معیشت کا استحکام صائب تجاویز
ترسیلات کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے
وفاقی حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے، اگلے چند روز میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق پٹرول کی قیمت233.89 روپے سے بڑھ کر 248.74 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت263.31 روپے سے بڑھ کر276.54 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت211.43 روپے سے بڑھ کر 230.26 روپے ، لائٹ ڈیزل کی قیمت207.47 روپے سے بڑھ کر226.15 روپے فی لٹر ہوگئی۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مطابق پٹرول اور ڈیزل پر 70 روپے فی لٹر ٹیکس ہونا چاہیے تھا ، جو معاہدہ عمران خان کر گئے ہیں اسی کو ہم نے بحال کیا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنا ہماری مجبوری ہے، کوشش کی ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہورہے ہیں اور ملک میں مہنگائی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔
نجی محفل ہو یا اجتماعی مجلس ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ اشیائے خورو نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔ یہاں مہنگائی کو قابوکرنے کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے ، مہنگائی کی نیت سے غیر ضروری اور نامناسب نفع اخلاقی طور پر درست ہے نہ ہی شرعی طور پر۔ اب تو عام آدمی کے لیے موٹرسائیکل کی ٹنکی فل کروانا بھی سہل نہیں رہا ۔
اس وقت سب سے بڑا چیلنج جو موجودہ اتحادی حکومت کو درپیش ہے کہ وہ کس طرح ملک کو نازک ترین معاشی صورتحال سے نکال کر معیشت کو مستحکم کرے ۔
ملک میں ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آیا ہے ، جس کے منفی اثرات براہ راست معیشت پر منتقل ہورہے ہیں، گو موجودہ حکومت معاشی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے لیکن یہ حکومت ایک سیاسی بحران سے سنبھلتی ہے تو دوسرے بحران میں پھنس جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) پر بھی دباؤ پڑا۔ سرمایہ کاروں نے بھی اس خوف و ہراس کے دوران اپنا کام جاری رکھا کہ ممکنہ طور پر ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو بڑے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کو وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک پولیٹیکل انجینئرنگ کے غیر مستحکم اور عوام مخالف ماحول کے تحت معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔
حکومت نے فنانس بل 23-2022 میں انکم ٹیکس کی شرح میں کچھ دیگر معمولی ترامیم کے علاوہ ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزا کی درآمد پر سیلز ٹیکس کو موجودہ 17 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دیا ہے۔ پچھلی حکومت نے ادویات کے خام مال کی درآمد پر سترہ فیصد قابل ریفنڈ سیلز ٹیکس عائد کیا تھا جسے ادویات سازی کے لیے منگوائے جانے والے خام مال کے استعمال سے تیار ہونے والی ادویات کی فروخت پر ریفنڈ کلیم کرکے واپس لیا جاسکتا تھا۔
تاہم اس پر فارما سیوٹیکل سیکٹرکو شدید تحفظات تھے اور ادویات مہنگی ہوگئی تھیں کیونکہ ادویات کے خام مال پر ادا کردہ سترہ فیصد ٹیکس کی ادویات تیار ہونے پر ریفنڈز کے سسٹم میں بہت پیچیدگیاں تھیں۔ موجودہ حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے لیکن اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے تمام عمل کی موثر نگرانی کریں تاکہ عام آدمی کو ادویات سستی اور بآسانی مل سکیں ، سارا منافع مینوفیکچررکی جیب میں نہ چلا جائے ۔
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور اعداد و شمار کا ہیر پھیر نا قابلِ قبول ہے، اگر معاشی ترقی اسی رفتار سے جاری رہی تو ہم اپنے 20 لاکھ نوجوان افراد کو سالانہ ملازمت کی منڈی میں داخل ہونے کے لیے روزگار کے مناسب مواقعے پیش نہیں کرسکیں گے، جس سے ملک کے لیے بے شمار معاشرتی ، ثقافتی ، معاشی اور سلامتی کے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔
یہ غیر یقینی صورتحال کاروباری سرمایہ کاری میں کمی کا باعث ہے اورکاروباری سرمایہ کاری کی نچلی سطح کا نتیجہ ملک کی خراب معاشی کارکردگی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ خراب معاشی کارکردگی ملک میں بدامنی پیدا کرتی ہے اور بدامنی وہ عفریت ہے جو حکومتیں نگل جاتا ہے۔
