کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے
کراچی:
آم ہمارا قومی پھل ہے، یوں تو صبر کا پھل ہی اس اعزاز کا مستحق ہے، لیکن چوں کہ وہ ملتا نہیں، اس لیے یہ حق آم کو مل گیا۔
سُنا ہے جب آم کو یہ پتا چلا کہ اسے پاکستان کا قومی پھل قرار دیا گیا ہے تو وہ یہ سوچ کر پریشان ہوگیا تھا کہ اس کا بھی وہی حال نہ ہو جو ملک کی قومی زبان اردو اور قومی کھیل ہاکی کا ہوا ہے۔ لیکن قومی پھل ہونے کے باوجود جب اس نے اپنا رس ہر خاص وعام کی بانچھوں سے ٹپکتے اور عوام کو اپنی طرف لپکتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جتنی بدتمیزی سے اسے کھایا جاتا ہے اتنی بدتمیزی شاید ہی کسی بادشاہ کے ساتھ کی گئی ہو۔ آپ تصور کریں اگر اسے آم کے بجائے بادشاہ ہی کہا جائے تو گھر گھر اس قسم کے جملے سننے کو ملیں گے ''بیگم! دو بادشاہ کاٹ کے لے آئو''، ''سنیں! بادشاہ کاٹ کر فریج میں رکھ دیے ہیں، کھا لیجیے گا''، ''بھیا! یہ لنگڑا بادشاہ کیا حساب ہے؟''، ''آپ کو کوئی چیز لینا نہیں آتی۔
سارے داغی بادشاہ لے آئے''،''بادشاہ سستے مل رہے تھے پانچ کلو لے آیا''،''ماسی یہ بادشاہ کے چھلکے پھینک دو''،''آپ کو بادشاہ کاٹ کے کھانا پسند ہے یا چوس کے؟'' ہم یہ سب کہتے تو نہیں لیکن عملاً بادشاہ کے ساتھ یہی سب کرتے ہیں، بادشاہ بادشاہوں سے جیسا بھی سلوک کریں لیکن بادشاہ عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو وہ یہی سلوک کرتے ہیں، مگر یہ معاملہ ظالم بادشاہوں کا ہے، آم بے چارہ تو بڑا ہی مظلوم بادشاہ ہے، مغلیہ دور کے آخری بادشاہوں کی طرح۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آم کو خواہ مخواہ بادشاہ کہا جاتا ہے حالاں کہ یہ تو بڑا جمہوری پھل ہے، ہمارے ملک میں تو یہ جمہوریت لانے کا سبب بنا۔ یہ آموں ہی کی ''قربانی'' تھی جس کے باعث سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی قربانی کے باوجود ٹس سے مس نہ ہونے والی آمریت آم کی چند پیٹیوں سے منٹوں میں ختم ہوگئی۔ بعض تاریخ داں کہتے ہیں کہ اس آمریت کا جبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ آم بھی پھٹ پڑے۔ یہ حادثہ ہماری تاریخ کا حصہ اور عجیب قصہ ہے۔ نہ ہوئے آموں کے رسیا مرزا اسد اللہ غالب، ورنہ اس حادثے پر خط لکھ کر یوں تاسف کا اظہار کرتے،''سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے کیسے رسیلے، شیریں اور یہ بڑے بڑے آم، غریب گٹھلیوں کے دام بھی نہ بک پائے، معشوق کو پہلوئے غیر میں دیکھ لینے والے عاشق کی طرح جل بُھن کر یوں ہی ضایع ہوگئے۔''
آم جمہوری ہے تو لامحالہ اسے سیاسی بھی ماننا پڑے گا۔ اس کے سیاسی ہونے کے سبب ہی تو اس کی سیاسی جماعتوں اور ان کے دھڑوں کی طرح اتنی ساری اقسام ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرح آموں کی قسمیں قدرتی بھی ہیں اور ایجادِبندہ بھی۔ آم بھی اسی طرح گرمی میں نظر آتے ہیں جس طرح سیاست داں انتخابات کی گرماگرمی میں اور مشکلات کی تپش میں عوام کے درمیان آتے ہیں۔
