دولت انسان کو کھا جاتی ہے
قدیم یونانیوں کے نزدیک تکبر بھیانک خیال لاتا ہے
PARIS:
Heraclitus نے کہا تھا کہ ''تکبر آگ سے بھی زیادہ تباہ و برباد کرنے والی چیز ہے، کیونکہ اس کے بعد تباہی کا آنا لازم ہے۔'' ہرو ڈوٹس کے فلسفے کا بہت بڑا حصہ اس نظریے کے گرد گھومتا ہے کہ تمام خوشیاں اور تمام خوشحالی غیر محفوظ ہے۔ قدیم یونانیوں کے نزدیک تکبر بھیانک خیال لاتا ہے۔
اسکائی لیس کہا کرتا تھا کہ '' یہ دنیا بھوت پریت سے بھری پڑی ہے۔ ''ہیرو ڈوٹس نے ساموس کے بادشاہ پولی کریٹ جس نے 540 ق م تک حکومت کی تباہی کا سبب Excessive Power کو قرار دیا ہے، اس وقت بھی یہ نظریہ عام تھا کہ انسانی معاملات کی گردش ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتی، لیڈیا کے بادشاہ کروسس کے زوال کا واقعہ تاریخ میں بار بار ملتا ہے جو دیوتاؤں کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے میں بہت مشہور تھا۔
اس نے اپنے فاتح ایرانی بادشاہ سائیرس کو کہا تھا ''اگر تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم اور تمہارے ماتحت فوجی دستے محض انسان ہیں تو یاد رکھنا انسانی زندگی گھومنے والا پہیہ ہے اور وہ انسانی اقبال مندی کو زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔'' یہ ہی وہ عظیم سچائیاں ہیں جنھیں کسی بھی وقت کے حکمرانوں کو ہر وقت یاد رکھنا اور ساتھ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے لیکن کیا تو کیا کیا جائے بلندی پر پہنچنے والے ان ہی سچائیوں کو سب زیادہ غیر ضروری سمجھ کر بلندی سے پہلی ہی فرصت میں پھینک دیتے ہیں اور پھر اترائی کے وقت ان کی ملاقات سب سے پہلے ان ہی سچائیوں سے ہوتی ہے تو وہ انھیں دیکھ کر بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ہیں لیکن اس وقت ان کے پاس آنسوؤں کے علاوہ اورکچھ باقی نہیں ہی بچتا ہے۔
یاد رکھیں یہ قدرت کا قانون ہے اور قدرت کے قانون کبھی بدلا نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے چندرا کہا کرتا تھا '' قدرت کا قانون سب سے بڑا بادشاہ ہوتا ہے'' اور یہ بادشاہ کبھی نہیں بدلتا کبھی اس پر زوال نہیں آتا ، جب کہ ہم سب بدل جاتے ہیں ہماری جگہیں بدل جاتی ہیں کاش کہ ہمارے حکمران بھی بلندی پر جانے سے پہلے انسانی تاریخ کا مطالعہ ضرورکر لیا کریں تو وہ حادثات ، سانحات ، ناگہانیوں اور انہونیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ، لیکن ہمارے حکمرانوں کا حال دیکھ کر عظیم شاعر الیگزینڈر پوپ کی بات بار بار یاد آجاتی ہے کہ '' فرشتے جہاں چلتے ہوئے ڈرتے ہیں احمق وہاں دوڑتا ہے۔'' دی لائف آف ریزن میں جارج سانتایانہ لکھتا ہے کہ جو لوگ ماضی یاد نہیں رہ سکتے انھیں اس کو دہرانے کی سزا دی جاتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی کہانی بہت ہی دلچسپ ہے وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہ پہلا کام نیچے دیکھنا ترک کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس خیال میں مدہوش ہوجاتے ہیں کہ اب انھیں یہاں سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا اور اب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں ہی رہنا ہے اور نیچے کبھی بھی نہیں جانا ہے۔
اس لیے جب نیچے جانا ہی نہیں ہے تو پھر خوب مزے کرو، خوب عیاشیاں کرو ، خوب لوٹ کھسوٹ کرو اور پھر وہ بلندی کے غرور اور تکبر میں غرق ہوجاتے ہیں اور جب وہ بلندی کے غرور و تکبر میں غرق ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی واپسی کے سفر کا سامان بندھنا شروع ہو جاتا ہے۔
چھٹی صدی ق م میں عظیم فلسفی سولن نے کہا تھا '' شان و شوکت بڑی آسانی سے بدکاری کی طرف راغب کر تی ہے'' اس ساری کہانی میں ہم ان عظیم خدائی خدمت گاروں کا ذکر تو کرنا بھول گئے ہیں۔
