آئی ایم ایفعوام دوست…ایک مکالمہ
سیاست اور تاریخ میں نکتہ نظر رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا حق نکتہ نظر دینے والے کو ملنا،اس کا بنیادی حق ہے
آج میں سیاست پر نظر رکھنے والے اپنے تمام نظریاتی دوستوں کے روبرو ایک ایسا مقدمہ اور مکالمہ رکھنا چاہتا ہوں،جس کی گتھی سلجھانے میں طویل بحث و مباحثے ایک عرصے سے ہو رہے ہیں اور شاید ہوتے رہنے چاہئیں کہ ہم سب ان نظریاتی بحث و مباحثے ہی سے انسانی حقوق،سیاست کے نشیب و فراز،انسانی محرومی کے اسباب اور سیاسی و معاشی طور سے عوام کو محکوم بنانے والے سامراج نواز سرمایہ دارانہ نظام کی عوام اور سماج دشمن چالاکیوں سے واقف ہوئے ہیں، مگر کچھ دوستوں کی چونچیں اب تک سرمایہ دارانہ جمہوریت کی مفاداتی چونچوں سے چپکی ہوئی ہیں، لہٰذا بظاہر یہ نظریاتی دوست ہمارے بن کر ہمیں بہت خوبصورت پیرائے میں عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خواص اور فوائد بتانے کے لیے اب تک ہمارے درمیان گھس بیٹھئے بن کر ہمارے نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ہرکارہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
سیاست اور تاریخ میں نکتہ نظر رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا حق نکتہ نظر دینے والے کو ملنا،اس کا بنیادی حق ہے،لہٰذا کسی بھی نکتہ نظر پر فوری یا حتمی رائے بنانا بھی کسی طور درست رویہ نہیں کہا جا سکتا،ہر فرد کو اپنی بات کہنے اور رکھنے کی مکمل آزادی کے اصول کے تحت مخالف یا ناپسندیدہ نکتہ نظر کو نہ سننا یا سمجھنا بھی کسی طور درست عمل نہیں۔
ہم ایسے نیم جاگیردار اور سرمایہ دار نظام میں رہنے والے اکثر مخالف کے نکتہ نظر کو یا تو یکسر رد کر دیتے ہیں یا پھر ناپسندیدہ نکتہ نظر پیش کرنے والوں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں،جو کسی طور بھی صحت مند سماجی رویوں کی عکاسی نہیں،سو کوشش کی جانی چاہیے کہ دوسرے کے نکتہ نظر کو مکمل سیاق و سباق سے سنیں اور اس پر اپنی رائے یا تنقید رکھیں،گفتگو یا مکالمے کا زیادہ سے زیادہ ہونا ہے صحت مند سیاسی دانش اور برداشت کرنے کی تفہیم پیدا کرتے ہیں،اس تحریر میں ایک وقت کے کلی ساتھیوں کے بدلتے خیالات سننا بھی ہماری سیاسی تربیت کا حصہ تھی،سو ان دوستوں کی رائے سب کے سامنے لانا بھی ضروری جانا۔
گفتگو یا مکالمے کی مذکورہ نشست کی علت و غایت یہ بتائی گئی تھی کہ ملک کی موجودہ بدلتی صورتحال میں روشن خیال اور ترقی پسند دوست ایک ایسا مشترکہ بیانیہ بنائیں جو عوام کی حقیقی نمایندگی کا ضامن بنے تاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بیروزگاری کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے اور ملک کی معاشی بدحالی میں بیرونی قوتوں کے اثرات سے نکالنے کا بھی کوئی حل یہ مکالماتی فورم مشترکہ طور پر نکالے۔