ان دونوں کا انتخاب کرتے ہوئے لوگ اکثر یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ میٹھے نکلیں گے۔ اعلیٰ معیار کے آم پیڑوں سے توڑے جانے اور سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قائدین اقتدار چھوڑے، خود کو مقدمات سے جوڑے اور بھانڈے پھوڑے جانے کے بعد بیرون ملک ''برآمد'' کردیے جاتے ہیں۔ یہ انھیں وصول کرنے والے ممالک کا کھلا تضاد ہے کہ خراب آم دیکھتے ہی ضایع کردیتے ہیں لیکن خراب سیاسی راہ نما اور سابق حکام سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ آم اور سیاست داں یکسر مماثل ہوں، یہی فرق دیکھیے کہ آم کھانے کے لیے برآمد ہوتے ہیں اور سیاسی راہ نما کھانے کی وجہ سے۔
آم واحد پھل ہے جس کی دعوت کی جاتی ہے جو دعوت آم کہلاتی ہے۔ اچھے لوگ دوسروں کو یا اسلام کی دعوت دیتے ہیں یا آم کی، دعوت حلیم، دعوت ولیمہ دینا بھی کوئی بری بات نہیں، البتہ دعوت گناہ نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ ہمارے ملک میں یہ قانوناً جرم ہے، حالاں کہ سب سے زیادہ یہی قبول کی جاتی ہے۔ ویسے شوگر کے مریض کو آم کی دعوت دینا بھی دعوت گناہ ہی ہے، خاص طور پر زیادہ شوگر کے ساتھ زیادہ عمر والے مریض جو بس اسی دعوت گناہ سے استفادے کی سکت رکھتے ہوں انھیں آم کھانے کے لیے مدعو کرنا میزبان کو قتل عمد کا ملزم بنا کر جیل کی ہوا بھی کھلا سکتا ہے۔
یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آم کھائو پیڑ نہ گنو، اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے ملک کے حکم راں کراچی کے محصول مزے لے لے کر کھاتے ہیں لیکن اس
شہر کے عوام کو گننے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
جون ایلیا کے لیے محبوبہ کا کھانا تناول کرنا اور اس کے مرمریں جسم میں انتڑیاں وغیرہ ہونے کا تصور بڑا ہی گھنائونا اور روح فرسا تھا۔ وہ تو خیر جون تھے، ہم ان جیسے نازک مزاج تو نہیں لیکن جس طرح خیالی محبوبہ یا کسی گل بدن، غنچہ دہن شیریں، سخن کو چائے میں پاپے ڈبو کر کھاتے، گٹکا چباتے اور نسوار لگاتے دیکھنا ہمارے لیے ناقابل قبول اور قابل خودکشی منظر ہوگا، اسی طرح محبوبہ کو چُسرچُسر آم چوستے اور پنکھڑی گلاب کی جیسے لبوں کو معہ مضافات آم کے رس سے لتھڑے دیکھنا، ہمیں ''محبت کو چُسی گٹھلی سمجھ کر چھوڑنا اچھا'' کہنے پر مجبور کردے گا، لیکن صاحب ایک اشتہار میں بی بی کترینہ کیف کو عام چوستے دیکھ کر وہ کیفیت ہوئی کہ سوچنے لگے۔۔۔
''کیا پایا انساں ہوکے۔۔۔ کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا۔'' کس نفاست سے آم چوس رہی تھیں، ہونٹوں پہ کوئی چھینٹ نہ ٹھوڑی پہ کوئی داغ، یہ آم ہے چوسا کہ کرامات کرو ہو'' بس زیریں لب پر لگا رس کا ایک قطرہ دولت حسن کا فطرہ بنا دکھائی دیا۔ اس دن ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ آم اتنی احتیاط، تمیز اور نفاست سے بھی کھائے جاسکتے ہیں، بشرطے کہ یہ کشٹ اٹھانے کے لیے دو تین کروڑ روپے پیش کیے گئے ہوں۔
آم کی ایسی شاعرانہ چُسائی متقاضی ہے کہ اب اس پھل کو ہماری شاعری کی تشبیہات میں جگہ دے دی جائے۔ خیر آم کا ذکر تو ہماری شاعری میں ملتا ہے، جیسے امین حزیں کی نظم ''آم'' کا مطلع ہے، ''ابا جب بازار سے آئے، آتے آتے آم بھی لائے۔'' جس طرح ابا بڑے آرام سے آتے آتے آم بھی لے آئے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سستے دور کا تذکرہ ہے، اسی لیے ابا بازار چلے گئے تھے، اگر آج کی طرح گرمی بازار ہوتی تو ابا کی مت ماری گئی تھی جو بازار جاتے! اگر جاتے بھی تو یوں بڑی بے فکری سے آتے آتے آم نہ لاتے یا تو شرماتے ہوئے آدھا کلو آم خریدتے یا بل کھاتے ہوئے ٹھیلے کے پاس سے گزر جاتے۔
