100یونٹ مفت بجلی کی فراہمی اچھا فیصلہ

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام یقیناً انتہائی غریب گھرانوں کے لیے ایک ریلیف ہے

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام یقیناً انتہائی غریب گھرانوں کے لیے ایک ریلیف ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے روشن گھرانہ پروگرام کے تحت صوبے بھر میں یکم جولائی سے ماہانہ ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو حکومت پنجاب ادائیگی کرے گی۔ صوبے کے چوالیس سے نوے لاکھ گھرانوں کے ساڑھے پانچ کروڑ صارفین کو مفت بجلی کی فراہمی کی مد میں ایک سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے طبقے کو مفت سولر پینل دینے کا منصوبہ بھی تیار کیا جارہا ہے تاکہ ان خاندانوں کو بجلی کے بلز سے مستقل نجات مل سکے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام یقیناً انتہائی غریب گھرانوں کے لیے ایک ریلیف ہے۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کو بھی ایسے ہی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ بجلی کے نرخوں میں چونکہ بہت اضافہ ہوگیا ہے اور یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں، ایسے حالات میں نچلے طبقے کے لیے بجلی کے بل ادا کرنا مشکل بن چکا ہے ، ایسے میں ایک سو یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کا اقدام پنجاب کے غریب گھرانوں کو ریلیف دینے کے مترادف ہوگا۔

سابقہ حکومت نے لنگر خانوں اور پناہ گاہوں پراربوں روپے خرچ کیے ، اگر سو دوسو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے گھرانے کو ریلیف دینے کے لیے یہی رقم استعمال کرتی تو زیادہ اچھا ہوتا ، پنجاب حکومت کے اقدام سے انتہائی غریب گھرانوں کے ماہانہ اخراجات میں کمی آئے گی اور اسے بڑا ریلیف ملے گا۔

آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے معاشی و مالیاتی طور خاصی حد تک خود مختار ہیں، ان کے وسائل بھی بڑھے ہیں ، لہٰذا اب یہ عذ ر پیش کرنا کہ چونکہ فلاں محکمہ یا ادارہ وفاق کے زیر انتظام ہے لہٰذا وہی کچھ ریلیف فراہم کرے تو کرے ، صوبائی حکومتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ، صوبائی حکومتیں بہت سارے معاملات کی ذمے داری وفاقی اداروں پر ڈال کر اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوجاتی ہیں۔حالانکہ اگر وہ چاہیں تو صوبے کے عوام کو وفاقی اداروں سے ریلیف دلوا سکتی ہیں۔

سندھ پاکستان کا ایک خوشحال صوبہ ہے ،کراچی جیسا میگاسٹی بین الاقوامی صنعتی وتجارتی شہر بھی صوبے کا حصہ ہے، ٹیکسز کی مد میں جوکثیر فنڈز جمع ہوتے ہیں ، ان سے عوام کومختلف مدوں میں سبسڈی دے کر ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے ، جسے ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ وفاق کی جانب سے ملتا ہے، تو کیا بجلی کی بلوں کی مد میں صوبے کے غریب عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا ؟ سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور گلگت و بلتستان کی صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کے عوام کو ریلیف فراہم کریں۔

انھیں بجلی اور گیس پر ریلیف فراہم کریں ، سرکاری اسکولوں میں بچوں کی فیس صفر کرکے اور بچوں کو مفت درسی کتب اور یونیفارم فراہم کرکے غریب گھرانوں کو ریلیف دیا جاسکتا ہے ۔ جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتیں بھی عوام کو ریلیف فراہم کریں ۔

بھارتی پنجاب میں پہلی بار اقتدار میں آنے والی عام آدمی پارٹی نے عوام کو 300 یونٹ تک بجلی فری دینے کا اعلان کردیا ہے۔ گزشتہ سال انتخابی مہم کے دوران عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے بھارتی پنجاب کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی پنجاب میں کامیاب ہوگئی تو وہ صارفین کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کریں گے۔ بھارت کے صوبے ہریانہ میں بجلی کی مد میں جو ریلیف کسانوں کو دیا جا رہا ہے ، وہ ایک روشن مثال ہے ، یہی وجہ ہے کہ بھارت زرعی میدان میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ، اور اس کے کسان خوشحال ہیں۔