مکالماتی نشست کی ابتدا ہی میں مشترکہ مکالمے کے بجائے تین افراد کو اپنا نکتہ نظر رکھنے کی دعوت دی اور شرکا سے کہا گیا کہ مذکورہ تین دوستوں کی رائے کے بعد تمام شرکا پیش کیے جانے والے نکتہ نظر پر اپنی رائے دیں اور اپنے سوالات رکھیں تاکہ ایک صحت مند بحث کے بعد موجودہ سیاسی حالات میں ایک ''عوامی بیانیہ'' بنا کر سیاسی قوتوں اور عوام کے درمیان رکھا جائے۔اس مکالمہ کے پہلے شریک دوست نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ'' ان دوستوں سے کسی بھی قسم کا مکالمہ نہیں ہو سکتا جو لینن اور مارکسزم کو عقیدہ یا نظریہ سمجھتے ہیں''اور دوم یہ کہ ''جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد فیکٹری مزدور محنت کش کی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا جس کی بنا پر اسے انجمن سازی یا ٹریڈ یونین کی ضرورت پڑے۔''مکالمے کی اس نشست کے ابتدائی بیانیے کے ساتھ ہی موجود دوستوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑی جس کو میزبان اور منتظمین نے بھی محسوس کیا۔
اس مکالماتی نشست میں دوسرے سیاسی دانشور دوست کا استدلال تھا کہ ''دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت نے انسانی سماج کے بہت سے مسائل حل کرکے دنیا میں عوام کا استحصال ختم کیا ہے اور عوام کو ان کے ووٹ دینے کا حق دلوانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے،ان سیاسی دانشور دوست کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ''اب دنیا میں انسانی حقوق طے ہو چکے ہیں،دنیا میں مزدوروں کے استحصال میں کمی آئی ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کے مزدوروں کو خوشحالی کی طرف گامزن کیا ہے،ان کا یہ بہت مضبوط استدلال تھا کہ اب آئی ایم ایف سرد جنگ کے بعد عوام کو سہولیات پہنچانے والا ادارہ بن چکا ہے،لہٰذا اب ہمارے ایسے ممالک کو آئی ایم ایف کو نہ برا کہنا چاہیے اور نہ سمجھنا چاہیے بلکہ آئی ایم ایف کو عوام دوست کی فہرست میں رکھ کر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحت اپنے آئینی اور قانونی حقوق لیں،ان دانشور دوست کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب مزدور کا استحصال سرد جنگ کے دور کی طرح نہیں ہوتا لہٰذا مزدور دوست ٹریڈ یونین بھی حق یونین سازی کو جدید تقاضوں کے تحت استعمال کریں یا کوئی لائحہ عمل بنائیں''گویا مزدور حقوق میں ہڑتال اور احتجاج پر نظر ثانی بھی کرنی چاہیے۔''
ان مذکورہ دوستوں کے نکتہ نظر کے بعد مکالماتی اجلاس میں میرا سوال تھا کہ اگر جدید ٹیکنالوجی نے مزدور کے کام کی جگہ لے لی ہے اور مزدور کی کوئی حیثیت متاثر نہیں ہوئی تو جہاں ہزاروں کی تعداد کے مقابل چند سو مزدور رکھنے کے علاوہ ہزاروں مزدوروں کی بیروزگاری کی ذمے داری کس پر رکھی جائے،کیا سرمایہ دارانہ جدید ٹیکنالوجی پر ڈالی جائے یا اگر آئی ایم ایف عوام دوست ہو چکا ہے تو پھر وہ عوام کے زیر استعمال بجلی، گیس کی مد میں اضافی بوجھ عوام پر ڈالنے کا مطالبہ کیوں کرتا ہے،اس کے برعکس آئی ایم ایف ہمارے ملک کی عوام کا استحصال کرنے والی ''اسٹبلشمنٹ''کے غیر پیداواری اخراجات کی کٹوتی کا واضح مطالبہ کیوں اور کس مفادات کے زیر اثر نہیں کرتا۔
اس موقع پر نوجوان کامریڈ خرم علی کا کہنا تھا کہ اگر انسانی حقوق عالمی طور سے طے کر لیے گئے ہیں تو پاکستان اور افریقی ممالک میں مسلسل انسانی حقوق کی توہین پر سرمایہ دار دنیا کیوں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،جب کہ سرمایہ دار سامراج غیر ترقی یافتہ ممالک کے وسائل کیوں طاقت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی آڑ میں غصب کر رہے ہیں۔
