گھر توڑیں نہیں بلکہ رشتے جوڑیے
آج کے دور میں رشتوں کو نباہنے اور اختلافات برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے
ربیکا کی شادی کو چھ ماہ ہوئے تھے۔ ربیکا حسب معمول اپنے میکے جانے کےلیے سامان پیک کررہی تھی۔ دوپہر میں وہ اپنی ماں کے گھر چلی گئی اور شام میں ارسلان کے موبائل پر ربیکا کا پیغام وصول ہوا، جسے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ ربیکا کا پیغام تھا کہ وہ مزید اس گھر میں نہیں رہ سکتی جہاں ہر کام دوسروں کی مرضی سے کیا جائے۔ اگر ارسلان دوسرا گھر لے سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ اسے طلاق دے دے۔
ارسلان نے فون پر ربیکا کو سمجھایا کہ اکیلی ماں کو چھوڑ کر وہ کیسے الگ رہ سکتا ہے؟ لیکن ربیکا کی ایک ہی رٹ تھی۔ ربیکا اپنی ماں کے ساتھ ان کی سہیلی کے گھر گئی تو وہاں ربیکا کی ماں نے ان 6 ماہ میں ہونے والے مظالم کی روداد اپنی سہیلی کو سنائی۔ اس نے دھیمے انداز میں ربیکا کی ماں کو سمجھاتے کہا کہ یہ مداخلت تو تھوڑے عرصے کی بات ہے۔ کیا ہم تم نے مخالفت اور مداخلتیں برداشت نہیں کیں؟ بیٹی سے کہو کہ پیار و محبت سے شوہر سے بات کرے۔ یہ مسئلے ایسے ہی سلجھتے ہیں۔ لیکن ربیکا کی ماں نے غصے میں کہا ''کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میری بیٹی ساری زندگی ویسے ہی گزاردے جس طرح ہم نے گزاری؟ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔''
اس ضد کا نتیجہ ربیکا کا گھر ٹوٹنے کی صورت سامنے آیا۔
مسز جاوید کی بیٹی دانیہ شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد گھر آئی تھی۔ مسز جاوید نے جب گھر کے حالات دریافت کیے تو پتہ چلا دانیہ کا شوہر اس پر بالکل توجہ نہیں دیتا۔ شادی کو ڈیڑھ ماہ ہونے کو آئے ہیں، مجال ہے جو کہیں گھمانے لے گیا ہو۔ اپنے آفس اور دوستوں میں بہت مصروف رہتا ہے۔ دانیہ ایک ماہ اپنی ماں کے گھر رہی لیکن سوائے دو تین فون کرنے کے اس کے شوہر نے آنے کی زحمت تک نہ کی۔ مسز جاوید نے خلع کا کیس دائر کردیا۔ وکیل کے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لڑکا سدھرنے والا نہیں ہے۔ ابھی یہ مسائل ہیں تو آگے تو اور مسئلے بڑھ جائیں گے۔ اگر میری بیٹی دو بچے لے کر گھر آگئی تو میں کیا کرلوں گی۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ ابھی سے معاملات ختم کردیے جائیں۔ یوں دانیہ بھی خلع لے کر اپنے گھر بیٹھ گئی۔
زینب کی شادی کو دو سال ہونے کو آئے تھے۔ دو سال میں وہ دو بچوں کی ماں تھی۔ گھر کے تمام کام کاج، بچوں کے سارے خرچے اور مسائل اسی کی ذمے داری تھے۔ اس پر بھی اس کو گالم گلوچ، لعن طعن اور ہر وقت کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ کیونکہ یہ سب سے بڑی بہن تھی اس کے بعد چار بہنیں اور تھیں۔ اس کا شوہر صبح کام پر جاتا تو رات گئے گھر آتا۔ شوہر کے گھر آتے ہی ساس زینب اور بچوں کے سامنے اپنے بیٹے کو کہتی کہ اس مصیبت سے جان چھڑواؤ، ہر وقت مری رہتی ہے۔ اس کو ڈھنگ سے پہننا اوڑھنا بھی نہیں آتا۔ چھوڑ دے اسے، تیرے لیے لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟ اور زینب یہ سوچتی کہ پورے گھر کے کام کاج، کھانا پکانا، بچوں کے کاموں کے بعد بھی میری ساس مجھ سے خوش کیوں نہیں ہوتی۔ کاش میں یہ سب اپنےوالدین کو بتاسکتی۔ لیکن اس کے والدین سوائے صبر کے اسے کوئی مشورہ نہیں دے سکتے تھے۔
آج کے دور میں رشتوں کا تقدس اور معاشرتی رجحانات تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے اور آج کے لوگوں میں بہت فرق ہوگیا ہے۔ محض 30 سال قبل لوگ ہر صورت میں رشتوں کو قائم رکھنا چاہتے تھے، لیکن آج کل بچوں کے مزاج میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ وقت سے پہلے بہت سی باتوں کی آگہی بھی نقصان دیتی ہے۔ رشتوں کو جوڑے رکھنا آج کل ہر ایک کےلیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، گھر بسانا ہی نہیں چاہتے۔ اور اگر ایک چاہتا بھی ہے تو پھر دیکھنے میں آیا ہے کہ دوسرا فریق اسے جذباتی بلیک میل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ کوئی حساس قدم نہ اٹھالے۔
