افغان حکمران ہوشیار
بھارت تو کسی بھی قیمت پر افغان طالبان کو افغانستان میں اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا
بھارت میں چاہے کتنے ہی برے حالات ہوں اور چین سے تعلقات کتنے ہی تلخ ہوں وہ کشمیر پر مکمل قبضہ کرنے کی ہوس اور پاکستان کو مسائل اور دہشت گردی کے گرداب میں پھنسانے کی اپنی حرکتوں سے کبھی باز نہیں آئے گا۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اس نے خاموشی سے کابل میں پھر اپنا سفارت خانہ کھول لیا ہے۔ حالانکہ ابھی ایک سال قبل ہی وہ افغانستان سے نہایت بے عزتی کے ساتھ باہرکردیا گیا تھا۔ اس کا سفیر اور دیگر اہلکار طالبان کے خوف سے راتوں رات کابل میں اپنا سفارت خانہ اور قندھار وغیرہ میں اپنے ذیلی دفاتر بند کرکے بھاگ گئے تھے۔ وہ اپنے سفارت خانے اور دوسرے شہروں میں موجود دفاتر سے پاکستان میں برسوں سے دہشت گردی کو ہوا دے رہے تھے ، وہ پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ دہشت گردوں کو وہاں نہ صرف پناہ دیتے رہے بلکہ انھیں لالچ دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے۔
پاکستان میں ماضی میں جو بھی دہشت گردی ہوئی وہ ان کی ہدایت کے مطابق ہوتی رہی۔ ان کو اس کے صلے میں انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ جب بھارتی سفارتی اہلکار قندھارکا دفتر چھوڑکر بھاگے تو اپنے پیچھے کروڑوں روپوں کی پاکستانی کرنسی کے بنڈل چھوڑ گئے تھے ، جنھیں افغان طالبان نے ضبط کرلیا تھا۔ ظاہر یہ رقم وہاں دہشت گردوں میں تقسیم کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔
اب پھر سے کابل میں بھارتی سفارت خانے کے کھلنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ لگتا ہے یہ سفارت خانہ پاکستان کے لیے پھر درد سر بننے والا ہے۔ اسے ضرور پاکستان دشمن لوگوں کی جانب سے بھارت کی ہمت افزائی اور اس کی سلامتی کی یقین دہانی کرانے کے بعد ہی کھولا گیا ہے۔ گوکہ اس وقت حکومت پاکستان کے تحریک طالبان پاکستان سے افغان طالبان کی وساطت سے مذاکرات ہو رہے ہیں مگر انھوں نے امن قائم کرنے کے لیے ایسی سخت شرائط رکھی ہیں جنھیں پاکستانی حکومت کے ماننے کا مطلب ملک کے ایک حصے کو ان کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
ان کی شرط ہے کہ پورے فاٹا کو مکمل طور پر ان کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ اس علاقے کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ وہ وہاں شرعی نظام قائم کرنے کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے ایک خطے کو کیونکر پورے ملک سے کاٹ کر ان کے حوالے کرسکتا ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت یہ کام نہیں کرسکتی۔ مسئلہ اصل یہ ہے کہ افغان طالبان افغانستان پر قابض ہونے کے بعد پاکستان کے احسانات کو فراموش کرچکے ہیں۔
وہ ایک طرف دنیا کی بڑی طاقتوں سے تعلقات بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب بعض پاکستان کے دشمنوں کو بھی اپنا دوست بنا رہے ہیں۔ روس اور چین کے علاوہ یورپی ممالک سے بھی ان کے تعلقات پر پاکستان کو کوئی تشویش نہیں ہے لیکن بھارت جو خود ان کا بھی دشمن ہے وہ اس سے بھی اب پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ لگتا ہے بھارتی حکمران انھیں شیشے میں اتار چکے ہیں اور ان کی مالی مدد کرنے کے بہانے افغانستان میں دوبارہ پہلے جیسی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کا رویہ اس وقت بھارت کے لیے دوستانہ ہے۔ حالانکہ یہی بھارت تھا جو اشرف غنی حکومت کی طالبان کے خلاف بھرپور مدد کر رہا تھا۔
بھارت تو کسی بھی قیمت پر افغان طالبان کو افغانستان میں اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ افغانستان میں محض پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے داخل ہوا تھا اور اس نے تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپوں کی مدد سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے تھے۔ بھارت کے افغانستان میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے لگتا ہے ٹی ٹی پی کے کسی گروپ نے کابل حکومت کو ضرور راضی کیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنا ہی حصہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق انھوں نے امریکیوں کے خلاف ان کی مدد کی ہے چنانچہ وہ ٹی ٹی پی کے احسانات کو چکانے کے لیے اب پاکستان پر زور ڈال کر ان کے مطالبات کو ماننے کے لیے رضامند کرانا چاہتے ہیں۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کی خاطر امریکی پابندیاں برداشت کیں اور دہشت گردی کا عذاب بھی جھیلا اب وہی افغان طالبان پاکستان کے بجائے ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے ہیں اور بھارت جیسے پاکستان دشمن کو اپنے ہاں پھر سے داخل کرلیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بھارت افغانستان میں داخل ہوکر پھر سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہوجائے گا۔ حالانکہ طالبان خود ابھی تک افغانستان میں ٹھیک سے قدم نہیں جما پائے ہیں۔ ان کی بعض پالیسیوں سے خود افغان عوام بے زار ہیں کئی علاقوں میں اب بھی ان کے خلاف بغاوت جاری ہے اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغان طالبان بھارت کو ضرور اپنا دوست سمجھنے لگے ہیں مگر مکار بھارتی حکمران اب بھی طالبان مخالف حکومت کو وہاں قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کا تعلق ہے وہ بھارت کے افغانستان سے نکلنے سے اس کی امداد سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب بھارت کے افغانستان میں پھر سے جگہ بنانے سے ہی ٹی ٹی پی کے رہنما پاکستان سے مفاہمت کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
کاش کہ افغان طالبان بھارتی حکمرانوں کی مکاری کو سمجھ سکیں اور ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بھی خبردار رہیں۔ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہی ان کے آگے کے مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔ چینی حکومت طالبان حکومت کی بھرپور مدد کر رہی ہے ، وہ وہاں ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے ساتھ ہی افغانستان کی سرزمین سے مختلف معدنیات تلاش کر رہی ہے۔
افغانستان میں کوئلے اور لوہے کے بڑے ذخائر موجود ہیں یہ ذخائر پاکستان اور چین کی ضروریات پورا کرسکتے ہیں۔ چنانچہ طالبان کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوستانہ رکھنے میں ہی فائدہ ہے۔ دراصل چین بھی پاکستان کی وجہ سے افغان معاملات میں گہری دلچسپی لے رہا ہے لیکن بھارت سے طالبان کو کسی وفا یا بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے وہ ان کا دشمن ہے اور ہمیشہ دشمن رہے گا۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اس نے خاموشی سے کابل میں پھر اپنا سفارت خانہ کھول لیا ہے۔ حالانکہ ابھی ایک سال قبل ہی وہ افغانستان سے نہایت بے عزتی کے ساتھ باہرکردیا گیا تھا۔ اس کا سفیر اور دیگر اہلکار طالبان کے خوف سے راتوں رات کابل میں اپنا سفارت خانہ اور قندھار وغیرہ میں اپنے ذیلی دفاتر بند کرکے بھاگ گئے تھے۔ وہ اپنے سفارت خانے اور دوسرے شہروں میں موجود دفاتر سے پاکستان میں برسوں سے دہشت گردی کو ہوا دے رہے تھے ، وہ پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ دہشت گردوں کو وہاں نہ صرف پناہ دیتے رہے بلکہ انھیں لالچ دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے۔
پاکستان میں ماضی میں جو بھی دہشت گردی ہوئی وہ ان کی ہدایت کے مطابق ہوتی رہی۔ ان کو اس کے صلے میں انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ جب بھارتی سفارتی اہلکار قندھارکا دفتر چھوڑکر بھاگے تو اپنے پیچھے کروڑوں روپوں کی پاکستانی کرنسی کے بنڈل چھوڑ گئے تھے ، جنھیں افغان طالبان نے ضبط کرلیا تھا۔ ظاہر یہ رقم وہاں دہشت گردوں میں تقسیم کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔
اب پھر سے کابل میں بھارتی سفارت خانے کے کھلنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ لگتا ہے یہ سفارت خانہ پاکستان کے لیے پھر درد سر بننے والا ہے۔ اسے ضرور پاکستان دشمن لوگوں کی جانب سے بھارت کی ہمت افزائی اور اس کی سلامتی کی یقین دہانی کرانے کے بعد ہی کھولا گیا ہے۔ گوکہ اس وقت حکومت پاکستان کے تحریک طالبان پاکستان سے افغان طالبان کی وساطت سے مذاکرات ہو رہے ہیں مگر انھوں نے امن قائم کرنے کے لیے ایسی سخت شرائط رکھی ہیں جنھیں پاکستانی حکومت کے ماننے کا مطلب ملک کے ایک حصے کو ان کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