ہماری داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور اگر ہم اپنی معاشی نمو میں 6 سے 8فیصد اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو اگلے 5 سال میں 13 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کا عمل سب کے لیے ہونا چاہیے جس میں بنیادی توجہ نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے نہ کہ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید ٹیکس لاگو کرنا، اگر ہم آنے والے 5 سالوں میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 1 کروڑ تک لے جاتے ہیں تو معاشی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ ہمیں ٹیکس کا ایسا نظام متعارف کروانا چاہیے جس میں تمام آمدن ٹیکس یافتہ ہوں، تمام خرچے ٹیکس یافتہ ہوں اور ہر قسم کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی دفاعی اخراجات کے بعد سب سے بڑا خرچہ ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے اور تمام غیر ضروری اخراجات مثلاً وزارتوں اور ڈویژن کی تعداد میں کمی لانی چاہیے۔
ملک میں جب بھی ڈالرز کی کمی ہوتی ہے ہم ہمیشہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور پچھلے 5 سال کے دوران ہمارے تجارتی خسارے دگنا ہو گئے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی ملکی درآمدات میں کمی کے باوجود بجائے بڑھنے کے ہماری برآمدات میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ہماری خراب کارکردگی کی انتہا ہے۔ اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پاس برآمدات کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی درآمدات اور برآمدات پر توجہ دینی پڑے گی اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لانا ہوگی۔ ہمارے برآمدات کے لیے سب سے اہم ناقص حکمت عملی ہے جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زرعی اجناس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبہ میں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کے لیے نئے میدان تلاش کرنے پڑیں گے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔
ہماری حالیہ برآمدات میں مزید قدریں شامل کرنا پڑیں گی تاکہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں اپنی برآمدات سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ ٹیکسٹائل ہماری کل برآمدات کا قریباً 60 فی صد ہے۔ ہماری کپاس کی 10لاکھ بیلوں کی قیمت 1 ارب ڈالر ہے جب کہ چین اتنی ہی بیلوں کی قیمت 4ارب ڈالر وصول کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی مصنوعات میں اضافی قدر شامل ہوتی ہے،اگر ہم 10لاکھ بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر مقرر کریں تو ہم صرف ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 140 لاکھ بیلوں سے اضافی قدر کی مد میں 45 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت صنعتوں کو سبسڈی مہیا کرے تاکہ یہ اپنی مصنوعات میں اضافی قدر شامل کر سکیں۔
استحکام کی کمی اضافی قدر کے اطلاق میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں کاروبار نسل در نسل خاندانوں کی زیر نگرانی چلتے ہیں جن میں برآمدات کے شعبے میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں باہر سے سرمایہ نہیں آتا اور ہم عالمی مارکیٹ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
بینک دیوالیہ سے متعلق قانون جسے کارپوریٹ ریسٹرکٹنگ ایکٹ کہا جاتا ہے کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی کمپنیوں کے لیے استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملے اور عالمی مارکیٹ تک ہماری رسائی ممکن ہوسکے۔ چین کے بنائے اسپیشل اکنامک زونز کو برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو ایسی مصنوعات تیار کرنی چاہیئیں جن کی مارکیٹ میں طلب ہے۔ ہمیں ایسی مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ کرنا چاہیے جن کی پاکستان اور دنیا بھر میں طلب ہے۔
ترسیلات کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری بورڈ کو سرمایہ کاروں کے لیے ون اسٹاپ شاپ کے قیام کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک چھت کے نیچے ہی ان کے تمام مسائل کا حل ممکن ہوسکے۔ سرمایہ کاری بورڈ کا دفتر وزیراعظم کے دفتر میں ہی ہونا چاہیے جو با اثر ہو اور اچھی ساکھ کے لوگوں پر مشتمل ہو۔ حکومت ہاؤسنگ سیکٹر کو محرک کرے اور کم از کم 40 صنعتی شعبوں تک اس کا دائرہ کار وسیع کرے جس سے روزگار کے کئی مواقعے پیدا ہوں گے اور معاشی ترقی کا پہیہ رواں رہے گا۔
