قرضے نہیں نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں
نوجوانوں میں تعمیر کردار کی ضرورت ہے
پاکستانی نوجوان کے مشکلات میں گھرے ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں تعلیم اور روزگار کے علاوہ بھی مسائل درپیش ہیں۔
تعلیم تو جیسے تیسے وہ حاصل کرہی لیتا ہے، کوئی کم اور کوئی زیادہ، لیکن اسے میٹرک کے بعد اور روزگار سے پہلے بھی چند مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ میٹرک کے بعد اپنے لیے راہ متعین کرنا، کیریئر پلاننگ اور کیریئر بلڈنگ اہم ترین ہیں۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو والدین اسے ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ابتدائی تعلیمی سفر میں اس امر سے بے نیاز رہتے ہیں کہ اس کا رجحان کس جانب ہے اور ہم اپنی خواہش کے مطابق اسے کیا بنانا چاہ رہے ہیں ۔ بچہ بھی والدین کی خواہش پر یہی عزم لیے جوان ہوتا ہے۔ وہ میٹرک کرتا ہے تو اس کے استحصال کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اسے ایک بنیادی مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ مذکورہ فیلڈز میں داخلہ لینے کیلئے اس کو مطلوبہ نمبر میسر نہیں آتے۔
اگر وہ اتنے نمبر لینے میں کامیاب ہوبھی جائے تو محدود نشستیں ہونے کی وجہ سے اسے داخلہ نہیں مل پاتا۔ نتیجتاً اسے یا تو اگلے سال کا انتظار کرکے اپنا ایک سال ضائع کرنا پڑتا ہے یا پھر اپنا سال بچانے کیلئے اپنے والدین کی خواہش یا اپنے ذہنی رجحان سے ہٹ کر کسی اور لائن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے سے جہاں اس کے خواب ٹوٹتے ہیں وہیں وہ مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے۔ بالفرض اگر وہ کسی دوسری فیلڈ میں داخلہ لے لے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خواب جو اس نے بچپن میں دیکھا تھا، اس کی تعبیر چکنا چور ہونے پر کیا وہ اس فیلڈ میں چل پائے گا؟ اگر چل بھی جائے تو کیا متوقع نتائج دے سکے گا جو مستقبل کی کامیابی کیلئے درکار ہیں۔
پرائیویٹ یونیورسٹیز ہوں یا سرکاری تعلیمی ادارے، متعلقہ نشستوں میں اضافے کی واضح پیش رفت نہیں کرپارہے اور نہ ہی تعلیمی منصوبہ و پالیسی ساز اس جانب توجہ دینے میں سنجیدہ ہیں۔ نوجوانوں کو جہاں کسی فیلڈ کے انتخاب یا تبدیل کرنے کے حوالے سے مناسب رہنمائی میسر نہیں وہیں، انہیں کریکٹر بلڈنگ (تعمیر کردار) اور کیرئیر پلاننگ (مستقبل کی منصوبہ بندی) کے لئے اپنے بڑے بوڑھوں کے علاوہ کوئی فرد یا پلیٹ فارم ایسا نہیں ملتا جو اس ضمن میں ان کی رہنمائی کرسکے۔ نتیجتاً اس کی صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں، اس کا قصور وار کون ہے ، یقیناً یہ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام اور معاشی سسٹم سے مایوس اور ملک کی مجموعی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا نوجوان اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے لئے ''باہر'' جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ گویا وہ سمجھتا ہے کہ باہر جاتے ہی نہ صرف اس کی مانگ بڑھ جائے گی بلکہ اس کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ایک ''وقعت '' والی ڈگری اور باعزت روزگار یا وائٹ کالر جاب بھی اس کی منتظر ہوگی۔ ایچ ای سی کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 800 افراد اعلیٰ تعلیم کی سطح پر پہنچتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ وجہ پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں، جو انہیں ملک کے اندر یا باہر اعلیٰ پائے کی ملازمت دے سکے یا پھر یہاں وہ سہولیات نہیں جو انہیں تعلیمی معیار پر مطمئن کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سات سمندر پار اڑان کی خواہش لیے طلبہ آغاز میں ہی سیکھنے کی جستجو کو تھپکی دے کر سلا دیتے ہیں جس سے ان کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ نوجوانوں کی مختلف شعبوں میں شمولیت کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ نوجوانوں کی ہر سطح پر بھرپور حوصلہ افزائی سے نا صرف ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ شعوری طور پر بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں، لیکن آج نجی اور سرکاری اداروں کی جانب سے دھڑا دھڑ نت نئی ڈگریاں متعارف کروانے اور ہر سال ہزاروں، لاکھوں ڈگریاں جاری کرنے کے باوجود یہ نوجوانوں کی عملی زندگی میں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔ ملکی معیشت کی ترقی کے عمل میں شامل ہوکر فعال کردار ادا کرنے کے خواہشمند نوجوان ایسا کرنے سے محض اس لیے قاصر ہیں کہ ہمارے معاشی دائرہ میں ان کے لئے گنجائش اور وسعت ہی موجود نہیں ہے۔
