حکومت نے طالبان کے گروپوں سے الگ الگ امن معاہدوں کیلئے خفیہ کوششیں شروع کردیں
صرف ان لوگوں سے بات کی جائیگی جو امن اور مفاہمت چاہتے ہیں، پاک فوج کو بھی مثبت نتیجے کی توقع نہیں ہے، رکن حکومتی کمیٹی
وفاقی حکومت خاموشی کے ساتھ عسکریت پسندوں کے مختلف گروپوں سے انفرادی سطح پر امن معاہدے کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ حکومتی امن کمیٹی کا متفقہ موقف ہے کہ ایک وقت میں تحریک طالبان پاکستان کے تمام گروپوں کے ساتھ امن معاہدہ ناممکن ہے۔
حکومتی امن کمیٹی کے کم از کم 2 ارکان نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ توقع ہے کہ وفاقی حکومت تحریک طالبان کے بعض گروپوں سے کسی مفاہمت پر پہنچ سکے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام گروپوں کے ساتھ امن معاہدہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت اس وقت ان گروپوں کے انتخاب میں مصروف ہے جو امن کے خواہاں ہیں اور مفاہمت چاہتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ایک اور رکن نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کے لیے حکومت بیک ڈور چینلز کا سہارا لے رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف گروپوں سے امن معاہدے کے لیے رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کو یقین ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی عسکریت پسندوں کے تمام گروپوں پرگرفت مضبوط نہیں ۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نے بتایا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے بھی ثابت کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا مختلف گروپوں پر کنٹرول کمزور پڑ رہا ہے۔ اگر تمام شدت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے موقف کی تائید کرتے تو جنگ بندی کے اعلان کے بعد دہشت گردی کی تازہ وارداتیں نہ ہوتیں۔
دوسری جانب ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے تحریک طالبان صرف وقت گزار رہی ہے اور وہ امن معاہدے میں سنجیدہ نہیں۔ ایک سینئر عسکری اہلکار نے کہا کہ تحریک طالبان کو اسلام آباد کچہری اور خیبر ایجنسی میں کیے گئے دہشت گردی کے حملوں کے بعد صرف بیان جاری کرنے کے بجائے ان واقعات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے تھی۔ ایک سوال پر حکومتی کمیٹی کے رکن نے کہا کہ فوج کو اب بھی حکومت کی جانب سے جاری امن مذاکرات کی کوششوں کے مثبت نتیجے کا یقین نہیں، فوج کا خیال ہے کہ تحریک طالبان امن معاہدے میں مخلص نہیں، یہی وجہ ہے کہ فوج امن کمیٹی میں شامل ہونے پر تیار نہیں۔ فوج کی اعلیٰ قیادت نے گذشتہ جمعہ کو طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے تجویز کردہ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج شاید اس وقت کسی مذاکراتی عمل میں شامل ہوجائے، اگر اسے یقین ہو کہ مخصوص گروپوں سے بات چیت یا امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے امن معاہدے میں شامل نہ ہونے والے گروپوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے فوج کی ضروریات پر بھی غور کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کے لیے حکومت کے پاس اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا وقت قریب آرہا ہے، اب پاکستان کو فوری فیصلہ کرنا ہوگا کہ عسکریت پسندی کو کس طرح قابو کرنا ہے۔
حکومتی امن کمیٹی کے کم از کم 2 ارکان نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ توقع ہے کہ وفاقی حکومت تحریک طالبان کے بعض گروپوں سے کسی مفاہمت پر پہنچ سکے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام گروپوں کے ساتھ امن معاہدہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت اس وقت ان گروپوں کے انتخاب میں مصروف ہے جو امن کے خواہاں ہیں اور مفاہمت چاہتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ایک اور رکن نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کے لیے حکومت بیک ڈور چینلز کا سہارا لے رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف گروپوں سے امن معاہدے کے لیے رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کو یقین ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی عسکریت پسندوں کے تمام گروپوں پرگرفت مضبوط نہیں ۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نے بتایا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے بھی ثابت کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا مختلف گروپوں پر کنٹرول کمزور پڑ رہا ہے۔ اگر تمام شدت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے موقف کی تائید کرتے تو جنگ بندی کے اعلان کے بعد دہشت گردی کی تازہ وارداتیں نہ ہوتیں۔
دوسری جانب ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے تحریک طالبان صرف وقت گزار رہی ہے اور وہ امن معاہدے میں سنجیدہ نہیں۔ ایک سینئر عسکری اہلکار نے کہا کہ تحریک طالبان کو اسلام آباد کچہری اور خیبر ایجنسی میں کیے گئے دہشت گردی کے حملوں کے بعد صرف بیان جاری کرنے کے بجائے ان واقعات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے تھی۔ ایک سوال پر حکومتی کمیٹی کے رکن نے کہا کہ فوج کو اب بھی حکومت کی جانب سے جاری امن مذاکرات کی کوششوں کے مثبت نتیجے کا یقین نہیں، فوج کا خیال ہے کہ تحریک طالبان امن معاہدے میں مخلص نہیں، یہی وجہ ہے کہ فوج امن کمیٹی میں شامل ہونے پر تیار نہیں۔ فوج کی اعلیٰ قیادت نے گذشتہ جمعہ کو طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت کی جانب سے تجویز کردہ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج شاید اس وقت کسی مذاکراتی عمل میں شامل ہوجائے، اگر اسے یقین ہو کہ مخصوص گروپوں سے بات چیت یا امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے امن معاہدے میں شامل نہ ہونے والے گروپوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے فوج کی ضروریات پر بھی غور کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کے لیے حکومت کے پاس اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا وقت قریب آرہا ہے، اب پاکستان کو فوری فیصلہ کرنا ہوگا کہ عسکریت پسندی کو کس طرح قابو کرنا ہے۔