عوام کو بھی ریلیف ملنا چاہیے
پاکستان کو افغانستان اور دیگر تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے
ملک کی معیشت کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ حکومت کو گزشتہ برس کی نسبت پینتالیس فیصد زائد ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ ایف بی آر نے گزشتہ سال کی نسبت45 فیصد سے زائد ٹیکس اکٹھا کیا ہے اور حکومت نے اپنا ریونیو ہدف پورا کرنے کے لیے کوئی ایڈوانس ٹیکس بھی نہیں لگایا۔انھوں نے واضع کیا کہ جون میں 39 ارب روپے کے ریفنڈ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
پچھلے ماہ 763 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا، مالی سال 2021-22 کی آخری سہ ماہی کے دوران 1741 ارب کے ٹیکس جمع کیے گئے۔ انکم ٹیکس کے کلیمز سارے کلیئر کر دیے گئے ہیں۔ایف بی آر نے ٹیکس کی مد میں700 ارب سے زائد روپے جمع کیے اور ہم نے سابق دور سے زیادہ ٹیکس جمع کیے ہیں، جون میں 379 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں لیا، ایف بی آر نے تاریخی ٹیکس اکٹھے کیے، ایک ماہ میں 580 ارب روپے کا وصولیوں کا ریکارڈ تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت میں آتے ہی مشکل فیصلے لینے پڑے اور اس کے اب مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں، آیندہ تین چار ماہ کے دوران ہم ان مسائل سے نکل کر بہتری کی طرف جائیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنا ہماری مجبوری ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں مہنگائی پر قابو پانا ہے اور لوگوں کو روزگار دینا ہے۔ یہ مشکل وقت ہے، اب ملک میں استحکام آئے گا اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والے تمام پاکستانیوں کا شکر گزار ہیں، انھوں نے ایک بار پھر یہ نوید سنائی کہ چنددنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا، چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ہمار ا ٹارگٹ بہت مشکل تھا، اس سال ریکارڈ ریٹرنز فائل کرائے، 3 لاکھ 20 ہزار سیلیری ریٹرنز جمع کی گئیں، ایڈوانس ٹیکس کی مانیٹرنگ کا سسٹم بنایا ہے۔
ٹیکس کی وصولی زیادہ ہونا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کا شہری ٹیکس دیتا ہے، اگر عملے کی بدعنوانی کو شامل کرلیا جائے تو ٹیکس وصولیوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔بہرحال ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ملکی مالیاتی پوزیشن کو بہتر کرنے کا سبب بن گا۔اب حکومت کو عوام کے مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنے بے جا اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے،محض اچھی اچھی باتیں کرنے سے غیرضروری اخراجات کم نہیں ہوں۔
اس وقت گراس روٹ لیول پر منظر یہ کہ توانائی کے ذرایع کے نرخوں میں اضافے پر اضافہ کیا جارہا ہے، اس کا اثر مہنگائی بڑھنے کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ جون میں مہنگائی کی شرح 21.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ادھرپٹرولیم، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیںجس کی وجہ سے بھی اشیاء خورو نوش کی قمیتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق جون میں مہنگائی کی شرح ایک سال کے دوران 21.3 فیصد تک بڑھ گئی جو 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
پچھلی بار فروری 2009 میں مہنگائی 21 فیصد سے کچھ زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی، اس صورت حال نے آیندہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں مزید اضافے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے،قیمتوں میں اضافے کی رفتار نے وزارت خزانہ کی توقعات کو مات دے دی جس نے صرف دو دن پہلے مہنگائی کی حد 14.5 فیصد سے 15.5 فیصد مقرر کی تھی، گزشتہ ایک ماہ میں مہنگائی میں 6.34 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔مہنگائی کے طوفان نے متوسط طبقے کے لیے عید الااضحیٰ پر قربانی کو انتہائی مشکل بنا دیاہے۔
رواں برس قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے30 سے45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جب کہ قصابوں نے بھی اپنے نرخ بڑھا دیے ہیں اور چارے کی قیمتوں میں بھی 25 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس اضافے پر کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ جو بیوپاری قربانی کے جانور دیہات سے شہروں میں لاتے ہیں، ان کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔
منڈی میں جانور رکھنے کا خرچہ الگ ہے، مختلف قسم کے سرکاری اداروں کے اہلکار اپنی عید کمانے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں، وہ مختلف حیلوں بہانوں سے بیوپاریوں سے پیسے لے رہے ہیں۔ادھر جانوروں کا چار بھی بہت مہنگا ہے، بیوپاریوںکا بازار سے ناشتا، کھانا ، چائے وغیرہ کا خرچ الگ ہے۔
وزارت مالیات نے وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے بیوروکریٹس کے لیے منظور کیے گئے 150 فیصد ایگزیکٹو الائونس کا نوٹی فکیشن روک لیا ہے تاہم اب اس الائونس کو تنخواہ کا حصہ بنانے کے بجائے ضرورت کی بنیاد پر الائونس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزارت مالیات نے دیگر پانچ ایڈ ہاک الائونسز کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس کے علاوہ 15 فیصد پنشن میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 10 جون کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے ملازمین کے لیے 150 فیصد ایگزیکٹو الائونس کی منظوری دی گئی تھی تاہم کچھ افراد نے معاشی مشکلات کے اس دور میں اس طرح کے الائونس کی منظوری پر اعتراضات کیے تھے۔ یہ اچھا اقدام ہے کیونکہ اگر ملک غیرملکی اور ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے،ایسے صورت میں نوکرشاہی اور ملک کے دیگر اداروں کے عہدیداروں کی بے جااور حد سے زیادہ مراعات کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر ریاست امیر ہوتی ہے تو اپنے افسروں اور ملازمین کو زیادہ مراعات دے سکتی ہے لیکن اگر ریاست غریب ہے تو پبلک سرونٹس کو تنخواہیں اور مراعات قومی خزانے کی حالت دیکھ کر ہی دی جاسکتی ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے احتساب سے بالا تر ہیں، اوپر سے ان کی بھاری تنخواہیں اور مراعات بہت زیادہ ہیں، ریٹائرمنٹ پر بھاری پینش ملتی ہے۔یوں پبلک سرونٹس کی اصطلاح محض ایک لفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کا معاشی بحران شدید تر ہے، آئی ایم ایف نے سانس لینے کا موقع دیا ہے، اب قربانی دینے کی باری رولنگ اشرافیہ کی ہے ورنہ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔بی بی سی نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سری لنکا میں دو ہفتوں سے ایندھن کی کوئی بین الاقوامی کھیپ نہیں آئی ہے اور ابھی تک سری لنکن حکومت کوئی ایسی پیش رفت کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے،جس سے امید پیدا ہوکہ ایک دو روز میں پٹرول سری لنکا کی بندرگاہوں تک پہنچ جائے گا۔
اب صورت حال یہ بن گئی ہے کہ سری لنکا کے دوسرے حصوں سے جہاں تھوڑا بہت اضافی تیل موجود ہے، وہاں سے تیل دارالحکومت کولمبو کو سپلائی کیا جا رہا ہے۔یوں پٹرول کا بحران پورے ملک پر چھا گیاہے اور کاروباری سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ایسے پٹرول پمپس جہاں راشنگ کے تحت کچھ نہ کچھ تیل مل رہا ہے ، وہاں گاڑیوں، بسوں، ٹرکوں اور رکشوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، ایک اطلاع کے مطابق پٹرول پمپ پر لگی قطار میں لوگ اپنی گاڑیوں میں ہی سو رہے ہیں۔
کولمبو کے بعض پٹرول پمپس کے باہر لوگ دو دنوں سے قطار میں کھڑے ہیں کہ شاید پٹرول کا ٹینکر آ جائے۔چند پٹرول پمپ صرف ضروری سروسز جیسا کہ ہیلتھ کیئر، خوراک سپلائی کرنے والے ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ہی پٹرول دے رہے ہیں جب کہ چند پٹرول پمپس حکومت کی راشن اسکیم کے تحت عام عوام کو بھی کچھ پٹرول ڈال کر دے رہے ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت نے افغانستان سے تارکول،کوئلے،شکرقندی،مصالحہ جات سمیت دیگر9اشیاء کی درآمد پرعائدکسٹمزڈیوٹی سے چھوٹ دیدی ہے،کسٹمزڈیوٹی سے چھوٹ سے کااطلاق یکم جولائی 2022سے ہوگا،اس حوالے سے فیڈرل بورڈآف ریونیونے باضابطہ طورپرنوٹیفکیشن جاری کردیاہے جس میں بتایاگیا ہے کہ افغانستان سے ان اشیاء کی درآمد پرکسٹمزڈیوٹی کی مکمل چھوٹ ہوگی، نوٹیفکیشن کے مطابق جن اشیاء کی افغانستان سے درآمدپرکسٹمزڈیوٹی کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے ان میں کوئلہ،تارکول،پودوں اور پودوں کے اجزاء، پودوں کے بیج،پھل،دار چینی کے بیج،پسی ہوئی اور ثابت دارچینی،تمام اقسام کے سلفراورشکرقندی شامل ہیں۔
