مفتاح اسماعیل اور اسد عمر کاتقابلی جائزہ
جہاں تک موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سوچ اور حکمت عملی کا تعلق ہے تو ان میں کوئی ابہام نظر نہیں ہے
RAWALPINDI:
آج کل مفتاح اسماعیل کی کارکردگی اور ان صلاحیت کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں اور لکھا بھی جارہا ہے۔ ویسے تو کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں ،کچھ اپنوں کا ْقصو ر بھی ہے والی بات ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے یہ تحریک انصاف کی جانب سے مفتاح اسماعیل پر ایک سیاسی حملہ نظر آتا ہے۔ جس میں ان کی ذات اورکارکردگی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایسے میں اسحاق ڈار کی واپسی کی خبروں نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے، اسی لیے اب حکومت کے وزراء مفتاح اسماعیل کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی جیسے سنیئر لوگ وفاقی وزیر خزانہ کے دفاع میں بولتے نظر آرہے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے اسد عمر کو مفتاح اسماعیل کی کارکردگی پر تنقید کا حق دیاجا سکتاہے؟ اگر مفتاح اسماعیل اور اسد عمر کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ 2018میں عمران خان نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی اسد عمر کو وزیر خزانہ نامزد کر دیا تھا اور انھیں وزارت خزانہ کے معاملات دیکھنے کا حکم دے دیا تھا۔ اسد عمر کو پہلے دن سے معلوم تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ماہر معیشت ہیں۔ وہ ہی معاشی محاذ پر تحریک انصاف کا بیانیہ بناتے تھے اور اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا ۔
جب اسد عمر وزیر خزانہ بن گئے تو آزمائش سے پہلے ہی وہ کنفیوز نظر آئے، ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں تھا۔ وہ تو اس حوالے سے یکسو بھی نہیں تھے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں جانا ہے۔ جب سارا پاکستان کہہ رہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اسدعمر آئی ایم ایف کا متبادل کے ڈھونڈنے کے حوالے سے ایڈونچر کرتے نظر آئے،پھر چند ماہ بعد انھیں سمجھ آئی کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
ان کی اسی کنفیوژن اور مبہم پالیسی کی وجہ سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات خراب ہوئے،جس کی قیمت ہم آج تک ادا کر رہے ہیں۔ جب اسد عمر دنیا کا چکر کاٹ کراس نتیجے پر پہنچے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے سوا کوئی حل نہیں۔ تب تک صورتحال خراب ہو چکی تھی ، آئی ایم ایف کا موڈ خر اب ہو چکا تھا۔ ابتر معاشی حالات اور ناراض آئی ایم ایف کے پاس جب پہنچے تو انھوں نے ایسی مشکل شرائط سامنے رکھیں کہ ہم آج تک اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اسی طرح روپے کی گرواٹ کے معاملے کو دیکھ لیں۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ میں جب روپے کی قدر کم ہوئی توعمران خان نے کہا، مجھے تو ٹی وی سے پتہ چلا کہ روپے کی قدر کم ہوگئی ہے جب کہ اسد عمر کی لا علمی کا بھی یہی عالم تھا۔ اسی لیے عمران خان نے ان سے وزارت خزانہ واپس لے لی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم اسد عمر کو معیشت اور وزارت خزانہ کے معاملات پر زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے۔
جہاں تک موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سوچ اور حکمت عملی کا تعلق ہے تو ان میں کوئی ابہام نظر نہیں ہے، وہ پہلے دن سے یکسو تھی کہ کچھ بھی کرنا پڑے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانا ہے۔ معاشی حالات دیوالیہ ہونے جیسے ہوچکے تھے ،ادھر سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا، وہ اسے توڑ کر گئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کسی نئے معاہدے کے لیے مذاکرات نہیں کر رہے بلکہ تحریک انصاف کی وعدہ خلافی کی قیمت ادا کر رہے ہیں، بلکہ پورا پاکستان وہ قیمت ادا کر رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے اس دوران بہت مشکل فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکومت اور اپنی سیاسی جماعت کو بھی ان مشکل فیصلوں پر قائل کیا ہے جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مفتاح نے صرف اپنی جماعت کو نہیں بلکہ اتحادیوں کو بھی قائل کیا ہے۔