مذکورہ سوالات کے جواب نہ دینے کے بہانے نشست برخاست کر دی گئی،اس پوری مکالماتی نشست کی کاروائی دوستوں تک پہنچانا جہاں سیاسی ضرورت تھی وہیں یہ میری صحافتی ذمے داری بھی تھی کہ کل تک جو سیاسی دوست عوام کی محرومیاں اور عوامی استحصال کے خاتمے اور عالمی سامراج اور سرمایہ دارانہ جبر سے نجات کا واحد ذریعہ ''سوشلسٹ سماج''قائم کرنا سمجھا کرتے تھے،وہی افراد آج سرمایہ دارانہ جمہوریت کو عوام کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بتا کر عوام کی درست سیاسی سمت بننے میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں،جو نہ صرف یہ قابل افسوس رویہ بلکہ سرمایہ دارانہ مفادات کے گروہی فائدے کے علاوہ کچھ نہیں۔
سیاست اور تاریخ میں نکتہ نظر رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا حق نکتہ نظر دینے والے کو ملنا،اس کا بنیادی حق ہے،لہٰذا کسی بھی نکتہ نظر پر فوری یا حتمی رائے بنانا بھی کسی طور درست رویہ نہیں کہا جا سکتا،ہر فرد کو اپنی بات کہنے اور رکھنے کی مکمل آزادی کے اصول کے تحت مخالف یا ناپسندیدہ نکتہ نظر کو نہ سننا یا سمجھنا بھی کسی طور درست عمل نہیں۔
ہم ایسے نیم جاگیردار اور سرمایہ دار نظام میں رہنے والے اکثر مخالف کے نکتہ نظر کو یا تو یکسر رد کر دیتے ہیں یا پھر ناپسندیدہ نکتہ نظر پیش کرنے والوں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں،جو کسی طور بھی صحت مند سماجی رویوں کی عکاسی نہیں،سو کوشش کی جانی چاہیے کہ دوسرے کے نکتہ نظر کو مکمل سیاق و سباق سے سنیں اور اس پر اپنی رائے یا تنقید رکھیں،گفتگو یا مکالمے کا زیادہ سے زیادہ ہونا ہے صحت مند سیاسی دانش اور برداشت کرنے کی تفہیم پیدا کرتے ہیں،اس تحریر میں ایک وقت کے کلی ساتھیوں کے بدلتے خیالات سننا بھی ہماری سیاسی تربیت کا حصہ تھی،سو ان دوستوں کی رائے سب کے سامنے لانا بھی ضروری جانا۔
گفتگو یا مکالمے کی مذکورہ نشست کی علت و غایت یہ بتائی گئی تھی کہ ملک کی موجودہ بدلتی صورتحال میں روشن خیال اور ترقی پسند دوست ایک ایسا مشترکہ بیانیہ بنائیں جو عوام کی حقیقی نمایندگی کا ضامن بنے تاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بیروزگاری کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے اور ملک کی معاشی بدحالی میں بیرونی قوتوں کے اثرات سے نکالنے کا بھی کوئی حل یہ مکالماتی فورم مشترکہ طور پر نکالے۔
مکالماتی نشست کی ابتدا ہی میں مشترکہ مکالمے کے بجائے تین افراد کو اپنا نکتہ نظر رکھنے کی دعوت دی اور شرکا سے کہا گیا کہ مذکورہ تین دوستوں کی رائے کے بعد تمام شرکا پیش کیے جانے والے نکتہ نظر پر اپنی رائے دیں اور اپنے سوالات رکھیں تاکہ ایک صحت مند بحث کے بعد موجودہ سیاسی حالات میں ایک ''عوامی بیانیہ'' بنا کر سیاسی قوتوں اور عوام کے درمیان رکھا جائے۔اس مکالمہ کے پہلے شریک دوست نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ'' ان دوستوں سے کسی بھی قسم کا مکالمہ نہیں ہو سکتا جو لینن اور مارکسزم کو عقیدہ یا نظریہ سمجھتے ہیں''اور دوم یہ کہ ''جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد فیکٹری مزدور محنت کش کی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا جس کی بنا پر اسے انجمن سازی یا ٹریڈ یونین کی ضرورت پڑے۔''مکالمے کی اس نشست کے ابتدائی بیانیے کے ساتھ ہی موجود دوستوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑی جس کو میزبان اور منتظمین نے بھی محسوس کیا۔