حرف آخر موجودہ حکومت دیگر ممالک کے کامیاب تجربات سے سبق سیکھے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معاشی پالیسیوں اور ایک اصلاحاتی ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہوگا جب کہ ملکی ترقی کے لیے جرات مندانہ و جارحانہ اقدامات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ معاشی تباہی روکنے کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔ حکومت کو چاہیے وہ ایسے موثر اقدامات کرے جوinflation کو جڑ سے اکھاڑ دیں اورکرنسی مستحکم ہو جائے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مطابق پٹرول اور ڈیزل پر 70 روپے فی لٹر ٹیکس ہونا چاہیے تھا ، جو معاہدہ عمران خان کر گئے ہیں اسی کو ہم نے بحال کیا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنا ہماری مجبوری ہے، کوشش کی ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہورہے ہیں اور ملک میں مہنگائی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔
نجی محفل ہو یا اجتماعی مجلس ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ اشیائے خورو نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔ یہاں مہنگائی کو قابوکرنے کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے ، مہنگائی کی نیت سے غیر ضروری اور نامناسب نفع اخلاقی طور پر درست ہے نہ ہی شرعی طور پر۔ اب تو عام آدمی کے لیے موٹرسائیکل کی ٹنکی فل کروانا بھی سہل نہیں رہا ۔
اس وقت سب سے بڑا چیلنج جو موجودہ اتحادی حکومت کو درپیش ہے کہ وہ کس طرح ملک کو نازک ترین معاشی صورتحال سے نکال کر معیشت کو مستحکم کرے ۔
ملک میں ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آیا ہے ، جس کے منفی اثرات براہ راست معیشت پر منتقل ہورہے ہیں، گو موجودہ حکومت معاشی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے لیکن یہ حکومت ایک سیاسی بحران سے سنبھلتی ہے تو دوسرے بحران میں پھنس جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) پر بھی دباؤ پڑا۔ سرمایہ کاروں نے بھی اس خوف و ہراس کے دوران اپنا کام جاری رکھا کہ ممکنہ طور پر ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو بڑے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کو وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک پولیٹیکل انجینئرنگ کے غیر مستحکم اور عوام مخالف ماحول کے تحت معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔
حکومت نے فنانس بل 23-2022 میں انکم ٹیکس کی شرح میں کچھ دیگر معمولی ترامیم کے علاوہ ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزا کی درآمد پر سیلز ٹیکس کو موجودہ 17 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دیا ہے۔ پچھلی حکومت نے ادویات کے خام مال کی درآمد پر سترہ فیصد قابل ریفنڈ سیلز ٹیکس عائد کیا تھا جسے ادویات سازی کے لیے منگوائے جانے والے خام مال کے استعمال سے تیار ہونے والی ادویات کی فروخت پر ریفنڈ کلیم کرکے واپس لیا جاسکتا تھا۔
تاہم اس پر فارما سیوٹیکل سیکٹرکو شدید تحفظات تھے اور ادویات مہنگی ہوگئی تھیں کیونکہ ادویات کے خام مال پر ادا کردہ سترہ فیصد ٹیکس کی ادویات تیار ہونے پر ریفنڈز کے سسٹم میں بہت پیچیدگیاں تھیں۔ موجودہ حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے لیکن اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے تمام عمل کی موثر نگرانی کریں تاکہ عام آدمی کو ادویات سستی اور بآسانی مل سکیں ، سارا منافع مینوفیکچررکی جیب میں نہ چلا جائے ۔
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور اعداد و شمار کا ہیر پھیر نا قابلِ قبول ہے، اگر معاشی ترقی اسی رفتار سے جاری رہی تو ہم اپنے 20 لاکھ نوجوان افراد کو سالانہ ملازمت کی منڈی میں داخل ہونے کے لیے روزگار کے مناسب مواقعے پیش نہیں کرسکیں گے، جس سے ملک کے لیے بے شمار معاشرتی ، ثقافتی ، معاشی اور سلامتی کے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔
یہ غیر یقینی صورتحال کاروباری سرمایہ کاری میں کمی کا باعث ہے اورکاروباری سرمایہ کاری کی نچلی سطح کا نتیجہ ملک کی خراب معاشی کارکردگی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ خراب معاشی کارکردگی ملک میں بدامنی پیدا کرتی ہے اور بدامنی وہ عفریت ہے جو حکومتیں نگل جاتا ہے۔
ہماری داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور اگر ہم اپنی معاشی نمو میں 6 سے 8فیصد اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو اگلے 5 سال میں 13 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کا عمل سب کے لیے ہونا چاہیے جس میں بنیادی توجہ نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے نہ کہ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید ٹیکس لاگو کرنا، اگر ہم آنے والے 5 سالوں میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 1 کروڑ تک لے جاتے ہیں تو معاشی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ ہمیں ٹیکس کا ایسا نظام متعارف کروانا چاہیے جس میں تمام آمدن ٹیکس یافتہ ہوں، تمام خرچے ٹیکس یافتہ ہوں اور ہر قسم کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی دفاعی اخراجات کے بعد سب سے بڑا خرچہ ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیے اور تمام غیر ضروری اخراجات مثلاً وزارتوں اور ڈویژن کی تعداد میں کمی لانی چاہیے۔