بھارت کے تین صوبوں پنجاب، دہلی اور ہریانہ میں تعلیم اور بجلی کی مدوں میں عوام کو اتنا بڑا ریلیف دیا جارہا ہے کہ بھارت کی دوسری ریاستوں کی حکومتوں پر اس حوالے دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ، وہاں کے عوام اپنی صوبائی حکومتوں سے ایسا ہی ریلیف مانگ رہے جیسا دہلی، ہریانہ میں فراہم کیا جارہا ہے ، ہماری صوبائی حکومتوں کو بھی نچلے طبقے کے لیے مفت بجلی کی فراہمی کے بارے ایک جامع حکمت عملی بنانی ہوگی۔

اس وقت ملک میں فوری توجہ طلب مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے ،بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو فعال کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ملک کے تمام صارفین کو مسلسل بجلی ملتی رہے اور صنعتوں کو بھی مسلسل بجلی ملتی رہے۔ صنعتیں چلیں گی تو ہی معیشت کا پہیہ چلے گا۔ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے سے جہاں عوام کی آمدن بڑھتی ہے وہی حکومت کو بھی اس کا حصہ ٹیکس کی صورت میں ملتا ہے۔

یہی ٹیکس کا پیسہ حکومت ترقیاتی کاموں اور سبسڈی کی صورت میں عوام کو واپس لوٹا دیتی ہے ، تاہم اس سارے سرکل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کا حل یہ بھی ہے کہ ملک میں موجود قدرتی ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے بجلی پیدا کی جائے۔ اس کے لیے سولر انرجی سب سے بہترین اور سستا ذریعہ ہے۔ حکومت نے سولر پینل کی درآمد پر ٹی بیک کس صفر کردیا ہے۔

اس سے عام لوگ اپنے گھروں میں سولر انسٹال کروانے کی طرف راغب ہونگے اور ان گھروں سے بچنے والی بجلی حکومت صنعتوں اور دیگر شعبوں کو دے سکے گی۔دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب نے غریب گھرانوں کو مفت سولر پینل فراہم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ یہ بھی بہت بروقت فیصلہ ہو گا اور اس معاملے پر زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو مفت اور سبسڈائزڈریٹ پر سولر پینل اور بیٹریز فراہم کر دی جائے تو یہ عوام کے لیے بڑا ریلیف ہو گا اور بجلی کے محکموں پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا۔ سندھ بلوچستان اور کے پی حکومتوں کو بھی انھی خطوط پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت جو مہنگائی ہے وہ خام تیل کی عالمی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہے۔ کچھ اس کا اثر روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی ہے جس کی لپیٹ میں کئی ممالک کی معیشتیں آ رہی ہیں۔ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے اور معیشت سے بوجھ کم کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں جن میں مہنگی و پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس ملک میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

پاکستان میں ہر طرح کا بہترین کپڑا تیار ہوتا ہے۔ اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے اور صرف حکومت سے ہی قربانیوں کے مطالبات نہ رکھے۔ مہنگے امپورٹڈ پرفیومز کی امپورٹ اور خریداری بھی اشرافیہ کرتی ہے، جب کہ پاکستان میں ہر طرح کا کپڑا، پرفیوم اور جوتے تیار ہوتے ہیں اور ایکسپورٹ بھی کیے جاتے ہیں۔

تو جہاں جہاں عوام مہنگائی اور درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں انھیں ڈالنا چاہیے اور اس بات کو ذہن میں بٹھا لینا چاہیے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ایک تیزی سے بڑھتے ہوئے عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے سامنے بڑی بڑی طاقت ور اور جدید ترین اور امیر ترین حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں بھی تیل کی قیمتیں بڑھنے سے جو مہنگائی ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں وہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔

پاکستان پر یہ مشکل عارضی ہے۔ جیسے ہی تیل کی قیمتیں عالمی ممالک میں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی جس کے بعد اشیائے خورونوش بالخصوص آٹا گھی و دیگر اشیا سستی ہو جائیں گی۔دنیا میں مہنگائی کا انڈیکس کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔

اسی طرح خام تیل کی قیمتیں دیکھنے کے لیے بھی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ انٹرنیٹ پر سب کچھ میسر ہے۔ حرف آخر وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ایک جامع ، مربوط اور منظم حکمت عملی ترتیب دیں ، سبسڈی مختلف مدوں میں دی جائے تو غریب و متوسط طبقے کونہ صرف ریلیف ملے گا بلکہ وہ مہنگائی کا کسی نہ کسی حد تک مقابلہ کرنے کے قابل بھی ہوجائیں ، مسئلہ سیاست کا نہیں ، بلکہ عوامی ریلیف کا ہے ، تمام صوبائی حکومتیں سر جوڑ کر بیٹھیں ، فہم و فراست اور تدابر سے عوامی مسائل کا حل نکالیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
Load Next Story