یہ شعر اس دور میں کہا جاتا تو کچھ اس طرح ہوتا
ابا جب بازار سے آئے
سڑیل چھوٹے آم بھی لائے
ہم نے تو بس ان کو چکھا
گلی کی بکری نے سب کھائے
اگر ہمارے شعرا ابا سے آم خریدوانے اور لنگڑے کے الہ آباد سے لاہور تک آنے کے قصے سنانے کی جگہ آم کی خوبیاں محبوبہ میں تلاش کرنے اور اپنی شاعری میں اس پھل کی خصوصیات کو علامتوں کا رنگ دینے لگیں تو آم خوشی سے اور میٹھا ہوجائے گا۔
چلیے آم کا ذکر شاعری میں عام کرنے کی خاطر کچھ شعر ہم کہے دیتے ہیں:
آم کے جیسی میٹھی ہو
لنگڑا ہو کہ سندھڑی ہو
۔۔۔۔۔
یوں چوس کے پھینکا ہے ہمیں آپ نے صاحب
ہم لوگ کوئی آم کی گٹھلی تو نہیں تھے
۔۔۔۔۔
وصل یوں پاک محبت میں گزارا ہم نے
سونگھتے ہی رہے، چھلکا نہ اتارا ہم نے
۔۔۔۔
پھر نہ لوٹوں گا جو اک بار چلا جائوں گا
میں نہیں آم کے پھر اگلے برس آئوں گا
۔۔۔۔
ہم جسے یار سمجھتے تھے وہ بیری نکلا
ہم جسے آم سمجھ بیٹھے تھے کیری نکلا
۔۔۔۔۔
جھوٹ ہے مجھ کو بھولا ہے وہ، مجھ سے ناتا توڑا ہے
کچا آم سمجھ کر مجھ کو پکنے کو رکھ چھوڑا ہے
ہمیں یقین ہے کہ اہل سخن ہمارے قومی پھل سے اپنے کلام کو میٹھا اور رسیلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے، اور جلد ہر غزل اور نظم میں ''آمیانہ پن'' اپنی جھلکیاں دکھائے اور پھلوں کے بادشاہ کا دل لبھائے گا۔
آم ہمارا قومی پھل ہے، یوں تو صبر کا پھل ہی اس اعزاز کا مستحق ہے، لیکن چوں کہ وہ ملتا نہیں، اس لیے یہ حق آم کو مل گیا۔
سُنا ہے جب آم کو یہ پتا چلا کہ اسے پاکستان کا قومی پھل قرار دیا گیا ہے تو وہ یہ سوچ کر پریشان ہوگیا تھا کہ اس کا بھی وہی حال نہ ہو جو ملک کی قومی زبان اردو اور قومی کھیل ہاکی کا ہوا ہے۔ لیکن قومی پھل ہونے کے باوجود جب اس نے اپنا رس ہر خاص وعام کی بانچھوں سے ٹپکتے اور عوام کو اپنی طرف لپکتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جتنی بدتمیزی سے اسے کھایا جاتا ہے اتنی بدتمیزی شاید ہی کسی بادشاہ کے ساتھ کی گئی ہو۔ آپ تصور کریں اگر اسے آم کے بجائے بادشاہ ہی کہا جائے تو گھر گھر اس قسم کے جملے سننے کو ملیں گے ''بیگم! دو بادشاہ کاٹ کے لے آئو''، ''سنیں! بادشاہ کاٹ کر فریج میں رکھ دیے ہیں، کھا لیجیے گا''، ''بھیا! یہ لنگڑا بادشاہ کیا حساب ہے؟''، ''آپ کو کوئی چیز لینا نہیں آتی۔
سارے داغی بادشاہ لے آئے''،''بادشاہ سستے مل رہے تھے پانچ کلو لے آیا''،''ماسی یہ بادشاہ کے چھلکے پھینک دو''،''آپ کو بادشاہ کاٹ کے کھانا پسند ہے یا چوس کے؟'' ہم یہ سب کہتے تو نہیں لیکن عملاً بادشاہ کے ساتھ یہی سب کرتے ہیں، بادشاہ بادشاہوں سے جیسا بھی سلوک کریں لیکن بادشاہ عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو وہ یہی سلوک کرتے ہیں، مگر یہ معاملہ ظالم بادشاہوں کا ہے، آم بے چارہ تو بڑا ہی مظلوم بادشاہ ہے، مغلیہ دور کے آخری بادشاہوں کی طرح۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آم کو خواہ مخواہ بادشاہ کہا جاتا ہے حالاں کہ یہ تو بڑا جمہوری پھل ہے، ہمارے ملک میں تو یہ جمہوریت لانے کا سبب بنا۔ یہ آموں ہی کی ''قربانی'' تھی جس کے باعث سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی قربانی کے باوجود ٹس سے مس نہ ہونے والی آمریت آم کی چند پیٹیوں سے منٹوں میں ختم ہوگئی۔ بعض تاریخ داں کہتے ہیں کہ اس آمریت کا جبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ آم بھی پھٹ پڑے۔ یہ حادثہ ہماری تاریخ کا حصہ اور عجیب قصہ ہے۔ نہ ہوئے آموں کے رسیا مرزا اسد اللہ غالب، ورنہ اس حادثے پر خط لکھ کر یوں تاسف کا اظہار کرتے،''سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے کیسے رسیلے، شیریں اور یہ بڑے بڑے آم، غریب گٹھلیوں کے دام بھی نہ بک پائے، معشوق کو پہلوئے غیر میں دیکھ لینے والے عاشق کی طرح جل بُھن کر یوں ہی ضایع ہوگئے۔''
آم جمہوری ہے تو لامحالہ اسے سیاسی بھی ماننا پڑے گا۔ اس کے سیاسی ہونے کے سبب ہی تو اس کی سیاسی جماعتوں اور ان کے دھڑوں کی طرح اتنی ساری اقسام ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرح آموں کی قسمیں قدرتی بھی ہیں اور ایجادِبندہ بھی۔ آم بھی اسی طرح گرمی میں نظر آتے ہیں جس طرح سیاست داں انتخابات کی گرماگرمی میں اور مشکلات کی تپش میں عوام کے درمیان آتے ہیں۔
ان دونوں کا انتخاب کرتے ہوئے لوگ اکثر یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ میٹھے نکلیں گے۔ اعلیٰ معیار کے آم پیڑوں سے توڑے جانے اور سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قائدین اقتدار چھوڑے، خود کو مقدمات سے جوڑے اور بھانڈے پھوڑے جانے کے بعد بیرون ملک ''برآمد'' کردیے جاتے ہیں۔ یہ انھیں وصول کرنے والے ممالک کا کھلا تضاد ہے کہ خراب آم دیکھتے ہی ضایع کردیتے ہیں لیکن خراب سیاسی راہ نما اور سابق حکام سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ آم اور سیاست داں یکسر مماثل ہوں، یہی فرق دیکھیے کہ آم کھانے کے لیے برآمد ہوتے ہیں اور سیاسی راہ نما کھانے کی وجہ سے۔
آم واحد پھل ہے جس کی دعوت کی جاتی ہے جو دعوت آم کہلاتی ہے۔ اچھے لوگ دوسروں کو یا اسلام کی دعوت دیتے ہیں یا آم کی، دعوت حلیم، دعوت ولیمہ دینا بھی کوئی بری بات نہیں، البتہ دعوت گناہ نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ ہمارے ملک میں یہ قانوناً جرم ہے، حالاں کہ سب سے زیادہ یہی قبول کی جاتی ہے۔ ویسے شوگر کے مریض کو آم کی دعوت دینا بھی دعوت گناہ ہی ہے، خاص طور پر زیادہ شوگر کے ساتھ زیادہ عمر والے مریض جو بس اسی دعوت گناہ سے استفادے کی سکت رکھتے ہوں انھیں آم کھانے کے لیے مدعو کرنا میزبان کو قتل عمد کا ملزم بنا کر جیل کی ہوا بھی کھلا سکتا ہے۔
یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آم کھائو پیڑ نہ گنو، اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے ملک کے حکم راں کراچی کے محصول مزے لے لے کر کھاتے ہیں لیکن اس
شہر کے عوام کو گننے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