پاکستان کو افغانستان اور دیگر تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سارک ممالک اگر موجودہ سخت معاشی بحران میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعاون کو آگے بڑھائیں تو پورا جنوبی ایشیا معاشی بحران سے بآسانی نکل سکتا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ ایف بی آر نے گزشتہ سال کی نسبت45 فیصد سے زائد ٹیکس اکٹھا کیا ہے اور حکومت نے اپنا ریونیو ہدف پورا کرنے کے لیے کوئی ایڈوانس ٹیکس بھی نہیں لگایا۔انھوں نے واضع کیا کہ جون میں 39 ارب روپے کے ریفنڈ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
پچھلے ماہ 763 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا، مالی سال 2021-22 کی آخری سہ ماہی کے دوران 1741 ارب کے ٹیکس جمع کیے گئے۔ انکم ٹیکس کے کلیمز سارے کلیئر کر دیے گئے ہیں۔ایف بی آر نے ٹیکس کی مد میں700 ارب سے زائد روپے جمع کیے اور ہم نے سابق دور سے زیادہ ٹیکس جمع کیے ہیں، جون میں 379 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں لیا، ایف بی آر نے تاریخی ٹیکس اکٹھے کیے، ایک ماہ میں 580 ارب روپے کا وصولیوں کا ریکارڈ تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت میں آتے ہی مشکل فیصلے لینے پڑے اور اس کے اب مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں، آیندہ تین چار ماہ کے دوران ہم ان مسائل سے نکل کر بہتری کی طرف جائیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنا ہماری مجبوری ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں مہنگائی پر قابو پانا ہے اور لوگوں کو روزگار دینا ہے۔ یہ مشکل وقت ہے، اب ملک میں استحکام آئے گا اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والے تمام پاکستانیوں کا شکر گزار ہیں، انھوں نے ایک بار پھر یہ نوید سنائی کہ چنددنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا، چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ہمار ا ٹارگٹ بہت مشکل تھا، اس سال ریکارڈ ریٹرنز فائل کرائے، 3 لاکھ 20 ہزار سیلیری ریٹرنز جمع کی گئیں، ایڈوانس ٹیکس کی مانیٹرنگ کا سسٹم بنایا ہے۔
ٹیکس کی وصولی زیادہ ہونا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کا شہری ٹیکس دیتا ہے، اگر عملے کی بدعنوانی کو شامل کرلیا جائے تو ٹیکس وصولیوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔بہرحال ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ملکی مالیاتی پوزیشن کو بہتر کرنے کا سبب بن گا۔اب حکومت کو عوام کے مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنے بے جا اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے،محض اچھی اچھی باتیں کرنے سے غیرضروری اخراجات کم نہیں ہوں۔
اس وقت گراس روٹ لیول پر منظر یہ کہ توانائی کے ذرایع کے نرخوں میں اضافے پر اضافہ کیا جارہا ہے، اس کا اثر مہنگائی بڑھنے کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ جون میں مہنگائی کی شرح 21.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ادھرپٹرولیم، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیںجس کی وجہ سے بھی اشیاء خورو نوش کی قمیتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق جون میں مہنگائی کی شرح ایک سال کے دوران 21.3 فیصد تک بڑھ گئی جو 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
پچھلی بار فروری 2009 میں مہنگائی 21 فیصد سے کچھ زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی، اس صورت حال نے آیندہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں مزید اضافے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے،قیمتوں میں اضافے کی رفتار نے وزارت خزانہ کی توقعات کو مات دے دی جس نے صرف دو دن پہلے مہنگائی کی حد 14.5 فیصد سے 15.5 فیصد مقرر کی تھی، گزشتہ ایک ماہ میں مہنگائی میں 6.34 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔مہنگائی کے طوفان نے متوسط طبقے کے لیے عید الااضحیٰ پر قربانی کو انتہائی مشکل بنا دیاہے۔
رواں برس قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے30 سے45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جب کہ قصابوں نے بھی اپنے نرخ بڑھا دیے ہیں اور چارے کی قیمتوں میں بھی 25 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس اضافے پر کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ جو بیوپاری قربانی کے جانور دیہات سے شہروں میں لاتے ہیں، ان کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔
منڈی میں جانور رکھنے کا خرچہ الگ ہے، مختلف قسم کے سرکاری اداروں کے اہلکار اپنی عید کمانے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں، وہ مختلف حیلوں بہانوں سے بیوپاریوں سے پیسے لے رہے ہیں۔ادھر جانوروں کا چار بھی بہت مہنگا ہے، بیوپاریوںکا بازار سے ناشتا، کھانا ، چائے وغیرہ کا خرچ الگ ہے۔
وزارت مالیات نے وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے بیوروکریٹس کے لیے منظور کیے گئے 150 فیصد ایگزیکٹو الائونس کا نوٹی فکیشن روک لیا ہے تاہم اب اس الائونس کو تنخواہ کا حصہ بنانے کے بجائے ضرورت کی بنیاد پر الائونس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزارت مالیات نے دیگر پانچ ایڈ ہاک الائونسز کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس کے علاوہ 15 فیصد پنشن میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 10 جون کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے ملازمین کے لیے 150 فیصد ایگزیکٹو الائونس کی منظوری دی گئی تھی تاہم کچھ افراد نے معاشی مشکلات کے اس دور میں اس طرح کے الائونس کی منظوری پر اعتراضات کیے تھے۔ یہ اچھا اقدام ہے کیونکہ اگر ملک غیرملکی اور ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے،ایسے صورت میں نوکرشاہی اور ملک کے دیگر اداروں کے عہدیداروں کی بے جااور حد سے زیادہ مراعات کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر ریاست امیر ہوتی ہے تو اپنے افسروں اور ملازمین کو زیادہ مراعات دے سکتی ہے لیکن اگر ریاست غریب ہے تو پبلک سرونٹس کو تنخواہیں اور مراعات قومی خزانے کی حالت دیکھ کر ہی دی جاسکتی ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے احتساب سے بالا تر ہیں، اوپر سے ان کی بھاری تنخواہیں اور مراعات بہت زیادہ ہیں، ریٹائرمنٹ پر بھاری پینش ملتی ہے۔یوں پبلک سرونٹس کی اصطلاح محض ایک لفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کا معاشی بحران شدید تر ہے، آئی ایم ایف نے سانس لینے کا موقع دیا ہے، اب قربانی دینے کی باری رولنگ اشرافیہ کی ہے ورنہ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔بی بی سی نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سری لنکا میں دو ہفتوں سے ایندھن کی کوئی بین الاقوامی کھیپ نہیں آئی ہے اور ابھی تک سری لنکن حکومت کوئی ایسی پیش رفت کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے،جس سے امید پیدا ہوکہ ایک دو روز میں پٹرول سری لنکا کی بندرگاہوں تک پہنچ جائے گا۔
اب صورت حال یہ بن گئی ہے کہ سری لنکا کے دوسرے حصوں سے جہاں تھوڑا بہت اضافی تیل موجود ہے، وہاں سے تیل دارالحکومت کولمبو کو سپلائی کیا جا رہا ہے۔یوں پٹرول کا بحران پورے ملک پر چھا گیاہے اور کاروباری سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ایسے پٹرول پمپس جہاں راشنگ کے تحت کچھ نہ کچھ تیل مل رہا ہے ، وہاں گاڑیوں، بسوں، ٹرکوں اور رکشوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، ایک اطلاع کے مطابق پٹرول پمپ پر لگی قطار میں لوگ اپنی گاڑیوں میں ہی سو رہے ہیں۔
کولمبو کے بعض پٹرول پمپس کے باہر لوگ دو دنوں سے قطار میں کھڑے ہیں کہ شاید پٹرول کا ٹینکر آ جائے۔چند پٹرول پمپ صرف ضروری سروسز جیسا کہ ہیلتھ کیئر، خوراک سپلائی کرنے والے ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ہی پٹرول دے رہے ہیں جب کہ چند پٹرول پمپس حکومت کی راشن اسکیم کے تحت عام عوام کو بھی کچھ پٹرول ڈال کر دے رہے ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت نے افغانستان سے تارکول،کوئلے،شکرقندی،مصالحہ جات سمیت دیگر9اشیاء کی درآمد پرعائدکسٹمزڈیوٹی سے چھوٹ دیدی ہے،کسٹمزڈیوٹی سے چھوٹ سے کااطلاق یکم جولائی 2022سے ہوگا،اس حوالے سے فیڈرل بورڈآف ریونیونے باضابطہ طورپرنوٹیفکیشن جاری کردیاہے جس میں بتایاگیا ہے کہ افغانستان سے ان اشیاء کی درآمد پرکسٹمزڈیوٹی کی مکمل چھوٹ ہوگی، نوٹیفکیشن کے مطابق جن اشیاء کی افغانستان سے درآمدپرکسٹمزڈیوٹی کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے ان میں کوئلہ،تارکول،پودوں اور پودوں کے اجزاء، پودوں کے بیج،پھل،دار چینی کے بیج،پسی ہوئی اور ثابت دارچینی،تمام اقسام کے سلفراورشکرقندی شامل ہیں۔
پاکستان کو افغانستان اور دیگر تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سارک ممالک اگر موجودہ سخت معاشی بحران میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعاون کو آگے بڑھائیں تو پورا جنوبی ایشیا معاشی بحران سے بآسانی نکل سکتا ہے۔