وہ دو محازوں پر لڑتے نظر آرہے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ٹوٹی ہوئی بات جوڑنے کی بھی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور پاکستان کے اندر اپنی حکومت کی معاشی سمت کو لے کر بھی چل رہے ہیں۔ اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔آج حکومت کے تمام اتحادی بھی مفتاح کے ساتھ ہیں۔ جب کہ اس کے تقابلی جائزہ میں اسد عمر کا تو ان کی اپنی جماعت ہی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ کسی اتحادی کی کیا بات کرنی ہے۔
اس لیے اسد عمرا ور مفتاح اسماعیل کا کوئی تقابلی جائزہ نہیں بنتا۔ یہی صورتحال حماد اظہر کی بھی ہے۔ وہ بھی چند دن کے وزیر خزانہ رہ سکے اور کلین بولڈ ہو گئے، کیا انھیں دوسروں پر تنقید کا حق دیا جا سکتا ہے؟ مفتاح اسماعیل ابھی اپنی اننگ کھیل رہے ہیں۔
وہ وکٹ سے بھاگ نہیں رہے بلکہ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ میں حیران ہوں وہ لوگ مفتاح کی ناکامی کا دعویٰ کر رہے جن کو ان کی اپنی جماعت نے ناکام قرار دیکر ہٹا دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت امپورٹد وزیر خزانہ سے گزارا کرتی رہی۔ حفیظ شیخ کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شوکت ترین کا بھی تحریک انصاف سے تعلق بس وزیرخزانہ بننے تک تھا۔
مسلم لیگ (ن) نے کوئی امپورٹڈ وزیر خزانہ نہیں لیا ہے۔ مفتاح اسماعیل پارٹی کے رکن ہیں، وہ مسلم لیگ ن کی طرف الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ عائشہ غوث بھی مسلم لیگ (ن) سے ہیں۔
اسحاق ڈار بھی موجود ہیں۔ اس لیے اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو صورتحال کافی مختلف نظر آتی ہے۔ مفتاح اسماعیل کو تندی باد مخالف سے نہیں گھبرانا چاہیے اور اپنے روڈ میپ پر کام جاری رکھنا چاہیے۔اگر وہ اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید کو اتنا سنجیدہ لینے لگ گئے تو ان سے کام نہیں ہو سکے گا۔ وہ بھی اسد عمر کی طرح کنفیوژ ہو جائیں گے جو پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
آج کل مفتاح اسماعیل کی کارکردگی اور ان صلاحیت کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں اور لکھا بھی جارہا ہے۔ ویسے تو کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں ،کچھ اپنوں کا ْقصو ر بھی ہے والی بات ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے یہ تحریک انصاف کی جانب سے مفتاح اسماعیل پر ایک سیاسی حملہ نظر آتا ہے۔ جس میں ان کی ذات اورکارکردگی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایسے میں اسحاق ڈار کی واپسی کی خبروں نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے، اسی لیے اب حکومت کے وزراء مفتاح اسماعیل کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی جیسے سنیئر لوگ وفاقی وزیر خزانہ کے دفاع میں بولتے نظر آرہے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے اسد عمر کو مفتاح اسماعیل کی کارکردگی پر تنقید کا حق دیاجا سکتاہے؟ اگر مفتاح اسماعیل اور اسد عمر کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ 2018میں عمران خان نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی اسد عمر کو وزیر خزانہ نامزد کر دیا تھا اور انھیں وزارت خزانہ کے معاملات دیکھنے کا حکم دے دیا تھا۔ اسد عمر کو پہلے دن سے معلوم تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ماہر معیشت ہیں۔ وہ ہی معاشی محاذ پر تحریک انصاف کا بیانیہ بناتے تھے اور اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا ۔
جب اسد عمر وزیر خزانہ بن گئے تو آزمائش سے پہلے ہی وہ کنفیوز نظر آئے، ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں تھا۔ وہ تو اس حوالے سے یکسو بھی نہیں تھے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں جانا ہے۔ جب سارا پاکستان کہہ رہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اسدعمر آئی ایم ایف کا متبادل کے ڈھونڈنے کے حوالے سے ایڈونچر کرتے نظر آئے،پھر چند ماہ بعد انھیں سمجھ آئی کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
