آج ہی عزم کریں

ہر سال ملک بھر سے غربت کے مارے والدین کی جانب سے چھوڑے ہوئے سیکڑوں لاوارث بچے ملتے ہیں

گزشتہ دنوں کوئی شخص چار معصوم بچیوں کو ایدھی سینٹر چھوڑ کر چلا گیا۔ چھ سالہ خدیجہ، چار سالہ اقرا، تین سالہ معصومہ اور ایک سالہ ہادیہ کا والد نشے کی لت میں مبتلا تھا، ان کی ماں نے بچیوں کے والد سے علیحدگی لے کر دوسری شادی کرلی، والد نے بچیوں کو اپنی بہن کے حوالے کردیا ۔کچھ عرصہ تو پھوپھی نے ان بچیوں کو بادل نخواستہ اپنے پاس رکھا، بالآخر پھوپھی نے اپنی چاروں بھتیجیوں کو ایدھی چائلڈ ہوم سہراب گوٹھ کراچی کے حوالے کردیا۔ یہ خبرکس قدر قابل افسوس، قابل حیرت اور ناقابل یقین ہے کہ یہ چاروں ننھی منھی بہنیں کم عمری کے اس حصے میں ہیں جہاں ان کے ذہنوں میں یہ سوال تک نہیں آسکتا کہ آخر ان کے والدین نے ان کو یوں بے یار و مددگار کیوں چھوڑ دیا، کیوں ان کو چھوڑتے ہوئے ان کی ماں نہیں تڑپی اور کیونکر اپنی پھول سی بچیوں کو کسی کے حوالے کرتے ہوئے ان کے باپ کے دل پر چھریاں نہیں چلیں۔ ہر باپ ساری زندگی اپنی اولاد کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور ہر ماں کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ ہر دکھ و تکلیف کو خود برداشت کرنا تو گوارا کرسکتی ہے، لیکن اپنی اولاد کو کسی پریشانی میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی۔

انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ بلقیس ایدھی کے مطابق ''یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، لوگ اپنے کتنے ہی بچے روزانہ ایدھی سینٹر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔'' ملک میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس مہنگے ترین دور میں بہت سے غریب لوگوں کے پاس اپنی ہی اولادکے لیے کھانا میسر نہیں ہوتا، اپنے بچوں کا جسم ڈھانکنے کے لیے لباس مہیا نہیں ہوتا، وہ ان کی تعلیم کا بندوبست نہیں کرسکتے۔ اپنے ہی بچوں کی پرورش کرنا ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں یہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور مجبوراً ان کو کسی کے حوالے کردینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی غریب شخص کے پاس اپنے مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے، اپنا قرض چکانے کے لیے، اپنے بیوی، بچوں کی دوا دارو کے لیے، اپنے بچوں کی خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے تھوڑی سی رقم بھی نہیں ہوتی، تو وہ اپنے معصوم بچوں کے برائے فروخت کا اعلان لگانے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ معاملہ یہیں تک نہیں، بلکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں ستائے بہت سے لوگ خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر اپنے بچوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ بدھ لاہور میں ایک ماں نے غربت اور فاقوں سے تنگ آکر اپنے دو بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

فلاحی اداروں کے مطابق پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جنھیں ان کے ورثا قتل کر دیتے ہیں یا پھر کسی فلاحی ادارے کے حوالے کردیتے ہیں۔ ہر سال ملک بھر سے غربت کے مارے والدین کی جانب سے چھوڑے ہوئے سیکڑوں لاوارث بچے ملتے ہیں۔ ان حالات میں یہ بچے تعلیم و بہتر تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو بڑے ہوکر چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اکثر کم عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں 5 سے 14 سال تک کے بچوں کی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان 40 لاکھ بچوں میں سے 3.8 لاکھ بچے ورکنگ چلڈرن ہیں۔ ان بچوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر قوم کی خدمت کر سکیں لیکن مجبوراً ان بچوں کو ہوٹلوں، قالین بافی، کان کنی، چوڑی سازی، فیکٹریوں سمیت دیگر صنعتوں، ڈینٹنگ پینٹنگ کی ورکشاپوں، بھٹہ خشت، الیکٹریشن کی دکانوں، گھروں اور مکینک کی دکانوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونا چاہیے تھی، حالات ان ہاتھوں میں ٹائر ٹیوب، رینچ اور دیگر آلات و اوزار پکڑا دیتے ہیں۔


