کراچی جم خانہ کی ایک یادگار ادبی تقریب
تقریب کی نظامت علی حسن ساجد کے سپرد تھی۔
کراچی:
گزشتہ دنوں راقم کے چھٹے شعری مجموعے'' ریزہ ریزہ شبنم شبنم '' کی تقریب رونمائی کا اہتمام کراچی جم خانہ کی لائبریری و ادبی کمیٹی کے تعاون سے کیا گیا۔ تقریب کا آغاز حمد و نعت سے کیا گیا تقریب کی نظامت علی حسن ساجد کے سپرد تھی۔
تحریک پاکستان کے ایک دیرینہ سرگرم کارکن اور مشہور شاعر صغیر جعفری نے حمد و نعت کے چند اشعار ترنم سے پیش کیے، علی حسن ساجد جو پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور نیوز کاسٹر ہونے سے پہلے ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے ہیں انھوں نے تقریب کے آغاز کے بعد ریڈیو سے کمرشل سروس اور فلمی گیتوں کے حوالے سے اپنی کچھ یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا '' ایسے باکمال لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گوناگوں صلاحیتوں سے زمانے کو متاثر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں بھی سوچنے لگتے ہیں۔
میرے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ریڈیو پاکستان کراچی سے 1987 میں نئے طرز نشریات کی ابتدا ہوئی تو مجھے ریڈیو پاکستان جھروکے پیش کرنے کا موقعہ ملا ، یہ پروگرام پرائم ٹائم نشریات میں پیش کیا جاتا تھا۔ سامعین اس پروگرام کے لیے فون کرکے دن کے بارہ بجے سے لے کر ایک بجے تک اور بعض اوقات خطوط لکھ کر فلمی گیتوں کی فرمائش کیا کرتے تھے۔
اس پروگرام کے لیے اکثر و بیشتر جن فلمی گیتوں کی فرمائش ہوتی تھی ان میں زیادہ تر گیت یونس ہمدم کے لکھے ہوئے ہوتے تھے، میری اس زمانے میں یونس ہمدم سے کوئی جان پہچان یا ملاقات نہیں تھی پھر اکثر رات کو نشر ہونے والا پروگرام آپ کی فرمائش بھی میں پیش کیا کرتا تھا جس میں یونس ہمدم کے نغمات کی اکثر فرمائشیں ہوتی تھیں۔ یونس ہمدم کے نغمات کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کی سادگی اور حسن ہوتا تھا انھوں نے اپنی شاعری کو پیچیدہ اور مشکل الفاظ پر مشتمل کبھی نہیں رکھا بالکل سادہ الفاظ کے ساتھ واقعات اور احساسات کو گیتوں میں شامل کیا ان کے کلام میں شیرینی، سلاست، برجستگی اور شگفتگی پائی جاتی تھی جیساکہ ان کی فلم صبح کا تارا کا لکھا ہوا گیت جو مہدی حسن کی آواز میں تھا:
میرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
یا پھر فلم عشق عشق کا گیت:
نیناں رے نیناں تم ہی بُرے
تم سا بُرا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
یا پھر فلم تیرے میرے سپنے کا گیت:
میں ہوگئی دلدار کی ہونے لگی چبھن پیار کی
دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا
اور ایسے بہت سے خوب صورت گیت جو یونس ہمدم کے لکھے ہوئے ہوتے تھے وہ فرمائشی گیتوں کے پروگرام میں شامل ہوتے تھے، یونس ہمدم نے ریڈیو، ٹیلی وژن، فلم کے گیتوں کے علاوہ اخبارات میں بھی تسلسل سے کالم لکھے اور پڑھنے والوں نے نہ صرف انھیں پڑھا بلکہ پسند بھی کیا ان کے لکھے ہوئے گیتوں سے ناہید اختر، اے نیر، تحسین جاوید، جمال اکبر اور مسرت نذیر کو شہرت ملی۔
معروف ادیب اور دانشور رضوان صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج زندگی کے جس مرحلے پر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خود کو محبت کرنے والوں کے ہجوم میں کھڑا دیکھتا ہوں ، اب میرے دائیں بائیں چند چہرے باقی رہ گئے ہیں۔
بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی کے بعد اب زندگی کے موجود ہر مرحلے پر جو چند دوست ساتھ ہیں ان میں ایک یونس ہمدم ہیں جو زمین پر قدم جمائے بڑے اعتماد کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہ میرے ہمدم دیرینہ بھی ہیں اور میرے کزن بھی ہیں اور دونوں گھرانوں میں سویّوں کی طرح رشتہ داریاں محبتوں کے ساتھ الجھی ہوئی ہیں۔ میرے اور یونس ہمدم کے مشاغل اور مسائل یکساں ہیں جو شہرت یونس ہمدم نے حاصل کی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
پروفیسر محترمہ نوشاد صدیقی صاحبہ نے راقم الحروف کے بارے میں مضمون پڑھتے ہوئے کہا۔'' یونس ہمدم ہمارا اس وقت سے دوست ہے جب نوعمری کی حدود میں جسے بچپن بھی کہا جاسکتا ہے۔ یونس ہمدم کے قلم سے ایسے پکے معرکے ہوئے تھے جن کا آغاز کبھی کچے قلم سے ہوا تھا ہم نے یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یونس ہمدم اپنی شاعری کا رخ فلمی دنیا کو بخش دے گا۔
معصوم سا بھولا بھالا پرخلوص شخص فلم نگر کی چکا چوند میں گم ہو جائے گا ہم نے سوچا فلمی دنیا میں شہرت کمانے کے بعد اب یونس ہمدم ہمیں پہچانے گا بھی نہیں کیونکہ فلمی دنیا کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ ہی نہیں کرتی مروت اور خلوص کو بھی کچل دیتی ہے مگر ہمارا یونس ہمدم ایسا نہیں نکلا یہ جب بھی ملا امروزی دوست بن کر ہی ملا وہی سادگی وہی بھولپن اسی پرانی محبت کے ساتھ ملا۔
نامور ٹی وی پروڈیوسر اور شاعر تاجدار عادل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہمارے بعض منتخب فلمی شاعروں نے فلم کے تقاضوں، موسیقی کے مطالبوں اور دیگر فنی تاویلوں اور جہت کے باوجود فلمی نغمہ نگاری میں تمام شعری حسن کا خیال رکھا ہے اور کمال کیا ہے ساحر، شکیل، مجروح، گلزار، قتیل شفائی، مسرور انور، سیف الدین سیف وغیرہ نے بہت خوبصورت عوامی نغمے بھی لکھے ہیں اور جہاں کہیں لگام ان کے ہاتھ آئی ہے انھوں نے خوب سخن کاری، خیال آفرینی کی ہے ان میں ایک یونس ہمدم بھی ہیں اب یونس ہمدم فلمی دنیا سے لوٹ آئے ہیں اور پرانے شعری سفر پر گامزن ہیں۔
اویس ادیب انصاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ شاعری ایک دشت ہے جس کی سیاہی بڑے دل گردے کا کام ہے اکثر لوگ اس دشت کی سیاہی سے پہلے شوق سفر سے تائب ہوکر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ پوری استقامت کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھتے ہیں انھی پرعزم اور پرجوش شاعروں میں ایک معتبر نام یونس ہمدم کا بھی ہے۔
محترمہ ڈاکٹر فاطمہ صاحبہ اور سینئر شاعرہ صبیحہ صبا نے یکے بعد دیگرے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یونس ہمدم کو اس عہدکا پسندیدہ شاعر قرار دیا اور بڑے دلچسپ انداز میں چند اشعار کا تذکرہ کرتے ہوئے یونس ہمدم کی شخصیت کے بعض پہلوؤں پر بھی بات کی اور کہا کہ اب یہ دوبارہ سے اپنے شاعری اور لکھنے کے سفر سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ فلمی دنیا کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں، اب یقینا ان کی شاعری اور دیگر نگارشات کا حسن مزید دوبالا ہوگا۔
ان تقاریر کے بعد علی حسن ساجد نے صاحب کتاب کو کلام سنانے کی دعوت دی۔ راقم نے کچھ سنہری یادیں فلمی دنیا کی بھی تازہ کیں اور بہت سی دلچسپ اور دلکش واردات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا کچھ تازہ کلام بھی پیش کیا جب میں کچھ سنا کر جانے لگا تو صاحب صدر محمود شام نے روکتے ہوئے کہا ارے بھئی ابھی سے کہاں چلے، یہ آپ کی شام ہے آپ کی تقریب ہے کچھ اور بھی سنائیں، پھر میں نے ایک دو غزلیں اور نظمیں بھی پیش کیں، جنھیں سامعین نے تالیوں کی گونج میں بڑا سراہا۔
