کوچۂ سخن

بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا؛<br /> کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا

بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا؛کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR:

غزل
بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا
کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا
کیا تیر و تفنگ اپنوں کے لاتا وہ مقابل
جو سامنے دشمن کے بے تیغ و سپر آیا
اس بار بھی آیا نہ مرے فیصلہ حق میں
اس بار بھی میں بازی مگر جیت کر آیا
جو تجربے میرے تھے کہاں کام وہ آئے
ہر بار مگر ہاتھ نیا ہی ہنر آیا
انسان نے اقدار ترقی میں بھلا دیں
پاتال میں یہ سیڑھیاں چڑھتا اتر آیا
اس بار تو منطق نے اٹھائی ہے ہزیمت
اس بار تو کشتی کو بچانے بھنور آیا
دھندلائے تصور پہ بکھرنے لگی تنویر
جاذب ؔمرے رونے سے تو منظر نکھر آیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)


۔۔۔
غزل
نظر کا معجزہ پتھر کو موم کرتا ہے
رضا سے رب کی گلِ آرزو نکھرتا ہے
یہ دونوں باتیں بیک وقت اچھی لگتی ہیں
میں جس کو دیکھ کے جیتی ہوں مجھ پہ مرتا ہے
صباحت اس کی چلی آئے میرے کمرے میں
تب آفتاب کہیں شرق سے ابھرتا ہے
خیال آئے جو اس کا مہک بکھرتی ہے
یہ رنگ میرا اسے دیکھ کر نکھرتا ہے
اس ایک شخص کا ٹوٹا نہیں غرور ابھی
تمام شہر یہاں میرا پانی بھرتا ہے
یہ بات زندہ دلاں تک نہیں رہی محدود
یہ آئنہ بھی مجھے دیکھ کر سنورتا ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
اگرچہ نغمہ سرائی کا وقت بھی نہیں ہے
زمانے دیکھ لڑائی کا وقت بھی نہیں ہے
تمہارے شہر نے پاگل بنا لیا لیکن
کسی کو راہ نمائی کا وقت بھی نہیں ہے
مرے خدا کوئی مجھ سے بچھڑ رہا ہے اور
تو جانتا ہے جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
مگر تمہاری طرف دیکھتے مسلسل ہیں
ہمارے دل کی بھلائی کا وقت بھی نہیں ہے
کسی نے ٹھیک سے اپنا کہا نہیں ہے مجھے
کسی کے پاس جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
یہ فیصلہ مرے غم نے غلط کیا شاید
رِہا کیا ہے رِہائی کا وقت بھی نہیں ہے
بس ایک رات بچھڑنے کا دکھ کریں گے ہم
پھر اس کے بعد دُہائی کا وقت بھی نہیں ہے
ثواب ہم نظر انداز کر گئے عادسؔ
برا بنے ہیں برائی کا وقت بھی نہیں ہے
(امجد عادِس۔ آزاد کشمیر)


۔۔۔
غزل
ترا غم یوں مرے سینے کے اندر سانس لیتا ہے
کہ جیسے سرد راتوں میں دسمبر سانس لیتا ہے
تجھے آواز بھی دیتا تو کیسے، خود مرے اندر
کوئی مجذوب بیٹھا ہے قلندر سانس لیتا ہے
میں جب لفظوں سے کاغذ پر تری صورت بناتا ہوں
تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں منظر سانس لیتا ہے
محبت ایسا رشتہ ہے جو مر کر بھی نہیں مرتا
ذرا سا غور سے دیکھو تو اکثر سانس لیتا ہے
ہتھیلی پر لکیریں تو نہیں ہوتی شکیل اختر
تعلق جھلملاتا ہے مقدر سانس لیتا ہے
(شکیل اختر ۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل
پیکرِ لفظ و معانی کو نگل جاتی ہے
بے دِلی ربطِ کہانی کو نگل جاتی ہے
پیٹ خالی ہو تو جذبات مچلتے ہی نہیں
مفلسی شعلہ جوانی کو نگل جاتی ہے
بعض اوقات کسی اور کے چہرے کی تھکن
اپنے اندر کی گرانی کو نگل جاتی ہے
ہجر آنکھوں کی سفیدی میں ڈھلا تو یہ کھلا
دھوپ کس طرح سے پانی کو نگل جاتی ہے
ہجر کی رات سیہ رات قیامت ہے عطاؔ
یہ وہ ڈائن کہ جوانی کو نگل جاتی ہے
(عطاشائق۔ بھکر)


۔۔۔
غزل
کیسے لوگوں میں یہاں شعر سنا بیٹھے ہیں
ایسا لگتا ہے کہیں دشت میں جا بیٹھے ہیں
میں نے اک پیڑ لگانے کا ارادہ باندھا
کتنے پنچھی مری دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
اچھے وقتوں میں چلے ساتھ ترے برسوں تک
گردشِ وقت میں اب یار بتا بیٹھے ہیں؟
ہم نے یک طرفہ محبت کو عبادت سمجھا
اور وہ اپنی طرف بن کے خدا بیٹھے ہیں
اپنا مسلک ہے محبت ہی محبت ناشر
سو اسی واسطے دنیا سے جدا بیٹھے ہیں
(ذیشان حیدر ناشر ۔ وہاڑی)