نتیجتاً ایک بڑی تعداد ملک و قوم کیلئے عضو معطل بن رہی ہے، اور بعض مجبور ہوکر ڈکیتی ، راہزنی ، سٹریٹ کرائمز اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں میں قرضے ''بانٹ'' کر انہیں ''روزگار'' کا لالچ دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی معذور کو عارضی طور پر سہارا دے کر چلایا جائے اور پھر حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے بیچ میدان میں اسے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ حالانکہ انہیں قرضے کی نہیں مواقعوں کی ضرورت ہے۔ وہ اتنے باصلاحیت ہیں کہ اگر انہیں اپنی قسمت آزمانے کا موقع دیا جائے تو وہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاکر ملکی ترقی میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج قیام پاکستان کو 7 دہائیاں گزرنے کو آئی ہیں لیکن نوجوانوں کیلئے نہ تو پالیسی سازی اخباری سرخیوں اور کاغذی کارروائیوں سے آگے بڑھ سکی اور نہ ہی ان کی راہ ہموار کرنے کے لئے مواقع پیدا کیے گئے ۔
پاکستان اس وقت 65 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل دنیا کا پانچواں ملک ہے اور مستقبل قریب میں یہ تعداد بڑھنے سے پاکستان اس فہرست میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آجائے گا ۔ پاکستان پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین پاکستانیوں میں سے ایک 14 سال کی عمر کا ہے۔ 2020ء تک پاکستان میں 15 سے 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے جبکہ 2030ء تک پاکستان میں 24 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی صلاحیتوں سے استفادہ کرکے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس ملک کے پاس اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہوں انہیں مواقع مہیا نہ کرنا بلاشبہ حکومتی بدانتظامی ، ناکامی اور نالائقی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یوتھ فیسٹیولز اور قرضہ سکیموں میں الجھا کر انہیں روشن مستقبل کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے ، یہ سوال نہایت اہم ہے۔؟ پاکستانی حکومت کی بجائے دوسرے ممالک کا ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا یقیناً حکومتی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔
تعلیم تو جیسے تیسے وہ حاصل کرہی لیتا ہے، کوئی کم اور کوئی زیادہ، لیکن اسے میٹرک کے بعد اور روزگار سے پہلے بھی چند مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ میٹرک کے بعد اپنے لیے راہ متعین کرنا، کیریئر پلاننگ اور کیریئر بلڈنگ اہم ترین ہیں۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو والدین اسے ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ابتدائی تعلیمی سفر میں اس امر سے بے نیاز رہتے ہیں کہ اس کا رجحان کس جانب ہے اور ہم اپنی خواہش کے مطابق اسے کیا بنانا چاہ رہے ہیں ۔ بچہ بھی والدین کی خواہش پر یہی عزم لیے جوان ہوتا ہے۔ وہ میٹرک کرتا ہے تو اس کے استحصال کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اسے ایک بنیادی مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ مذکورہ فیلڈز میں داخلہ لینے کیلئے اس کو مطلوبہ نمبر میسر نہیں آتے۔
اگر وہ اتنے نمبر لینے میں کامیاب ہوبھی جائے تو محدود نشستیں ہونے کی وجہ سے اسے داخلہ نہیں مل پاتا۔ نتیجتاً اسے یا تو اگلے سال کا انتظار کرکے اپنا ایک سال ضائع کرنا پڑتا ہے یا پھر اپنا سال بچانے کیلئے اپنے والدین کی خواہش یا اپنے ذہنی رجحان سے ہٹ کر کسی اور لائن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے سے جہاں اس کے خواب ٹوٹتے ہیں وہیں وہ مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے۔ بالفرض اگر وہ کسی دوسری فیلڈ میں داخلہ لے لے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خواب جو اس نے بچپن میں دیکھا تھا، اس کی تعبیر چکنا چور ہونے پر کیا وہ اس فیلڈ میں چل پائے گا؟ اگر چل بھی جائے تو کیا متوقع نتائج دے سکے گا جو مستقبل کی کامیابی کیلئے درکار ہیں۔