جون ایلیا کے لیے محبوبہ کا کھانا تناول کرنا اور اس کے مرمریں جسم میں انتڑیاں وغیرہ ہونے کا تصور بڑا ہی گھنائونا اور روح فرسا تھا۔ وہ تو خیر جون تھے، ہم ان جیسے نازک مزاج تو نہیں لیکن جس طرح خیالی محبوبہ یا کسی گل بدن، غنچہ دہن شیریں، سخن کو چائے میں پاپے ڈبو کر کھاتے، گٹکا چباتے اور نسوار لگاتے دیکھنا ہمارے لیے ناقابل قبول اور قابل خودکشی منظر ہوگا، اسی طرح محبوبہ کو چُسرچُسر آم چوستے اور پنکھڑی گلاب کی جیسے لبوں کو معہ مضافات آم کے رس سے لتھڑے دیکھنا، ہمیں ''محبت کو چُسی گٹھلی سمجھ کر چھوڑنا اچھا'' کہنے پر مجبور کردے گا، لیکن صاحب ایک اشتہار میں بی بی کترینہ کیف کو عام چوستے دیکھ کر وہ کیفیت ہوئی کہ سوچنے لگے۔۔۔
''کیا پایا انساں ہوکے۔۔۔ کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا۔'' کس نفاست سے آم چوس رہی تھیں، ہونٹوں پہ کوئی چھینٹ نہ ٹھوڑی پہ کوئی داغ، یہ آم ہے چوسا کہ کرامات کرو ہو'' بس زیریں لب پر لگا رس کا ایک قطرہ دولت حسن کا فطرہ بنا دکھائی دیا۔ اس دن ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ آم اتنی احتیاط، تمیز اور نفاست سے بھی کھائے جاسکتے ہیں، بشرطے کہ یہ کشٹ اٹھانے کے لیے دو تین کروڑ روپے پیش کیے گئے ہوں۔
آم کی ایسی شاعرانہ چُسائی متقاضی ہے کہ اب اس پھل کو ہماری شاعری کی تشبیہات میں جگہ دے دی جائے۔ خیر آم کا ذکر تو ہماری شاعری میں ملتا ہے، جیسے امین حزیں کی نظم ''آم'' کا مطلع ہے، ''ابا جب بازار سے آئے، آتے آتے آم بھی لائے۔'' جس طرح ابا بڑے آرام سے آتے آتے آم بھی لے آئے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سستے دور کا تذکرہ ہے، اسی لیے ابا بازار چلے گئے تھے، اگر آج کی طرح گرمی بازار ہوتی تو ابا کی مت ماری گئی تھی جو بازار جاتے! اگر جاتے بھی تو یوں بڑی بے فکری سے آتے آتے آم نہ لاتے یا تو شرماتے ہوئے آدھا کلو آم خریدتے یا بل کھاتے ہوئے ٹھیلے کے پاس سے گزر جاتے۔
یہ شعر اس دور میں کہا جاتا تو کچھ اس طرح ہوتا
ابا جب بازار سے آئے
سڑیل چھوٹے آم بھی لائے
ہم نے تو بس ان کو چکھا
گلی کی بکری نے سب کھائے
اگر ہمارے شعرا ابا سے آم خریدوانے اور لنگڑے کے الہ آباد سے لاہور تک آنے کے قصے سنانے کی جگہ آم کی خوبیاں محبوبہ میں تلاش کرنے اور اپنی شاعری میں اس پھل کی خصوصیات کو علامتوں کا رنگ دینے لگیں تو آم خوشی سے اور میٹھا ہوجائے گا۔
چلیے آم کا ذکر شاعری میں عام کرنے کی خاطر کچھ شعر ہم کہے دیتے ہیں:
آم کے جیسی میٹھی ہو
لنگڑا ہو کہ سندھڑی ہو
۔۔۔۔۔
یوں چوس کے پھینکا ہے ہمیں آپ نے صاحب
ہم لوگ کوئی آم کی گٹھلی تو نہیں تھے
۔۔۔۔۔
وصل یوں پاک محبت میں گزارا ہم نے
سونگھتے ہی رہے، چھلکا نہ اتارا ہم نے
۔۔۔۔
پھر نہ لوٹوں گا جو اک بار چلا جائوں گا
میں نہیں آم کے پھر اگلے برس آئوں گا
۔۔۔۔
ہم جسے یار سمجھتے تھے وہ بیری نکلا
ہم جسے آم سمجھ بیٹھے تھے کیری نکلا
۔۔۔۔۔
جھوٹ ہے مجھ کو بھولا ہے وہ، مجھ سے ناتا توڑا ہے
کچا آم سمجھ کر مجھ کو پکنے کو رکھ چھوڑا ہے
ہمیں یقین ہے کہ اہل سخن ہمارے قومی پھل سے اپنے کلام کو میٹھا اور رسیلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے، اور جلد ہر غزل اور نظم میں ''آمیانہ پن'' اپنی جھلکیاں دکھائے اور پھلوں کے بادشاہ کا دل لبھائے گا۔