ایسے نجانے کتنے معصوم پھول ہیں، جن کے ابھی کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں، لیکن اسکول جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے فقط غربت کی وجہ سے تعلیم کے بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں، اگر ان بچوں پر توجہ دی جائے تو آج کے یہ بچے کل یقینا قوم کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ اگر ان بچوں کے بارے میں مل جل کر فکر کی جائے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک بچہ بھی لاوارث نہ رہے، کوئی بھی والدین کسی بچے کوقتل نہ کریں،کسی بچے کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں، کوئی والدین کسی بچے کے برائے فروخت کا اعلان نہ لگائیں اور نہ ہی کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم رہے۔ اگر ہر محلے اور ہر علاقے میں کچھ صاحب ثروت لوگ مل کر اپنے طور پر کوئی فائونڈیشن قائم کرلیں اور اپنے علاقے میں ایسے غریب اور نادار لوگوں کی فہرست تیار کریں جو اپنے بچوں کو اچھی خوراک نہیں دے سکتے، ان کی صحیح طور پر پرورش نہیں کرسکتے، اپنے بچوں کے لباس کا بندوبست نہیں کرسکتے ، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں خصوصی طور پر ایسے افراد کو ڈھونڈکر ان کے ساتھ تعاون کریں۔

اگر ہر علاقے میں فلاحی فائونڈیشن قائم کرنا مشکل ہو تو ہر صاحب ثروت فرد اکیلے ہی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ غریب بچوں کی پرورش اور تعلیم کا خرچہ اپنے ذمے لے لے اور اگر کوئی کسی بچے کا مکمل خرچہ اپنے ذمے نہیں لے سکتا تو جتنی گنجائش ہو اتنا خرچہ تو ہر ماہ کسی غریب بچے کو دیا جاسکتا ہے، یہ خرچہ کوئی لاکھوں میں نہیں ہوگا، حساب لگایا جائے یقینا یہ بہت تھوڑی سی رقم بنے گی مگر قلیل رقم سے غریب بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت کا انتظام ہوسکتا ہے، ہر علاقے کے غریب بچے بھی اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ملک کے اچھے اور باوقار وصلاحیت شہری بن سکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے کہ روز فضول میں اپنی عیاشیوں میں نجانے کتنے پیسے خرچ ہوجاتے ہیں لیکن اگر کچھ رقم غریب بچوں پر خرچ کردی جائے، کچھ توجہ غریب بچوں پر بھی دے دی جائے تو ملک میں غریب بچے بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں دولتمند اور درد دل رکھنے والے لوگوں کی قلت نہیں، دو چار بچوں کی کفالت اپنے ذمے لینا ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اگر میرے ملک کے صاحب ثروت لوگ بل گیٹس کی طرح آگے بڑھیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے جب غریب لوگوں کی مشکلات کو قریب سے دیکھا تو غربت زدہ لوگوں کے تکلیف دہ مناظر نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے اپنی دولت کو فلاحی کاموں کے لیے صرف کرنے کا عہد کرلیا، دوسرے امیر افراد سے بھی فلاحی کاموں میں شریک ہو نے کی اپیل کی، بہت سے امیر لوگوں نے بھی اپنی دولت فلاحی اداروں کے لیے وقف کردی۔ اگر پاکستان کے امیر حضرات بھی فلاحی کاموں کی طرف توجہ دیں تو ان کی تھوڑی تھوڑی خرچ کی گئی دولت ملک کے ہزاروں انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ہر شخص یہ عزم کرلے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ہر غربت زدہ کے ساتھ تعاون کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ میرے ملک میں میں کوئی شخص ننھی منھی بچیوں خدیجہ، اقرا، معصومہ اور ہادیہ کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔ تو پھر اس کام کے لیے سب آج ہی عزم کریں۔
Load Next Story