ملک میں جب بھی ڈالرز کی کمی ہوتی ہے ہم ہمیشہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور پچھلے 5 سال کے دوران ہمارے تجارتی خسارے دگنا ہو گئے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی ملکی درآمدات میں کمی کے باوجود بجائے بڑھنے کے ہماری برآمدات میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ہماری خراب کارکردگی کی انتہا ہے۔ اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پاس برآمدات کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی درآمدات اور برآمدات پر توجہ دینی پڑے گی اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لانا ہوگی۔ ہمارے برآمدات کے لیے سب سے اہم ناقص حکمت عملی ہے جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زرعی اجناس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبہ میں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کے لیے نئے میدان تلاش کرنے پڑیں گے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔
ہماری حالیہ برآمدات میں مزید قدریں شامل کرنا پڑیں گی تاکہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں اپنی برآمدات سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ ٹیکسٹائل ہماری کل برآمدات کا قریباً 60 فی صد ہے۔ ہماری کپاس کی 10لاکھ بیلوں کی قیمت 1 ارب ڈالر ہے جب کہ چین اتنی ہی بیلوں کی قیمت 4ارب ڈالر وصول کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی مصنوعات میں اضافی قدر شامل ہوتی ہے،اگر ہم 10لاکھ بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر مقرر کریں تو ہم صرف ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 140 لاکھ بیلوں سے اضافی قدر کی مد میں 45 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت صنعتوں کو سبسڈی مہیا کرے تاکہ یہ اپنی مصنوعات میں اضافی قدر شامل کر سکیں۔
استحکام کی کمی اضافی قدر کے اطلاق میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں کاروبار نسل در نسل خاندانوں کی زیر نگرانی چلتے ہیں جن میں برآمدات کے شعبے میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں باہر سے سرمایہ نہیں آتا اور ہم عالمی مارکیٹ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
بینک دیوالیہ سے متعلق قانون جسے کارپوریٹ ریسٹرکٹنگ ایکٹ کہا جاتا ہے کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی کمپنیوں کے لیے استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملے اور عالمی مارکیٹ تک ہماری رسائی ممکن ہوسکے۔ چین کے بنائے اسپیشل اکنامک زونز کو برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو ایسی مصنوعات تیار کرنی چاہیئیں جن کی مارکیٹ میں طلب ہے۔ ہمیں ایسی مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ کرنا چاہیے جن کی پاکستان اور دنیا بھر میں طلب ہے۔
ترسیلات کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری بورڈ کو سرمایہ کاروں کے لیے ون اسٹاپ شاپ کے قیام کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک چھت کے نیچے ہی ان کے تمام مسائل کا حل ممکن ہوسکے۔ سرمایہ کاری بورڈ کا دفتر وزیراعظم کے دفتر میں ہی ہونا چاہیے جو با اثر ہو اور اچھی ساکھ کے لوگوں پر مشتمل ہو۔ حکومت ہاؤسنگ سیکٹر کو محرک کرے اور کم از کم 40 صنعتی شعبوں تک اس کا دائرہ کار وسیع کرے جس سے روزگار کے کئی مواقعے پیدا ہوں گے اور معاشی ترقی کا پہیہ رواں رہے گا۔
حرف آخر موجودہ حکومت دیگر ممالک کے کامیاب تجربات سے سبق سیکھے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معاشی پالیسیوں اور ایک اصلاحاتی ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہوگا جب کہ ملکی ترقی کے لیے جرات مندانہ و جارحانہ اقدامات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ معاشی تباہی روکنے کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔ حکومت کو چاہیے وہ ایسے موثر اقدامات کرے جوinflation کو جڑ سے اکھاڑ دیں اورکرنسی مستحکم ہو جائے۔