سعودی لڑکی کا جنس کی تبدیلی کے بعد لڑکا بن جانا ایک مسئلہ بن گیا
اس شخص کی درخواست پر کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس معاملے کا بدستور جائزہ لیا جارہا ہے،سعودی حکام
سعودی عرب میں جینیاتی تبدیلیوں کے باعث جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے نوجوان کو 3 برس بعد بھی حکام کی جانب سے لڑکا ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا جاسکا۔
سعودی ویب سائٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ایک لڑکی بن کر اس دنیا میں آیا لیکن کم عمری میں ہی اس میں مردانہ خواص پیدا ہونا شروع ہوگئے، اسی کیفیت میں اس نے مقامی یونیورسٹی سے گریجویشن کی جس کے بعد اس کے والدین اسے علاج کے لئے بیرون ملک لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ جینیاتی طور پر مرد ہے۔ بالآخر2010 میں سرجری کے ذریعے وہ لڑکی سے لڑکا بن گیا۔ سرجری کے بعد وہ عورت سے مرد تو بن گیا لیکن ساتھ ہی اس کے لئے مشکلات کے نئے دروازے بھی کھل گئے۔
3 برس قبل اس نے شناختی دستاویزات کے لئے درخواستیں دیں اور متعلقہ حکام کو اپنی رپورٹس دکھائیں تو وہ ماننے کو ہی تیار نہ تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اس کی جنس سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ پہلے اسے مکہ مکرمہ کے شاہ فیصل اسپتال بھیجا گیا جس کے بعد اسے شاہ عبدالعزیز اسپتال کے ماہرین سے رجوع کرنے کے لئے کہا گیا جہاں اسے یہ کہہ کر ٹرخا دیا گیا کہ اس کی تو فائل ہی گم ہوگئی ہے۔ اس لئے اب وہ اپنے تمام دستاویزات دوبارہ جمع کرائے۔موجودہ صورت حال میں نوجوان کا کہنا ہے کہ اس قدر تگ و دو کے باوجود شناختی کارڈ کے حصول کے لئے پیش آنے والی مشکلات نے اسے مایوس اور شناخت کے بحران میں مبتلا کردیا ہے اور وہ اب تک معمول کی زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکا۔
دوسری جانب متعلقہ اخبار نے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس شخص کی درخواست پر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن جس اسپتال میں اس شخص کو جانے کے لئے کہا گیا وہ وہاں نہیں گیا لیکن اس معاملے کا بدستور جائزہ لیا جارہا ہے ۔
سعودی ویب سائٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ایک لڑکی بن کر اس دنیا میں آیا لیکن کم عمری میں ہی اس میں مردانہ خواص پیدا ہونا شروع ہوگئے، اسی کیفیت میں اس نے مقامی یونیورسٹی سے گریجویشن کی جس کے بعد اس کے والدین اسے علاج کے لئے بیرون ملک لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ جینیاتی طور پر مرد ہے۔ بالآخر2010 میں سرجری کے ذریعے وہ لڑکی سے لڑکا بن گیا۔ سرجری کے بعد وہ عورت سے مرد تو بن گیا لیکن ساتھ ہی اس کے لئے مشکلات کے نئے دروازے بھی کھل گئے۔
3 برس قبل اس نے شناختی دستاویزات کے لئے درخواستیں دیں اور متعلقہ حکام کو اپنی رپورٹس دکھائیں تو وہ ماننے کو ہی تیار نہ تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اس کی جنس سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ پہلے اسے مکہ مکرمہ کے شاہ فیصل اسپتال بھیجا گیا جس کے بعد اسے شاہ عبدالعزیز اسپتال کے ماہرین سے رجوع کرنے کے لئے کہا گیا جہاں اسے یہ کہہ کر ٹرخا دیا گیا کہ اس کی تو فائل ہی گم ہوگئی ہے۔ اس لئے اب وہ اپنے تمام دستاویزات دوبارہ جمع کرائے۔موجودہ صورت حال میں نوجوان کا کہنا ہے کہ اس قدر تگ و دو کے باوجود شناختی کارڈ کے حصول کے لئے پیش آنے والی مشکلات نے اسے مایوس اور شناخت کے بحران میں مبتلا کردیا ہے اور وہ اب تک معمول کی زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکا۔
دوسری جانب متعلقہ اخبار نے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس شخص کی درخواست پر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن جس اسپتال میں اس شخص کو جانے کے لئے کہا گیا وہ وہاں نہیں گیا لیکن اس معاملے کا بدستور جائزہ لیا جارہا ہے ۔