۔۔۔
غزل
تیری آنکھیں،ترے گیسو،ترے شانے نہ رہے
ہم سے بربادِ محبت کے ٹھکانے نہ رہے
یہ تو رکھا ہے تری یاد نے سرسبز ہمیں
ورنہ جنگل میں بھی اب پیڑ پرانے نہ رہے


دل جو اڑتا ہوا خوش رنگ پرندہ تھا کبھی
ہائے اب اس پہ حسینوں کے نشانے نہ رہے
تیری آنکھوں کے اشاروں کا تسلسل ٹوٹا
بات سے بات نکلنے کے بہانے نہ رہے
ان جدائی کی رُتوں نے ہمیں ناشاد کیا
ہائے!پہلے سے شب و روز سہانے نہ رہے
ایسا افلاس کا عالم نہیں دیکھا تھا کبھی
جگمگاتے ہوئے جلوؤں کے خزانے نہ رہے
(عدنان منور۔دبئی)


۔۔۔
غزل
مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی ترے بعد بھی
نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی
تو ہوا نہیں تجھے مجھ سے دور کیا گیا
مرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی
مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی اسی لیے
مرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی
یہ نصیب ہی تجھے مجھ سے چھین کے لے گیا
رہا زندگی کا ولن یہی ترے بعد بھی
ترے شہر کے کسی آدمی سے ملوں اگر
ترا پوچھتا ہوں کبھی کبھی ترے بعد بھی
(انس سلطان ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
نجانے کون سے دکھ میرے سر نکل آئے
ادھیڑ عمر میں بچپن کے ڈر نکل آئے
تمہارے بعد کسی سے نہیں بنی میری
تمہارے بعد اداسی کے پر نکل آئے
مدام ایک دریچے سے جھانکتی آنکھیں
کہ جیسے ابر سے عکسِ قمر نکل آئے
حضور آپ مری آستیں میں رہتے تھے؟
حضور آپ بڑے معتبر نکل آئے
میں پھر رہا ہوں اکیلا تلاشِ منزل میں
خدا کرے کہ کوئی ہمسفر نکل آئے
میں نور ہوں سو یہ خواہش مدام رہتی ہے
مرے وجود سے بھی اک قمر نکل آئے
(نور تنہا۔ کراچی)


۔۔۔
''سفر''
وہ کہ ہر موڑ پہ تھا میرے ساتھ
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
ہر طرف شہر میں ہے سناٹا
سایہ بس ساتھ چل رہا میرے
اور کچھ بھی نظر نہیں آتا
بس اک پل صراط کا ہے سفر
جو کہ لگتا ہے اب طویل بہت
اور بس ان اداس راہوں میں
اسکی ہے یاد ہر جگہ موجود
یہ شب و روز چلتے رہتے ہیں
سارے منزل بدلتے رہتے ہیں
میری آنکھوں میں سارے یاد کے دیپ
یوں مسلسل ہی جلتے رہتے ہیں
یادوں کا اک طویل رستہ ہے
جن پہ سوچوں کا مینہ برستا ہے
اور پھر بارشوں کا یہ پانی
قطرہ قطرہ ذہن پہ گرتا ہے
اور پھر ایک جھرنے کی صورت
دل کے بس ساتھ ساتھ چلتا ہے
اور پھر یہ خیال آتا ہے
وہ کہ ہر موڑ پہ تھا ساتھ میرے
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
خالی ہیں بس یہ میرے دونوں ہاتھ
سایہ سا چل رہا ہے میرے ساتھ
(تسنیم مرزا۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
وہ روبرو ہیں یا نہیں لیکن تصورات میں
قائم ہیں دل کے سلسلے جہان بے ثبات میں
وہ دور جب سے ہوگئے مرے حواس کھو گئے
رنج و الم نہ کم ہوا میرا کسی بھی رات میں
وہ قربتیں وہ چاہتیں کیسے تمام ہو گئیں
یاد یں جواں ہیں آج بھی جہان التفات میں
یہ تشنگی یہ بے بسی یہ چار دن کی زندگی
گزر رہی ہے آج کل عجب تفکرات میں
یہ معرکۂ عشق ہے فنا سے کیا غرض اسے
وہی ہے کامراں یہاں جسے یقیں ہو مات میں
اکبر ملا تو کیا ملا جہان سوز وساز میں
جفا کی راکھ رہ گئی ذرا سی تیرے ہاتھ میں
(محمد اکبر خان۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
زندگی دیکھ نہیں مجھ کو یوں حیرانی سے
میں نکل آیا محبت کی پریشانی سے
خرچ کرتا ہوں میں گن گن کے خوشی کے لمحے
''کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے''
میں تو بہنے لگا حالات کے دریاؤں میں
اے سمندر میں ڈرا کب تیری طغیانی سے
کیوں نہ آغازِ محبت سے پلٹ آیا میں
ادھ موا ہو گیا پل پل کی پشیمانی سے
پیار اتنا نہ مجھے دے میرے دلدار کہ میں
مر بھی سکتا ہوں محبت کی فراوانی سے
جب سے چوما ہے بلالؔ اس نے میرے ماتھے پر
نور جاری ہے میری سرمئی پیشا نی سے
(بلال احمد بلال۔ رحیم یار خان)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story