راقم کی پذیرائی کے بعد ناموردانش ور ، صحافی ، کالم نگار محمود شام بھرپور تالیوں میں خطاب کرنے آئے اور کہا کہ یونس ہمدم کی طبیعت اور شاعری دونوں میں سادگی ہے اور ان کی شاعری میں آمد ہی آمد ہے جس بے ساختگی سے یہ کہتے ہیں شاعری میں ان کا اپنا الگ انداز اور رنگ ہے۔ یونس ہمدم نے ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں گزارا، اپنے فلمی گیتوں اور نغمات کو تک بندی کی آلودگی سے بچایا اور فلمی نغموں کو ایک نیا لہجہ اور موسیقی سے ہم آہنگ ردھم عطا کیا۔ تقریب کے اختتام پر تقریب کے ناظم علی حسن ساجد صاحب نے تمام مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس تقریب میں شہر کی دیگر نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں سابقہ میٹرو پولیٹن کمشنر و ڈائریکٹر کے ڈی اے جناب سمیع صدیقی، انیس مرچنٹ، شجاع الزماں، عرفان عابدی، زاہد حسین جوہری، جاوید میمن، فرحت اللہ قریشی، غلام علی وفا، خواجہ محمد اعظم، ٹی وی پروڈیوسر آصف انصاری، مسعود وصی، نفیس احمد خان، انجینئر وسیم فاروقی، شاہین مصور، فیصل اسلم، بابر موتی، خالد میر، محسن نقی ، نغمانہ شیخ، اے آر عباس، عشرت جبیں، ڈاکٹر صبیحہ اعوان، شگفتہ فرحت، مہر جمالی، ہما ناز، اظہر اقبال سینئر صحافی صابرعلی اور مشہور رائٹر دانشور ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی خاص طور پر اس تقریب میں شرکت کرکے راقم کے چھٹے شعری مجموعے اور تقریب کی شاندار کامیابی پر دلی مبارک باد پیش کی جب کہ صاحب صدر محمود شام کے کہنے کے مطابق کراچی جم خانہ کی یہ ایک کامیابی ترین اور یادگار تقریب شمار کی جائے گی جس میں ادب کی مقتدر اور معروف شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرکے تقریب کا حسن بڑھا دیا ہے۔
گزشتہ دنوں راقم کے چھٹے شعری مجموعے'' ریزہ ریزہ شبنم شبنم '' کی تقریب رونمائی کا اہتمام کراچی جم خانہ کی لائبریری و ادبی کمیٹی کے تعاون سے کیا گیا۔ تقریب کا آغاز حمد و نعت سے کیا گیا تقریب کی نظامت علی حسن ساجد کے سپرد تھی۔
تحریک پاکستان کے ایک دیرینہ سرگرم کارکن اور مشہور شاعر صغیر جعفری نے حمد و نعت کے چند اشعار ترنم سے پیش کیے، علی حسن ساجد جو پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور نیوز کاسٹر ہونے سے پہلے ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے ہیں انھوں نے تقریب کے آغاز کے بعد ریڈیو سے کمرشل سروس اور فلمی گیتوں کے حوالے سے اپنی کچھ یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا '' ایسے باکمال لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گوناگوں صلاحیتوں سے زمانے کو متاثر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں بھی سوچنے لگتے ہیں۔
میرے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ریڈیو پاکستان کراچی سے 1987 میں نئے طرز نشریات کی ابتدا ہوئی تو مجھے ریڈیو پاکستان جھروکے پیش کرنے کا موقعہ ملا ، یہ پروگرام پرائم ٹائم نشریات میں پیش کیا جاتا تھا۔ سامعین اس پروگرام کے لیے فون کرکے دن کے بارہ بجے سے لے کر ایک بجے تک اور بعض اوقات خطوط لکھ کر فلمی گیتوں کی فرمائش کیا کرتے تھے۔