پرائیویٹ یونیورسٹیز ہوں یا سرکاری تعلیمی ادارے، متعلقہ نشستوں میں اضافے کی واضح پیش رفت نہیں کرپارہے اور نہ ہی تعلیمی منصوبہ و پالیسی ساز اس جانب توجہ دینے میں سنجیدہ ہیں۔ نوجوانوں کو جہاں کسی فیلڈ کے انتخاب یا تبدیل کرنے کے حوالے سے مناسب رہنمائی میسر نہیں وہیں، انہیں کریکٹر بلڈنگ (تعمیر کردار) اور کیرئیر پلاننگ (مستقبل کی منصوبہ بندی) کے لئے اپنے بڑے بوڑھوں کے علاوہ کوئی فرد یا پلیٹ فارم ایسا نہیں ملتا جو اس ضمن میں ان کی رہنمائی کرسکے۔ نتیجتاً اس کی صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں، اس کا قصور وار کون ہے ، یقیناً یہ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام اور معاشی سسٹم سے مایوس اور ملک کی مجموعی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا نوجوان اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے لئے ''باہر'' جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ گویا وہ سمجھتا ہے کہ باہر جاتے ہی نہ صرف اس کی مانگ بڑھ جائے گی بلکہ اس کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ایک ''وقعت '' والی ڈگری اور باعزت روزگار یا وائٹ کالر جاب بھی اس کی منتظر ہوگی۔ ایچ ای سی کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 800 افراد اعلیٰ تعلیم کی سطح پر پہنچتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ وجہ پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں، جو انہیں ملک کے اندر یا باہر اعلیٰ پائے کی ملازمت دے سکے یا پھر یہاں وہ سہولیات نہیں جو انہیں تعلیمی معیار پر مطمئن کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سات سمندر پار اڑان کی خواہش لیے طلبہ آغاز میں ہی سیکھنے کی جستجو کو تھپکی دے کر سلا دیتے ہیں جس سے ان کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ نوجوانوں کی مختلف شعبوں میں شمولیت کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ نوجوانوں کی ہر سطح پر بھرپور حوصلہ افزائی سے نا صرف ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ شعوری طور پر بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں، لیکن آج نجی اور سرکاری اداروں کی جانب سے دھڑا دھڑ نت نئی ڈگریاں متعارف کروانے اور ہر سال ہزاروں، لاکھوں ڈگریاں جاری کرنے کے باوجود یہ نوجوانوں کی عملی زندگی میں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔ ملکی معیشت کی ترقی کے عمل میں شامل ہوکر فعال کردار ادا کرنے کے خواہشمند نوجوان ایسا کرنے سے محض اس لیے قاصر ہیں کہ ہمارے معاشی دائرہ میں ان کے لئے گنجائش اور وسعت ہی موجود نہیں ہے۔
نتیجتاً ایک بڑی تعداد ملک و قوم کیلئے عضو معطل بن رہی ہے، اور بعض مجبور ہوکر ڈکیتی ، راہزنی ، سٹریٹ کرائمز اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں میں قرضے ''بانٹ'' کر انہیں ''روزگار'' کا لالچ دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی معذور کو عارضی طور پر سہارا دے کر چلایا جائے اور پھر حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے بیچ میدان میں اسے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ حالانکہ انہیں قرضے کی نہیں مواقعوں کی ضرورت ہے۔ وہ اتنے باصلاحیت ہیں کہ اگر انہیں اپنی قسمت آزمانے کا موقع دیا جائے تو وہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاکر ملکی ترقی میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج قیام پاکستان کو 7 دہائیاں گزرنے کو آئی ہیں لیکن نوجوانوں کیلئے نہ تو پالیسی سازی اخباری سرخیوں اور کاغذی کارروائیوں سے آگے بڑھ سکی اور نہ ہی ان کی راہ ہموار کرنے کے لئے مواقع پیدا کیے گئے ۔
پاکستان اس وقت 65 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل دنیا کا پانچواں ملک ہے اور مستقبل قریب میں یہ تعداد بڑھنے سے پاکستان اس فہرست میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آجائے گا ۔ پاکستان پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین پاکستانیوں میں سے ایک 14 سال کی عمر کا ہے۔ 2020ء تک پاکستان میں 15 سے 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے جبکہ 2030ء تک پاکستان میں 24 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی صلاحیتوں سے استفادہ کرکے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس ملک کے پاس اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہوں انہیں مواقع مہیا نہ کرنا بلاشبہ حکومتی بدانتظامی ، ناکامی اور نالائقی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یوتھ فیسٹیولز اور قرضہ سکیموں میں الجھا کر انہیں روشن مستقبل کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے ، یہ سوال نہایت اہم ہے۔؟ پاکستانی حکومت کی بجائے دوسرے ممالک کا ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا یقیناً حکومتی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