سماجی کارکنوں کا قتل

ملک میں ایسے بڑے فلاحی اور سماجی ادارے بھی ہیں جو پبلسٹی کے بجائے صرف کام اور کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں

یوں تو ملک میں ہزاروں سماجی تنظیمیں اور لاکھوں سماجی کارکن ہیں مگر ایسے سماجی کارکن بہت کم ہیں جنھوں نے نہ کوئی سماجی تنظیم بنائی ہوئی ہے نہ وہ کسی سماجی تنظیم کا عہدیدار بن کر مخیر حضرات سے عطیات جمع کرتے ہیں اور دوسروں سے لیے گئے چندوں سے شہرت اور مالی مفاد حاصل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے چھوٹی چھوٹی سطح پر بنائی گئی سماجی تنظیموں میں اکثریت ایسے سماجی عہدیداروں کی ہے جو سماجی کاموں پر اپنی جیب سے کوئی رقم خرچ نہیں کرتے اور ان کا کام مخیر اور صاحب ثروت افراد سے سماجی کاموں کے لیے عطیات جمع کرنا ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں مختلف سماجی تقریبات، راشن کی غریبوں اور کتب کی طلبا میں تقسیم، فری آئی اور میڈیکل کیمپ کے انعقاد کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور محض دکھاوے، ذاتی تشہیر، بڑے لوگوں سے تعلقات قائم کرنے اور جمع چندہ خرد برد کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی تقریبات میڈیا کی نظر و کرم کی محتاج ہوتی ہیں اور وہ اتنی رقم حقیقی فلاحی کاموں پر خرچ نہیں کرتے جتنی ذاتی تشہیر و تعریف، تصاویر و ویڈیو بنوانے اور میڈیا والوں کی خوشنودی پر خرچ کرتے ہیں، اس طرح وہ دوسروں کے مال پر مزے بھی اڑاتے ہیں اور پبلسٹی کے ذریعے سماجی ٹھیکیدار بلکہ اب تو وہ افسروں اور جرائم پیشہ عناصر کو بلیک میل بھی کرنے لگے ہیں۔

ملک میں ایسے بڑے فلاحی اور سماجی ادارے بھی ہیں جو پبلسٹی کے بجائے صرف کام اور کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں جس سے متاثر ہوکر مخیر حضرات خود انھیں جاکر عطیات دیتے ہیں۔ ایسے ادارے اور سماجی کارکن کسی عہدے کی پرواہ کیے بغیر تعلیمی، طبی خدمات خاموشی سے انجام دے رہے ہیں اور ان کاموں کے لیے وہ ذاتی طور پر بھی عطیات دیتے ہیں۔ لوگوں سے وصول کی گئی رقم اپنے پاس امانت سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔ آمدنی و اخراجات کے معتبر اداروں سے آڈٹ کرواتے ہیں اور بدعنوانی کا تصور بھی نہیں کرتے اور ایسا کرنا خیانت اور گناہ سمجھتے ہیں۔

سماجی خدمات انجام دینے والے ایسے مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں جو نہ کوئی سماجی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں، نہ ذاتی تشہیر اور دکھاوا ان کا مقصد ہوتا ہے اور اﷲ کی خوشنودی اور غریبوں کے کام آنے کو وہ عبادت سمجھ کر ذاتی رقم سے خاموشی سے ایسی سماجی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ رمضان المبارک اور عید پر وہ ذاتی رقم سے غریبوں میں راشن اور کپڑے تقسیم کرتے ہیں اور یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور ناداروں کی جلد بازی رش اور بھگدڑ میں جانی نقصانات بھی ہونے لگے ہیں اور دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھی ایسے بے لوث مخیر حضرات کو ملتی ہے، جہاں بدانتظامی کا الزام ان پر عائد کردیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے لیے عام تاثر ہوتا ہے کہ وہ سماجی و رفاحی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں بلکہ خود بھی ناقابل تصور عطیات دیتے ہیں اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ اب سماجی کارکنوں کی بھی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی ہے۔ سماجی کام کرنے والوں سے بھی اب بھتہ طلب کیا جانے لگا ہے، اپنے مالی وسائل سے معاشرے میں موجود غریبوں، حاجت مندوں، مسکینوں، بیواؤں، غریب طلبہ و طالبات کی خاموشی سے مدد کرنے والے سماجی کارکنوں میں ایک نام ناظم آباد کے حامد خان کا بھی تھا، جنھیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد دن دہاڑے قتل کردیا گیا اور انھیں بچانے کی کوشش میں ان کا ساتھی بھی نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔


حامد خان کے قتل کی اطلاع ملتے ہی ان بے شمار گھروں اور لوگوں میں صف ماتم بچھ گئی جن کی حامد خان برسوں سے مالی مدد کرتے آرہے تھے اور ان کے بہت کم دوستوں کو ان کی ان سماجی خدمات کا علم تھا۔ حامد خان کے شہید کردیے جانے کی اطلاع ملنے پر درجنوں افراد کو زار و قطار روتے اور قاتلوں کو بددعائیں دیتے دیکھا گیا، جو ایک دوسرے سے گلے مل کر روتے ہوئے سوال کر رہے تھے کہ اب ہمارا کیا ہوگا، ہمارے گھروں کے چولہے کیسے جلیں گے، ہم غریبوں کے بچے اپنی تعلیم کیسے جاری رکھیں گے؟ غربت کا شکار بیمار لوگ پریشان تھے کہ ان کا علاج اب کون کروائے گا۔ بیوائیں سوال کر رہی تھیں کہ ہمارے گھروں میں راشن کون پہنچائے گا۔ جن غریب خاندانوں کے بچے اور بچیوں کی شادی کے لیے حامد خان نے جہیز فراہم کیا تھا وہ بھی ملول ہوکر اپنے محسن کو یاد کر رہے تھے۔ ناظم آباد گول مارکیٹ مسجد کے نمازی اپنے پانچ وقت کے نمازی ساتھی حامد خان کو یاد کرکے سوال کر رہے تھے کہ حامد خان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ انھیں دن دہاڑے شہید کردیا گیا۔

حامد خان اپنے علاقے کی مقبول و معتبر شخصیت بھی تھے، جو کسی سیاسی عہدے کے بغیر لوگوں کے باہمی تنازعات طے کروا دیتے تھے اور ضرورت مندوں کی مالی مدد بھی کرنے میں مشہور تھے۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق حامد خان رمضان المبارک میں غریب و مسکینوں میں کسی امتیاز کے بغیر جو راشن تقسیم کرتے تھے اس کے کپڑے کے تھیلے ہی 30 ہزار روپے کے آتے تھے۔ رمضان میں مہنگے پھل خرید کر صرف 5 روپے کلو فروخت کرانے والے بھی حامد خان تھے۔ ہمیشہ سفید کپڑوں میں باوقار نظر آنے والے دراز قد حامد خان کو ان کے دوستوں نے گارڈ ساتھ رکھنے کا متعدد بار مشورہ دیا مگر موت کے مقررہ وقت پر ایمان رکھنے والے سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ موت کو کوئی نہیں روک سکتا اور یہی موت انھیں جمعہ کی نماز کے بعد نصیب ہوئی اور ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں کی بلاامتیاز شرکت نے ثابت کردیا کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ انھیں چاہتے تھے۔ سیکڑوں لوگوں کی مدد کرنے اور ہزاروں لوگوں کے کام آنے والے سماجی رہنما حامد خان کو قتل کرکے قاتلوں نے بے سہاراؤں کا سہارا چھین لیا جو اب کسی اور حامد خان کے منتظر ہیں۔

حامد خان سے قبل اورنگی ٹاؤن میں ایک پائلٹ پروگرام پر کام کرنے والی خاتون سماجی رہنما پروین کے قتل کی بھی ملک بھر میں مذمت کی گئی تھی جن کی سماجی خدمات کا کوئی نعم البدل نہیں تھا اور ان کے قاتلوں کا بھی پتہ نہیں چل سکا۔ ایک اور معذور سماجی رہنما جعفر شاہ بھی قتل کیے گئے تھے جو خود معذور ہونے کے باوجود وہیل چیئر پر معذوروں کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کیا کرتے تھے۔ ظالموں نے معذور سماجی رہنما کو بخشا نہ خاتون سماجی رہنما کو اور اب حامد خان بھی ظالموں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے، جن کی شہادت پر ناظم آباد گول مارکیٹ کا علاقہ تین روز مکمل بند رہا جو ان کی مقبولیت کا ثبوت تھا۔ تنہا سماجی خدمات انجام دینے والے کسی کے دشمن نہیں ہوتے بلکہ وہ ذاتی نمود و نمائش سے بھی گریز کرتے ہیں مگر ایسے بے لوث لوگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ ان کا مقصد اﷲ کی خوشنودی ہوتا ہے کسی کی دل آزاری نہیں مگر قاتل نہیں جانتے کہ وہ ایک سماجی کارکن کو نہیں سیکڑوں کو برباد کر رہے ہیں۔
Load Next Story