے دعویدار کبھی اس ظلم پر بات نہیں کرتے۔دنیا کی تمام ریاستوں میں امیر ٹیکس دیتے ہیں جب کہ غریب عوام کو ان کی بنیادی سہولتیں دی جاتی ہیں اور پاکستان میں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے، غریب عوام کے ٹیکسوں پر اشرافیہ عیش کر رہی ہے۔ قومی بجٹ میں عوام کی مقامی حکومتوں کے لیے بجٹ ہی مختص نہیں کیا جاتا یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ صوبے مقامی حکومتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے رہتے ہیں-
عوام کی مقامی حکومتوں کے لیے اخراجات کو یقینی بنانے کے لیے کسی حکومت نے کوئی تدبیر نہیں سوچی۔ یہ کھلی عوام دشمنی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 38 واضح طور پر یہ گارنٹی دیتا ہے کہ ہر بیروزگار شہری کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کی ضرورتوں کے لیے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے گا۔ آج تک پاکستان کے کسی قومی بجٹ میں بے روزگاری الاؤنس کے لیے بجٹ ہی مختص نہیں کیا گیا۔
اس طرح آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی ہر آدمی کا بنیادی مسئلہ ہے جو اس کی قوت خرید سے بڑھ جائے تو ان کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، جب کہ حکمران اشرافیہ کے لیے مہنگائی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ان کو کئی اشیاء حکومت کی جانب سے مفت ملتی ہیں اور ان کے پاس اللہ کی دی بندوں سے لی ہوئی دولت بھی وافر ہوتی ہے۔
دنیا میں کسی بھی حوالے سے ترقی ہو، نالج اکانومی ہو یا سائنسی بنیادوں پر ترقی، روایتی بزنس ڈویلپمنٹ ہو یا آئی ٹی سیکٹر کی ترقی، اس سارے نظام اور ترقی میں بنیادتعلیم ہے، لیکن ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ہرسال قومی بجٹ میں شعبہ تعلیم کو مکمل طور پر نظر اندازکردیتے ہیں ، جیساکہ ایم بی بی ایس، انجینئرنگ کا آج بھی ٹرینڈ ہے لیکن ملازمت نہیں ہے۔ کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ ہم جو پڑھاتے جارہے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آنے والے چند برسوں میں ڈگری کے بجائے ساری توجہ سکلز پر ہوگی لہٰذا ہمیں اس کا ادراک کرتے ہوئے ا سکل سیٹ بہتر کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اب تو ایموشنل انٹیلی جنس، ایم بی ٹی آئی کو دیکھا جا رہا ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو اس طرح سے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے اساتذہ کے لیے انڈسٹری کا تجربہ لازمی قرار دینا چاہیے، ہر 5 سال بعد انھیں انڈسٹری میں بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے پریکٹیکل نالج کو اپ ڈیٹ کر سکیں اور طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کر سکیں۔
عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکومت میں بھی مہنگائی بڑھی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اب بھی ملک کی معاشی حالت انتہائی مخدوش ہے، بجلی کی پیداوار میں کمی اور کئی کئی گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ہے لیکن یہ بھی درست بات ہے کہ تمام تر معاشی مشکلات کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈالی نہیں جاسکتی ۔
حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی و مذہبی جماعتیں قومی بجٹ میں اپنی جماعتی مصلحتوں اور مالی مفادات کے تحت ہی کردار ادا کرتی ہیں ۔ بجٹ کی یہ استحصالی روایت اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب عوام کا مقدمہ لڑنے والا بھی کوئی نہیں رہا اور عوام کا نام استعمال کرکے کھلی عوام دشمنی کی جاتی ہے۔بنیادی بات اعتماد کی ہوتی ہے جب کسی ریاست میں حکمران اشرافیہ اور ادارے عوام کی نظروں میں اعتماد کھو بیٹھتے ہیں تو پھر ریاست جمود اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہے، ایسی ریاست میں کسی بھی نظام کو کامیابی سے چلانا ممکن نہیں ہوتا۔قرضوں کی واپسی کی قسطیں دفاعی اخراجات اور حکومتی اخراجات نکالنے کے بعد قومی بجٹ میں 22 کروڑ عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو سمجھے اور ملکی برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی کرکے تجارتی خسارے پر قابو پائے۔ قرض پر قرض لینے اور سود در سود دینے کی پالیسی چھوڑ کر تجارت اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دی جائے، غیر ضروری درآمدات کا بوجھ بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایئر لائنز، آٹوموبیل، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزرز، اسٹیل، شوگرانڈسٹری، ٹیکسٹائل، بینکنگ اور دیگر سیکٹرز پر 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر 200فیصد کردی گئی، LPG کے فی میٹرک ٹن یونٹ پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنیکی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔بعد ازاں مالی بل 2022 منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