شادی سے پہلے ہی لڑکے ہوں یا لڑکیاں، اپنے ہونے والے سسرال کے بارے میں بہت سے خواب سجا لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ٹوٹتے ہیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے خواتین کی سوچ بھی بہت مختلف تھی، وہ الگ زاویے سے سوچتی تھیں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ بڑے پیارے پیارے رشتے لہو رلاتے ہیں، راتیں جگاتے ہیں، مگر چھوڑنے کے نام پر بھی جان جاتی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ماں باپ بھی اب وہ سوچ نہیں دے پارہے جو معاشرے اور سماج کو باہم مربوط رکھنے کےلیے ضروری ہے۔ بیوی سمجھ نہ آئے تو ماں کہہ دے گی کہ بیٹا اسے چھوڑ دے تیرے پاس کمی تھوڑی ہے۔ اسی طرح لڑکی کے گھر والے سوچتے ہیں کہ بیٹی کا گھر بسائے رکھنے کا فائدہ ہی کیا، جب رشتوں کا تقدس ہی نہیں۔ بیٹی کے بچے ہونے سے پہلے ہی معاملات ختم ہوجائیں تو بہتر ہے، ورنہ بعد میں بچوں کی ماں سے کون شادی کرے گا۔
معاشرے کا عمومی مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ جہاں کام نظر آئے بس ان ہی سے روابط بنائے جائیں۔ پڑوس میں اگر غریب بہن بھی رہتی ہے تو بھائی بھاوج اسے نہیں پوچھتے، مبادا اس کی کوئی ضرورت ہی نہ نکل آئے۔ وجہ ہے مادیت پسندی۔ خون کے رشتے تو کبھی قطع کر ہی نہیں سکتے۔ جس نے رشتے بنا کر انسان کو محبتوں کے غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا، وہی کہتا ہے جس نے رحم کے رشتوں کو توڑا اس کےلیے خیر نہیں۔ محتاط رہا جاسکتا ہے قطع تو کسی صورت جائز نہیں۔
لیکچرار مرحومہ بلقیس نے کسی خاندان کا بیٹے کی ناخلفی کی بنا پر ناراضی کا ذکر کرتے ہوئے طالبات کو جتاتے سنایا تھا کہ وفات سے قبل اثاثے تقسیم کرتے وقت باپ نے ناراضی کے باوجود بیٹے کو بلا کر اس کا حصہ دیا تاکہ رب کی نافرمانی نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ سب ہی ایسے ہیں۔ معاشرے میں آج بھی اچھے لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے روایات اور معاشرے کی ساکھ کچھ برقرار ہیں۔ محبت سے رشتوں کو جوڑے رکھنے ہی میں معاشرے کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ارسلان نے فون پر ربیکا کو سمجھایا کہ اکیلی ماں کو چھوڑ کر وہ کیسے الگ رہ سکتا ہے؟ لیکن ربیکا کی ایک ہی رٹ تھی۔ ربیکا اپنی ماں کے ساتھ ان کی سہیلی کے گھر گئی تو وہاں ربیکا کی ماں نے ان 6 ماہ میں ہونے والے مظالم کی روداد اپنی سہیلی کو سنائی۔ اس نے دھیمے انداز میں ربیکا کی ماں کو سمجھاتے کہا کہ یہ مداخلت تو تھوڑے عرصے کی بات ہے۔ کیا ہم تم نے مخالفت اور مداخلتیں برداشت نہیں کیں؟ بیٹی سے کہو کہ پیار و محبت سے شوہر سے بات کرے۔ یہ مسئلے ایسے ہی سلجھتے ہیں۔ لیکن ربیکا کی ماں نے غصے میں کہا ''کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میری بیٹی ساری زندگی ویسے ہی گزاردے جس طرح ہم نے گزاری؟ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔''
اس ضد کا نتیجہ ربیکا کا گھر ٹوٹنے کی صورت سامنے آیا۔
مسز جاوید کی بیٹی دانیہ شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد گھر آئی تھی۔ مسز جاوید نے جب گھر کے حالات دریافت کیے تو پتہ چلا دانیہ کا شوہر اس پر بالکل توجہ نہیں دیتا۔ شادی کو ڈیڑھ ماہ ہونے کو آئے ہیں، مجال ہے جو کہیں گھمانے لے گیا ہو۔ اپنے آفس اور دوستوں میں بہت مصروف رہتا ہے۔ دانیہ ایک ماہ اپنی ماں کے گھر رہی لیکن سوائے دو تین فون کرنے کے اس کے شوہر نے آنے کی زحمت تک نہ کی۔ مسز جاوید نے خلع کا کیس دائر کردیا۔ وکیل کے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لڑکا سدھرنے والا نہیں ہے۔ ابھی یہ مسائل ہیں تو آگے تو اور مسئلے بڑھ جائیں گے۔ اگر میری بیٹی دو بچے لے کر گھر آگئی تو میں کیا کرلوں گی۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ ابھی سے معاملات ختم کردیے جائیں۔ یوں دانیہ بھی خلع لے کر اپنے گھر بیٹھ گئی۔