ان کی اسی کنفیوژن اور مبہم پالیسی کی وجہ سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات خراب ہوئے،جس کی قیمت ہم آج تک ادا کر رہے ہیں۔ جب اسد عمر دنیا کا چکر کاٹ کراس نتیجے پر پہنچے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے سوا کوئی حل نہیں۔ تب تک صورتحال خراب ہو چکی تھی ، آئی ایم ایف کا موڈ خر اب ہو چکا تھا۔ ابتر معاشی حالات اور ناراض آئی ایم ایف کے پاس جب پہنچے تو انھوں نے ایسی مشکل شرائط سامنے رکھیں کہ ہم آج تک اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اسی طرح روپے کی گرواٹ کے معاملے کو دیکھ لیں۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ میں جب روپے کی قدر کم ہوئی توعمران خان نے کہا، مجھے تو ٹی وی سے پتہ چلا کہ روپے کی قدر کم ہوگئی ہے جب کہ اسد عمر کی لا علمی کا بھی یہی عالم تھا۔ اسی لیے عمران خان نے ان سے وزارت خزانہ واپس لے لی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم اسد عمر کو معیشت اور وزارت خزانہ کے معاملات پر زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے۔
جہاں تک موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سوچ اور حکمت عملی کا تعلق ہے تو ان میں کوئی ابہام نظر نہیں ہے، وہ پہلے دن سے یکسو تھی کہ کچھ بھی کرنا پڑے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانا ہے۔ معاشی حالات دیوالیہ ہونے جیسے ہوچکے تھے ،ادھر سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا، وہ اسے توڑ کر گئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کسی نئے معاہدے کے لیے مذاکرات نہیں کر رہے بلکہ تحریک انصاف کی وعدہ خلافی کی قیمت ادا کر رہے ہیں، بلکہ پورا پاکستان وہ قیمت ادا کر رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے اس دوران بہت مشکل فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکومت اور اپنی سیاسی جماعت کو بھی ان مشکل فیصلوں پر قائل کیا ہے جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مفتاح نے صرف اپنی جماعت کو نہیں بلکہ اتحادیوں کو بھی قائل کیا ہے۔
وہ دو محازوں پر لڑتے نظر آرہے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ٹوٹی ہوئی بات جوڑنے کی بھی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور پاکستان کے اندر اپنی حکومت کی معاشی سمت کو لے کر بھی چل رہے ہیں۔ اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔آج حکومت کے تمام اتحادی بھی مفتاح کے ساتھ ہیں۔ جب کہ اس کے تقابلی جائزہ میں اسد عمر کا تو ان کی اپنی جماعت ہی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ کسی اتحادی کی کیا بات کرنی ہے۔
اس لیے اسد عمرا ور مفتاح اسماعیل کا کوئی تقابلی جائزہ نہیں بنتا۔ یہی صورتحال حماد اظہر کی بھی ہے۔ وہ بھی چند دن کے وزیر خزانہ رہ سکے اور کلین بولڈ ہو گئے، کیا انھیں دوسروں پر تنقید کا حق دیا جا سکتا ہے؟ مفتاح اسماعیل ابھی اپنی اننگ کھیل رہے ہیں۔
وہ وکٹ سے بھاگ نہیں رہے بلکہ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ میں حیران ہوں وہ لوگ مفتاح کی ناکامی کا دعویٰ کر رہے جن کو ان کی اپنی جماعت نے ناکام قرار دیکر ہٹا دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت امپورٹد وزیر خزانہ سے گزارا کرتی رہی۔ حفیظ شیخ کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شوکت ترین کا بھی تحریک انصاف سے تعلق بس وزیرخزانہ بننے تک تھا۔
مسلم لیگ (ن) نے کوئی امپورٹڈ وزیر خزانہ نہیں لیا ہے۔ مفتاح اسماعیل پارٹی کے رکن ہیں، وہ مسلم لیگ ن کی طرف الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ عائشہ غوث بھی مسلم لیگ (ن) سے ہیں۔
اسحاق ڈار بھی موجود ہیں۔ اس لیے اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو صورتحال کافی مختلف نظر آتی ہے۔ مفتاح اسماعیل کو تندی باد مخالف سے نہیں گھبرانا چاہیے اور اپنے روڈ میپ پر کام جاری رکھنا چاہیے۔اگر وہ اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید کو اتنا سنجیدہ لینے لگ گئے تو ان سے کام نہیں ہو سکے گا۔ وہ بھی اسد عمر کی طرح کنفیوژ ہو جائیں گے جو پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