قومی بجٹ سال بھر کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے، ہر سال قومی بجٹ کو عوام دوست بجٹ قرار دیا جاتا ہے مگر قومی بجٹ مالیاتی اعدادوشمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہوتا ہے جسے عوام سمجھ ہی نہیں پاتے البتہ جب عام آدمی اشیاء کی خریداری کے لیے بازار جاتا ہے تو اسے آٹے دال کے بھاؤ سے نئے بجٹ کی سمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت اپنے اقتصادی اور معاشی ماہرین کی مدد اور مشاورت کے بعد ملکی محاصل (آمدنی)، تقریباً 466ارب روپے کے اضافی وسائل حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جس کے لیے 10 فیصد تک سُپر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقیناً اس کے ملکی معیشت پر جہاں دور رس اثرات مرتب ہوں گے وہاں عوام الناس کے مختلف طبقات پر بھی اس کے اثرات اضافی بوجھ کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف سے عمران حکومت کے قرضے کے معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کے مشکل اور عوام میں ناراضگی کا باعث بننے والے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت قرض کی بقیہ اقساط ہی نہ مل سکیں بلکہ آیند ہ کے لیے بھی آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے بچانے کے لیے اس طرح کے مشکل فیصلے کرنے ضروری تھے۔
اس سے قبل میاں شہباز شریف کی حکومت پچھلے ایک ماہ کے دوران پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں بھی بھاری اضافہ، کم از کم 84روپے سے زائد فی لیٹر کر چکی ہے، بعض معاشی ہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ایسے ٹیکس اور لیویز موجود ہیں جن کا تقریر میں ذکر نہیں ہوا، فنانس بل میں انھیں شامل کرکے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کی بری خبرسنائی گئی ہے جس کا نشانہ متوسط طبقہ بنے گا،تاہم دوسری جانب کچھ معاشی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس سلیب میں تبدیلی اور 6لاکھ کی سالانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ اور 6لاکھ سے 12لاکھ آمدنی پر 100 روپے ٹیکس ادا کرنے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ لوگ سرکاری نوکری میں ہی اپنا محفوظ مستقبل دیکھ رہے ہیں، سوائے ملازمت کے کوئی اور شعبہ بچا ہی نہیں ہے۔
ان لوگوں کے متعلق کوئی غور و خوض بھی نہیں ہے جو ملازمت کے نام پر سرکار پر بوجھ نہیں بنے ہیں، ان لوگوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے جو غربت کی لکیر کے آس پاس یا اس نیچے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ٹیکسز میں سب سے زیادہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات اور لیوی کی مد میں 750 ارب اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کرکے کیا گیا، تاحال حکومت لیوی کی مد میں 135ارب اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آیندہ مالی سال کے آغاز میں ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم 30 روپے فی لیٹر مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
آیندہ مالی سال کے لیے حکومت نے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج اور ایل پی جی پر لیوی سمیت دیگر مدات میں بھی ملک کی ناگفتہ بہ معیشت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔وفاقی بجٹ میں تعلیم، روزگار اور صحت کے شعبوں پر توجہ مفقود نظر آئی۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کی ساری توجہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مرکوز ہے، جو عوامی مسائل کا تدارک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔تعلیم اور صحت جو ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے اس کے لیے بہت کم بجٹ رکھا جاتا ہے،ریاست کے نوکر(بیورو کریسی) پاکستان میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ ریاست کے مالک اور وارث بنیادی حقوق کو ترستے رہتے ہیں۔