اس مکالماتی نشست میں دوسرے سیاسی دانشور دوست کا استدلال تھا کہ ''دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت نے انسانی سماج کے بہت سے مسائل حل کرکے دنیا میں عوام کا استحصال ختم کیا ہے اور عوام کو ان کے ووٹ دینے کا حق دلوانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے،ان سیاسی دانشور دوست کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ''اب دنیا میں انسانی حقوق طے ہو چکے ہیں،دنیا میں مزدوروں کے استحصال میں کمی آئی ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کے مزدوروں کو خوشحالی کی طرف گامزن کیا ہے،ان کا یہ بہت مضبوط استدلال تھا کہ اب آئی ایم ایف سرد جنگ کے بعد عوام کو سہولیات پہنچانے والا ادارہ بن چکا ہے،لہٰذا اب ہمارے ایسے ممالک کو آئی ایم ایف کو نہ برا کہنا چاہیے اور نہ سمجھنا چاہیے بلکہ آئی ایم ایف کو عوام دوست کی فہرست میں رکھ کر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحت اپنے آئینی اور قانونی حقوق لیں،ان دانشور دوست کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب مزدور کا استحصال سرد جنگ کے دور کی طرح نہیں ہوتا لہٰذا مزدور دوست ٹریڈ یونین بھی حق یونین سازی کو جدید تقاضوں کے تحت استعمال کریں یا کوئی لائحہ عمل بنائیں''گویا مزدور حقوق میں ہڑتال اور احتجاج پر نظر ثانی بھی کرنی چاہیے۔''
ان مذکورہ دوستوں کے نکتہ نظر کے بعد مکالماتی اجلاس میں میرا سوال تھا کہ اگر جدید ٹیکنالوجی نے مزدور کے کام کی جگہ لے لی ہے اور مزدور کی کوئی حیثیت متاثر نہیں ہوئی تو جہاں ہزاروں کی تعداد کے مقابل چند سو مزدور رکھنے کے علاوہ ہزاروں مزدوروں کی بیروزگاری کی ذمے داری کس پر رکھی جائے،کیا سرمایہ دارانہ جدید ٹیکنالوجی پر ڈالی جائے یا اگر آئی ایم ایف عوام دوست ہو چکا ہے تو پھر وہ عوام کے زیر استعمال بجلی، گیس کی مد میں اضافی بوجھ عوام پر ڈالنے کا مطالبہ کیوں کرتا ہے،اس کے برعکس آئی ایم ایف ہمارے ملک کی عوام کا استحصال کرنے والی ''اسٹبلشمنٹ''کے غیر پیداواری اخراجات کی کٹوتی کا واضح مطالبہ کیوں اور کس مفادات کے زیر اثر نہیں کرتا۔
اس موقع پر نوجوان کامریڈ خرم علی کا کہنا تھا کہ اگر انسانی حقوق عالمی طور سے طے کر لیے گئے ہیں تو پاکستان اور افریقی ممالک میں مسلسل انسانی حقوق کی توہین پر سرمایہ دار دنیا کیوں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،جب کہ سرمایہ دار سامراج غیر ترقی یافتہ ممالک کے وسائل کیوں طاقت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی آڑ میں غصب کر رہے ہیں۔
مذکورہ سوالات کے جواب نہ دینے کے بہانے نشست برخاست کر دی گئی،اس پوری مکالماتی نشست کی کاروائی دوستوں تک پہنچانا جہاں سیاسی ضرورت تھی وہیں یہ میری صحافتی ذمے داری بھی تھی کہ کل تک جو سیاسی دوست عوام کی محرومیاں اور عوامی استحصال کے خاتمے اور عالمی سامراج اور سرمایہ دارانہ جبر سے نجات کا واحد ذریعہ ''سوشلسٹ سماج''قائم کرنا سمجھا کرتے تھے،وہی افراد آج سرمایہ دارانہ جمہوریت کو عوام کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بتا کر عوام کی درست سیاسی سمت بننے میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں،جو نہ صرف یہ قابل افسوس رویہ بلکہ سرمایہ دارانہ مفادات کے گروہی فائدے کے علاوہ کچھ نہیں۔