صحافی عمران ریاض کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد سے صبح 10 بجے جواب طلب
عمران ریاض خان کے وکلا نے گرفتاری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی
NORTH WAZIRISTAN:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست کو صبح دس بجے سماعت کیلیے مقرر کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عمران ریاض خان کے وکلا کی جانب سے گرفتاری اور توہین عدالت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رات گئے درخواست دائر کی گئی۔
صحافی کے وکلا اور ہائی کورٹ کے ڈائری برانچ کے انچارج اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان کے درمیان رابطہ ہوا، جس کے بعد اسسٹنٹ رجسٹرار اور عملہ عدالت پہنچا۔
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا کہ 'ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، یہ عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے'۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گرفتاری کے خلاف دائر درخواست کو صبح سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مجاز افسر صبح دس بجے عدالت طلب کرنے کے احکامات جاری کیے۔
مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان کو پولیس نے گرفتار کرلیا
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد پیش ہوکر وضاحت کریں کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔ اسٹنٹ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ اسد خان نے درخواست پر نمبر لگاتے ہوئے بتایا کہ مزید سماعت صبح دس بجے ہوگی۔
قبل ازیں ہائی کورٹ ذرائع سے ملنے والی اطلاع موصول ہوئی تھی کہ عمران ریاض خان کے وکلا نے ہائی کورٹ ڈائری برانچ کے انچار اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان سے رابطہ کیا اور گرفتاری و عدالتی احکامات کی خلاف ورزی سے متعلق آگاہ کیا۔
ہائی کورٹ کے ڈائری برانچ کے انچارج اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان ہائی کورٹ روانہ ہوئے اور عملے کو بھی فوری پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے عمران ریاض کے وکلا سے درخواست وصول کی اور اُس پر سماعت کیے لیے نمبر لگایا۔
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا تھا کہ 'ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، ہم پولیس کے اس عمل پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں'۔
عمران خان کے وکلا نے درخواست میں آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔
درخواست میں لکھا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی نے عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روکا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست کو صبح دس بجے سماعت کیلیے مقرر کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عمران ریاض خان کے وکلا کی جانب سے گرفتاری اور توہین عدالت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رات گئے درخواست دائر کی گئی۔
صحافی کے وکلا اور ہائی کورٹ کے ڈائری برانچ کے انچارج اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان کے درمیان رابطہ ہوا، جس کے بعد اسسٹنٹ رجسٹرار اور عملہ عدالت پہنچا۔
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا کہ 'ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، یہ عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے'۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گرفتاری کے خلاف دائر درخواست کو صبح سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مجاز افسر صبح دس بجے عدالت طلب کرنے کے احکامات جاری کیے۔
مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان کو پولیس نے گرفتار کرلیا
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد پیش ہوکر وضاحت کریں کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔ اسٹنٹ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ اسد خان نے درخواست پر نمبر لگاتے ہوئے بتایا کہ مزید سماعت صبح دس بجے ہوگی۔
قبل ازیں ہائی کورٹ ذرائع سے ملنے والی اطلاع موصول ہوئی تھی کہ عمران ریاض خان کے وکلا نے ہائی کورٹ ڈائری برانچ کے انچار اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان سے رابطہ کیا اور گرفتاری و عدالتی احکامات کی خلاف ورزی سے متعلق آگاہ کیا۔
ہائی کورٹ کے ڈائری برانچ کے انچارج اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان ہائی کورٹ روانہ ہوئے اور عملے کو بھی فوری پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے عمران ریاض کے وکلا سے درخواست وصول کی اور اُس پر سماعت کیے لیے نمبر لگایا۔
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا تھا کہ 'ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، ہم پولیس کے اس عمل پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں'۔
عمران خان کے وکلا نے درخواست میں آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔
درخواست میں لکھا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی نے عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روکا تھا۔