عوام کے ساتھ قومی بجٹ کے نام پر ہرسال جو کھلواڑ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح میں کمی اور ان ڈائریکٹ ٹیکس یعنی جگا ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام کی غم خواری کے دعویدار کبھی اس ظلم پر بات نہیں کرتے۔دنیا کی تمام ریاستوں میں امیر ٹیکس دیتے ہیں جب کہ غریب عوام کو ان کی بنیادی سہولتیں دی جاتی ہیں اور پاکستان میں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے، غریب عوام کے ٹیکسوں پر اشرافیہ عیش کر رہی ہے۔ قومی بجٹ میں عوام کی مقامی حکومتوں کے لیے بجٹ ہی مختص نہیں کیا جاتا یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ صوبے مقامی حکومتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے رہتے ہیں-
عوام کی مقامی حکومتوں کے لیے اخراجات کو یقینی بنانے کے لیے کسی حکومت نے کوئی تدبیر نہیں سوچی۔ یہ کھلی عوام دشمنی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 38 واضح طور پر یہ گارنٹی دیتا ہے کہ ہر بیروزگار شہری کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کی ضرورتوں کے لیے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے گا۔ آج تک پاکستان کے کسی قومی بجٹ میں بے روزگاری الاؤنس کے لیے بجٹ ہی مختص نہیں کیا گیا۔
اس طرح آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی ہر آدمی کا بنیادی مسئلہ ہے جو اس کی قوت خرید سے بڑھ جائے تو ان کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، جب کہ حکمران اشرافیہ کے لیے مہنگائی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ان کو کئی اشیاء حکومت کی جانب سے مفت ملتی ہیں اور ان کے پاس اللہ کی دی بندوں سے لی ہوئی دولت بھی وافر ہوتی ہے۔
دنیا میں کسی بھی حوالے سے ترقی ہو، نالج اکانومی ہو یا سائنسی بنیادوں پر ترقی، روایتی بزنس ڈویلپمنٹ ہو یا آئی ٹی سیکٹر کی ترقی، اس سارے نظام اور ترقی میں بنیادتعلیم ہے، لیکن ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ہرسال قومی بجٹ میں شعبہ تعلیم کو مکمل طور پر نظر اندازکردیتے ہیں ، جیساکہ ایم بی بی ایس، انجینئرنگ کا آج بھی ٹرینڈ ہے لیکن ملازمت نہیں ہے۔ کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ ہم جو پڑھاتے جارہے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آنے والے چند برسوں میں ڈگری کے بجائے ساری توجہ سکلز پر ہوگی لہٰذا ہمیں اس کا ادراک کرتے ہوئے ا سکل سیٹ بہتر کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اب تو ایموشنل انٹیلی جنس، ایم بی ٹی آئی کو دیکھا جا رہا ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو اس طرح سے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے اساتذہ کے لیے انڈسٹری کا تجربہ لازمی قرار دینا چاہیے، ہر 5 سال بعد انھیں انڈسٹری میں بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے پریکٹیکل نالج کو اپ ڈیٹ کر سکیں اور طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کر سکیں۔
عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکومت میں بھی مہنگائی بڑھی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اب بھی ملک کی معاشی حالت انتہائی مخدوش ہے، بجلی کی پیداوار میں کمی اور کئی کئی گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ہے لیکن یہ بھی درست بات ہے کہ تمام تر معاشی مشکلات کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈالی نہیں جاسکتی ۔
حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی و مذہبی جماعتیں قومی بجٹ میں اپنی جماعتی مصلحتوں اور مالی مفادات کے تحت ہی کردار ادا کرتی ہیں ۔ بجٹ کی یہ استحصالی روایت اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب عوام کا مقدمہ لڑنے والا بھی کوئی نہیں رہا اور عوام کا نام استعمال کرکے کھلی عوام دشمنی کی جاتی ہے۔بنیادی بات اعتماد کی ہوتی ہے جب کسی ریاست میں حکمران اشرافیہ اور ادارے عوام کی نظروں میں اعتماد کھو بیٹھتے ہیں تو پھر ریاست جمود اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہے، ایسی ریاست میں کسی بھی نظام کو کامیابی سے چلانا ممکن نہیں ہوتا۔قرضوں کی واپسی کی قسطیں دفاعی اخراجات اور حکومتی اخراجات نکالنے کے بعد قومی بجٹ میں 22 کروڑ عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو سمجھے اور ملکی برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی کرکے تجارتی خسارے پر قابو پائے۔ قرض پر قرض لینے اور سود در سود دینے کی پالیسی چھوڑ کر تجارت اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دی جائے، غیر ضروری درآمدات کا بوجھ بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