گردشی قرضہ پھر 246 ارب روپے تک پہنچ گیا طویل لوڈشیڈنگ شروع

متعدد بجلی گھربند، 22 فیصدلائن لاسز میں سے 16 فیصد ریکور باقی سرکلرڈیٹ کی مدمیں چلے جاتے ہیں،وزارت پانی وبجلی

متعدد بجلی گھربند، 22 فیصدلائن لاسز میں سے 16 فیصد ریکور باقی سرکلرڈیٹ کی مدمیں چلے جاتے ہیں،وزارت پانی وبجلی۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو مجموعی طورپر480 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجودگردشی قرضہ پھر246ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔


اس وقت کل پیداوار کی22 فیصد بجلی چوری ہورہی ہے جبکہ گزشتہ 5 سال کے دوران 19 پاورپروجیکٹ مکمل کیے گئے جن سے3300 میگاواٹ بجلی پیداکی جارہی ہے۔ وزارت پانی وبجلی کے مطابق گزشتہ سال 31 مئی کوبجلی بنانے والی کمپنیوں سے طے شدہ واجب الاداقابل ادائیگی رقوم کی مالیت561 ارب روپے تھی جس میں سے503 ارب روپے ادا کر دیے گئے،کاروباربندکرنے کے نقصانات کے 23 ارب روپے کی کٹوتی کرکے مجموعی طور پر 480ارب روپے کی ادائیگی کردی گئی،اس وقت قابل ادائیگی واجبات کی مالیت81 ارب روپے تھی تاہم31جنوری2014ء کوقابل ادائیگی واجبات کی مالیت 246 ارب روپے پر پہنچی جو 165 ارب روپے کااضافہ ہے،لائن لاسزپیداوارکے 22 فیصدکے قریب ہیں جس میں سے16 فیصد تک ریکورہوجاتے ہیں،باقی سرکلرڈیبٹ کی مدمیں چلے جاتے ہیں،وزارت کے حکام کا کہنا ہے کہ2008ء سے 2013ء کے درمیان مکمل ہونیوالے نئے پاورپراجیکٹس کی تعداد19ہے ان میں4سندھ، 2 آزادجموں کشمیراورایک خیبرپختونخوا میں ہے، ان سے 3 ہزار 300 میگاواٹ بجلی پیداکی جارہی ہے، 22 میگا واٹ کاجبن پاورتھری کا منصوبہ 2013ء میںمکمل ہوچکاہے تاہم اس پرکچھ کام باقی ہے۔

جنوبی پنجاب اورسندھ میں درجہ حرارت30 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جانے کے بعد کئی علاقوں میں12گھنٹوں پرمشتمل طویل لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی،3 ہزارمیگاواٹ مجموعی پیداوار کے حامل کچھ متعددبجلی گھر کئی ہفتو ںسے فعال نہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق نیشنل ٹرانسمیشن اینڈڈسپیچ کمپنی کے ایک افسر نے بتایا کہ ملک بھر میںبجلی کی طلب 13ہزارمیگا واٹ کے قریب تھی اورشام کوطلب میں1500میگاواٹ کامزیداضافہ ہوگیا، تاہم مختلف وجوہ کی بنا پربجلی کی پیداوارطلب سے کہیں کم رہی، طلب میں اچانک اضافہ کی وجہ سندھ اورجنوبی پنجاب میں گرمی کااچانک بڑھن اتھا،سرکاری ذرائع کے مطابق ایک ہفتہ میں ڈیم ڈیڈ لیول پرپہنچ جائینگے جس کے بعد بجلی کی پیداوار کا انحصارصرف نہروں کے بہاؤپررہ جائیگااورایسے میں بجلی کی پیداواراور طلب میں فرق مزیدبڑھ جائیگا۔

Recommended Stories

Load Next Story