اس پروگرام کے لیے اکثر و بیشتر جن فلمی گیتوں کی فرمائش ہوتی تھی ان میں زیادہ تر گیت یونس ہمدم کے لکھے ہوئے ہوتے تھے، میری اس زمانے میں یونس ہمدم سے کوئی جان پہچان یا ملاقات نہیں تھی پھر اکثر رات کو نشر ہونے والا پروگرام آپ کی فرمائش بھی میں پیش کیا کرتا تھا جس میں یونس ہمدم کے نغمات کی اکثر فرمائشیں ہوتی تھیں۔ یونس ہمدم کے نغمات کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کی سادگی اور حسن ہوتا تھا انھوں نے اپنی شاعری کو پیچیدہ اور مشکل الفاظ پر مشتمل کبھی نہیں رکھا بالکل سادہ الفاظ کے ساتھ واقعات اور احساسات کو گیتوں میں شامل کیا ان کے کلام میں شیرینی، سلاست، برجستگی اور شگفتگی پائی جاتی تھی جیساکہ ان کی فلم صبح کا تارا کا لکھا ہوا گیت جو مہدی حسن کی آواز میں تھا:
میرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
یا پھر فلم عشق عشق کا گیت:
نیناں رے نیناں تم ہی بُرے
تم سا بُرا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
یا پھر فلم تیرے میرے سپنے کا گیت:
میں ہوگئی دلدار کی ہونے لگی چبھن پیار کی
دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا
اور ایسے بہت سے خوب صورت گیت جو یونس ہمدم کے لکھے ہوئے ہوتے تھے وہ فرمائشی گیتوں کے پروگرام میں شامل ہوتے تھے، یونس ہمدم نے ریڈیو، ٹیلی وژن، فلم کے گیتوں کے علاوہ اخبارات میں بھی تسلسل سے کالم لکھے اور پڑھنے والوں نے نہ صرف انھیں پڑھا بلکہ پسند بھی کیا ان کے لکھے ہوئے گیتوں سے ناہید اختر، اے نیر، تحسین جاوید، جمال اکبر اور مسرت نذیر کو شہرت ملی۔
معروف ادیب اور دانشور رضوان صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج زندگی کے جس مرحلے پر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خود کو محبت کرنے والوں کے ہجوم میں کھڑا دیکھتا ہوں ، اب میرے دائیں بائیں چند چہرے باقی رہ گئے ہیں۔
بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی کے بعد اب زندگی کے موجود ہر مرحلے پر جو چند دوست ساتھ ہیں ان میں ایک یونس ہمدم ہیں جو زمین پر قدم جمائے بڑے اعتماد کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہ میرے ہمدم دیرینہ بھی ہیں اور میرے کزن بھی ہیں اور دونوں گھرانوں میں سویّوں کی طرح رشتہ داریاں محبتوں کے ساتھ الجھی ہوئی ہیں۔ میرے اور یونس ہمدم کے مشاغل اور مسائل یکساں ہیں جو شہرت یونس ہمدم نے حاصل کی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
پروفیسر محترمہ نوشاد صدیقی صاحبہ نے راقم الحروف کے بارے میں مضمون پڑھتے ہوئے کہا۔'' یونس ہمدم ہمارا اس وقت سے دوست ہے جب نوعمری کی حدود میں جسے بچپن بھی کہا جاسکتا ہے۔ یونس ہمدم کے قلم سے ایسے پکے معرکے ہوئے تھے جن کا آغاز کبھی کچے قلم سے ہوا تھا ہم نے یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یونس ہمدم اپنی شاعری کا رخ فلمی دنیا کو بخش دے گا۔
معصوم سا بھولا بھالا پرخلوص شخص فلم نگر کی چکا چوند میں گم ہو جائے گا ہم نے سوچا فلمی دنیا میں شہرت کمانے کے بعد اب یونس ہمدم ہمیں پہچانے گا بھی نہیں کیونکہ فلمی دنیا کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ ہی نہیں کرتی مروت اور خلوص کو بھی کچل دیتی ہے مگر ہمارا یونس ہمدم ایسا نہیں نکلا یہ جب بھی ملا امروزی دوست بن کر ہی ملا وہی سادگی وہی بھولپن اسی پرانی محبت کے ساتھ ملا۔
نامور ٹی وی پروڈیوسر اور شاعر تاجدار عادل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہمارے بعض منتخب فلمی شاعروں نے فلم کے تقاضوں، موسیقی کے مطالبوں اور دیگر فنی تاویلوں اور جہت کے باوجود فلمی نغمہ نگاری میں تمام شعری حسن کا خیال رکھا ہے اور کمال کیا ہے ساحر، شکیل، مجروح، گلزار، قتیل شفائی، مسرور انور، سیف الدین سیف وغیرہ نے بہت خوبصورت عوامی نغمے بھی لکھے ہیں اور جہاں کہیں لگام ان کے ہاتھ آئی ہے انھوں نے خوب سخن کاری، خیال آفرینی کی ہے ان میں ایک یونس ہمدم بھی ہیں اب یونس ہمدم فلمی دنیا سے لوٹ آئے ہیں اور پرانے شعری سفر پر گامزن ہیں۔