زینب کی شادی کو دو سال ہونے کو آئے تھے۔ دو سال میں وہ دو بچوں کی ماں تھی۔ گھر کے تمام کام کاج، بچوں کے سارے خرچے اور مسائل اسی کی ذمے داری تھے۔ اس پر بھی اس کو گالم گلوچ، لعن طعن اور ہر وقت کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ کیونکہ یہ سب سے بڑی بہن تھی اس کے بعد چار بہنیں اور تھیں۔ اس کا شوہر صبح کام پر جاتا تو رات گئے گھر آتا۔ شوہر کے گھر آتے ہی ساس زینب اور بچوں کے سامنے اپنے بیٹے کو کہتی کہ اس مصیبت سے جان چھڑواؤ، ہر وقت مری رہتی ہے۔ اس کو ڈھنگ سے پہننا اوڑھنا بھی نہیں آتا۔ چھوڑ دے اسے، تیرے لیے لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟ اور زینب یہ سوچتی کہ پورے گھر کے کام کاج، کھانا پکانا، بچوں کے کاموں کے بعد بھی میری ساس مجھ سے خوش کیوں نہیں ہوتی۔ کاش میں یہ سب اپنےوالدین کو بتاسکتی۔ لیکن اس کے والدین سوائے صبر کے اسے کوئی مشورہ نہیں دے سکتے تھے۔
آج کے دور میں رشتوں کا تقدس اور معاشرتی رجحانات تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے اور آج کے لوگوں میں بہت فرق ہوگیا ہے۔ محض 30 سال قبل لوگ ہر صورت میں رشتوں کو قائم رکھنا چاہتے تھے، لیکن آج کل بچوں کے مزاج میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ وقت سے پہلے بہت سی باتوں کی آگہی بھی نقصان دیتی ہے۔ رشتوں کو جوڑے رکھنا آج کل ہر ایک کےلیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، گھر بسانا ہی نہیں چاہتے۔ اور اگر ایک چاہتا بھی ہے تو پھر دیکھنے میں آیا ہے کہ دوسرا فریق اسے جذباتی بلیک میل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ کوئی حساس قدم نہ اٹھالے۔
شادی سے پہلے ہی لڑکے ہوں یا لڑکیاں، اپنے ہونے والے سسرال کے بارے میں بہت سے خواب سجا لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ٹوٹتے ہیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے خواتین کی سوچ بھی بہت مختلف تھی، وہ الگ زاویے سے سوچتی تھیں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ بڑے پیارے پیارے رشتے لہو رلاتے ہیں، راتیں جگاتے ہیں، مگر چھوڑنے کے نام پر بھی جان جاتی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ماں باپ بھی اب وہ سوچ نہیں دے پارہے جو معاشرے اور سماج کو باہم مربوط رکھنے کےلیے ضروری ہے۔ بیوی سمجھ نہ آئے تو ماں کہہ دے گی کہ بیٹا اسے چھوڑ دے تیرے پاس کمی تھوڑی ہے۔ اسی طرح لڑکی کے گھر والے سوچتے ہیں کہ بیٹی کا گھر بسائے رکھنے کا فائدہ ہی کیا، جب رشتوں کا تقدس ہی نہیں۔ بیٹی کے بچے ہونے سے پہلے ہی معاملات ختم ہوجائیں تو بہتر ہے، ورنہ بعد میں بچوں کی ماں سے کون شادی کرے گا۔
معاشرے کا عمومی مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ جہاں کام نظر آئے بس ان ہی سے روابط بنائے جائیں۔ پڑوس میں اگر غریب بہن بھی رہتی ہے تو بھائی بھاوج اسے نہیں پوچھتے، مبادا اس کی کوئی ضرورت ہی نہ نکل آئے۔ وجہ ہے مادیت پسندی۔ خون کے رشتے تو کبھی قطع کر ہی نہیں سکتے۔ جس نے رشتے بنا کر انسان کو محبتوں کے غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا، وہی کہتا ہے جس نے رحم کے رشتوں کو توڑا اس کےلیے خیر نہیں۔ محتاط رہا جاسکتا ہے قطع تو کسی صورت جائز نہیں۔
لیکچرار مرحومہ بلقیس نے کسی خاندان کا بیٹے کی ناخلفی کی بنا پر ناراضی کا ذکر کرتے ہوئے طالبات کو جتاتے سنایا تھا کہ وفات سے قبل اثاثے تقسیم کرتے وقت باپ نے ناراضی کے باوجود بیٹے کو بلا کر اس کا حصہ دیا تاکہ رب کی نافرمانی نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ سب ہی ایسے ہیں۔ معاشرے میں آج بھی اچھے لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے روایات اور معاشرے کی ساکھ کچھ برقرار ہیں۔ محبت سے رشتوں کو جوڑے رکھنے ہی میں معاشرے کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