ان کی شرط ہے کہ پورے فاٹا کو مکمل طور پر ان کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ اس علاقے کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ وہ وہاں شرعی نظام قائم کرنے کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے ایک خطے کو کیونکر پورے ملک سے کاٹ کر ان کے حوالے کرسکتا ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت یہ کام نہیں کرسکتی۔ مسئلہ اصل یہ ہے کہ افغان طالبان افغانستان پر قابض ہونے کے بعد پاکستان کے احسانات کو فراموش کرچکے ہیں۔
وہ ایک طرف دنیا کی بڑی طاقتوں سے تعلقات بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب بعض پاکستان کے دشمنوں کو بھی اپنا دوست بنا رہے ہیں۔ روس اور چین کے علاوہ یورپی ممالک سے بھی ان کے تعلقات پر پاکستان کو کوئی تشویش نہیں ہے لیکن بھارت جو خود ان کا بھی دشمن ہے وہ اس سے بھی اب پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ لگتا ہے بھارتی حکمران انھیں شیشے میں اتار چکے ہیں اور ان کی مالی مدد کرنے کے بہانے افغانستان میں دوبارہ پہلے جیسی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کا رویہ اس وقت بھارت کے لیے دوستانہ ہے۔ حالانکہ یہی بھارت تھا جو اشرف غنی حکومت کی طالبان کے خلاف بھرپور مدد کر رہا تھا۔
بھارت تو کسی بھی قیمت پر افغان طالبان کو افغانستان میں اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ افغانستان میں محض پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے داخل ہوا تھا اور اس نے تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپوں کی مدد سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے تھے۔ بھارت کے افغانستان میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے لگتا ہے ٹی ٹی پی کے کسی گروپ نے کابل حکومت کو ضرور راضی کیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنا ہی حصہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق انھوں نے امریکیوں کے خلاف ان کی مدد کی ہے چنانچہ وہ ٹی ٹی پی کے احسانات کو چکانے کے لیے اب پاکستان پر زور ڈال کر ان کے مطالبات کو ماننے کے لیے رضامند کرانا چاہتے ہیں۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کی خاطر امریکی پابندیاں برداشت کیں اور دہشت گردی کا عذاب بھی جھیلا اب وہی افغان طالبان پاکستان کے بجائے ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے ہیں اور بھارت جیسے پاکستان دشمن کو اپنے ہاں پھر سے داخل کرلیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بھارت افغانستان میں داخل ہوکر پھر سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہوجائے گا۔ حالانکہ طالبان خود ابھی تک افغانستان میں ٹھیک سے قدم نہیں جما پائے ہیں۔ ان کی بعض پالیسیوں سے خود افغان عوام بے زار ہیں کئی علاقوں میں اب بھی ان کے خلاف بغاوت جاری ہے اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغان طالبان بھارت کو ضرور اپنا دوست سمجھنے لگے ہیں مگر مکار بھارتی حکمران اب بھی طالبان مخالف حکومت کو وہاں قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کا تعلق ہے وہ بھارت کے افغانستان سے نکلنے سے اس کی امداد سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب بھارت کے افغانستان میں پھر سے جگہ بنانے سے ہی ٹی ٹی پی کے رہنما پاکستان سے مفاہمت کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
کاش کہ افغان طالبان بھارتی حکمرانوں کی مکاری کو سمجھ سکیں اور ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بھی خبردار رہیں۔ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہی ان کے آگے کے مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔ چینی حکومت طالبان حکومت کی بھرپور مدد کر رہی ہے ، وہ وہاں ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے ساتھ ہی افغانستان کی سرزمین سے مختلف معدنیات تلاش کر رہی ہے۔
افغانستان میں کوئلے اور لوہے کے بڑے ذخائر موجود ہیں یہ ذخائر پاکستان اور چین کی ضروریات پورا کرسکتے ہیں۔ چنانچہ طالبان کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوستانہ رکھنے میں ہی فائدہ ہے۔ دراصل چین بھی پاکستان کی وجہ سے افغان معاملات میں گہری دلچسپی لے رہا ہے لیکن بھارت سے طالبان کو کسی وفا یا بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے وہ ان کا دشمن ہے اور ہمیشہ دشمن رہے گا۔