اویس ادیب انصاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ شاعری ایک دشت ہے جس کی سیاہی بڑے دل گردے کا کام ہے اکثر لوگ اس دشت کی سیاہی سے پہلے شوق سفر سے تائب ہوکر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ پوری استقامت کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھتے ہیں انھی پرعزم اور پرجوش شاعروں میں ایک معتبر نام یونس ہمدم کا بھی ہے۔
محترمہ ڈاکٹر فاطمہ صاحبہ اور سینئر شاعرہ صبیحہ صبا نے یکے بعد دیگرے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یونس ہمدم کو اس عہدکا پسندیدہ شاعر قرار دیا اور بڑے دلچسپ انداز میں چند اشعار کا تذکرہ کرتے ہوئے یونس ہمدم کی شخصیت کے بعض پہلوؤں پر بھی بات کی اور کہا کہ اب یہ دوبارہ سے اپنے شاعری اور لکھنے کے سفر سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ فلمی دنیا کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں، اب یقینا ان کی شاعری اور دیگر نگارشات کا حسن مزید دوبالا ہوگا۔
ان تقاریر کے بعد علی حسن ساجد نے صاحب کتاب کو کلام سنانے کی دعوت دی۔ راقم نے کچھ سنہری یادیں فلمی دنیا کی بھی تازہ کیں اور بہت سی دلچسپ اور دلکش واردات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا کچھ تازہ کلام بھی پیش کیا جب میں کچھ سنا کر جانے لگا تو صاحب صدر محمود شام نے روکتے ہوئے کہا ارے بھئی ابھی سے کہاں چلے، یہ آپ کی شام ہے آپ کی تقریب ہے کچھ اور بھی سنائیں، پھر میں نے ایک دو غزلیں اور نظمیں بھی پیش کیں، جنھیں سامعین نے تالیوں کی گونج میں بڑا سراہا۔
راقم کی پذیرائی کے بعد ناموردانش ور ، صحافی ، کالم نگار محمود شام بھرپور تالیوں میں خطاب کرنے آئے اور کہا کہ یونس ہمدم کی طبیعت اور شاعری دونوں میں سادگی ہے اور ان کی شاعری میں آمد ہی آمد ہے جس بے ساختگی سے یہ کہتے ہیں شاعری میں ان کا اپنا الگ انداز اور رنگ ہے۔ یونس ہمدم نے ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں گزارا، اپنے فلمی گیتوں اور نغمات کو تک بندی کی آلودگی سے بچایا اور فلمی نغموں کو ایک نیا لہجہ اور موسیقی سے ہم آہنگ ردھم عطا کیا۔ تقریب کے اختتام پر تقریب کے ناظم علی حسن ساجد صاحب نے تمام مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس تقریب میں شہر کی دیگر نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں سابقہ میٹرو پولیٹن کمشنر و ڈائریکٹر کے ڈی اے جناب سمیع صدیقی، انیس مرچنٹ، شجاع الزماں، عرفان عابدی، زاہد حسین جوہری، جاوید میمن، فرحت اللہ قریشی، غلام علی وفا، خواجہ محمد اعظم، ٹی وی پروڈیوسر آصف انصاری، مسعود وصی، نفیس احمد خان، انجینئر وسیم فاروقی، شاہین مصور، فیصل اسلم، بابر موتی، خالد میر، محسن نقی ، نغمانہ شیخ، اے آر عباس، عشرت جبیں، ڈاکٹر صبیحہ اعوان، شگفتہ فرحت، مہر جمالی، ہما ناز، اظہر اقبال سینئر صحافی صابرعلی اور مشہور رائٹر دانشور ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی خاص طور پر اس تقریب میں شرکت کرکے راقم کے چھٹے شعری مجموعے اور تقریب کی شاندار کامیابی پر دلی مبارک باد پیش کی جب کہ صاحب صدر محمود شام کے کہنے کے مطابق کراچی جم خانہ کی یہ ایک کامیابی ترین اور یادگار تقریب شمار کی جائے گی جس میں ادب کی مقتدر اور معروف شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرکے تقریب کا حسن بڑھا دیا ہے۔