یہ عظیم خدائی خدمت گار وہ عظیم مخلوق ہیں، ہمیشہ بلندی پر پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں اور بلندی پر ہر نئے آنے والوں کو فوراً دبوچ لیتے ہیں وہ ان کو ایسے اسے سہانے خواب و سپنے اور طریقے دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ پھر ان کو ان کی ایک منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی ہے اور یہ عظیم خدمتگار پھر ان سے ایسے ایسے کارنامے سر انجام کرواتی ہے کہ جنھیں نیچے والے دیکھ دیکھ کر عش عش کر بیٹھتے ہیں اور پھر ان کی اترائی کا سفر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اترائی کے سفر میں آسانی کے لیے وہ ان کو ایسے ایسے راستے اور طریقے بتاتی ہے کہ جس سے پہلے وہ ان سے کبھی واقف ہی نہیں ہوتے ہیں۔
اس کے اصل میں دو مفید فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اترنے والوں کو اور آسانی ہوجاتی ہے اور انھیں نیچے دیکھنے کی خواہش بھی جلدی پوری ہوجاتی ہے اور آخر میں سفرکے اختتام پر خدائی خدمت گاروں کی ٹیم خوب داد وتحسین وصول کر رہی ہوتی ہے۔ یہ تو کہانی ہے بلندیوں پر پہنچنے والوں کی۔ آئیں اب ان چھوٹے چھوٹے مصنوعی بونے حکمرانوں کی بات کرتے ہیں جو رہتے تو ہیں ہمیشہ زمین پر ہی لیکن انھوں نے اپنی زمینوں ، جاگیروں ، محلات ، فیکٹریوں اور روپوں پیسوں کی وجہ سے اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں حرام کر رکھی ہے۔
یہ زمینی مخلوق آپ کو ملک کے ہر شہر ، قصبے ، محلوں، دیہاتوں میں بآسانی گھومتی پھرتی نظر آجائیں گی، جن کا تکبر، غرور، شان وشوکت بلندیوں پر پہنچنے والوں سے بھی زیادہ ہے، ان کی کہانیاں بلندیوں والوں سے زیادہ کراہت انگیز ہیں جن کی حرکات دیکھ کر قارون، سکندر اعظم ، ہٹلر ، میسولینی، چنگیز خان اپنی اپنی قبروں میں تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔ یاد رہے پہلے یہ مخلوق دنیا بھر میں پائی جاتی تھی لیکن اب یہ پوری دنیا سے ناپید ہوکر صرف اور صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ انسان دولت کو نہیں کھاتا بلکہ دولت انسان کوکھا جاتی ہے۔
پوری دنیا سے اس مخلوق کا ناپید ہونا اس لیے ممکن ہوا کہ ان کی دولت انھیں کھا گئی۔ جب حضرت عیسیٰ کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیں کیوں بیان کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا '' اس لیے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے ، کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے'' اصل میں سوچ بچار ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
تھامس ایڈیسن نے سر جو شوار نیلڈ کا یہ اقتباس اپنی تجربہ گاہ کی ایک دیوار پر چسپاں کر رکھا تھا ''ایسا کام کرنے سے ہر شخص گریز کرتا ہے جس میں حقیقی سوچ بچار کو دخل ہو۔'' اب دیکھنا صرف یہ باقی ہے کہ ہمارے ملک میں اس مخلوق کو دولت کب کھاتی ہے۔
Heraclitus نے کہا تھا کہ ''تکبر آگ سے بھی زیادہ تباہ و برباد کرنے والی چیز ہے، کیونکہ اس کے بعد تباہی کا آنا لازم ہے۔'' ہرو ڈوٹس کے فلسفے کا بہت بڑا حصہ اس نظریے کے گرد گھومتا ہے کہ تمام خوشیاں اور تمام خوشحالی غیر محفوظ ہے۔ قدیم یونانیوں کے نزدیک تکبر بھیانک خیال لاتا ہے۔
اسکائی لیس کہا کرتا تھا کہ '' یہ دنیا بھوت پریت سے بھری پڑی ہے۔ ''ہیرو ڈوٹس نے ساموس کے بادشاہ پولی کریٹ جس نے 540 ق م تک حکومت کی تباہی کا سبب Excessive Power کو قرار دیا ہے، اس وقت بھی یہ نظریہ عام تھا کہ انسانی معاملات کی گردش ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتی، لیڈیا کے بادشاہ کروسس کے زوال کا واقعہ تاریخ میں بار بار ملتا ہے جو دیوتاؤں کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے میں بہت مشہور تھا۔
اس نے اپنے فاتح ایرانی بادشاہ سائیرس کو کہا تھا ''اگر تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم اور تمہارے ماتحت فوجی دستے محض انسان ہیں تو یاد رکھنا انسانی زندگی گھومنے والا پہیہ ہے اور وہ انسانی اقبال مندی کو زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔'' یہ ہی وہ عظیم سچائیاں ہیں جنھیں کسی بھی وقت کے حکمرانوں کو ہر وقت یاد رکھنا اور ساتھ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے لیکن کیا تو کیا کیا جائے بلندی پر پہنچنے والے ان ہی سچائیوں کو سب زیادہ غیر ضروری سمجھ کر بلندی سے پہلی ہی فرصت میں پھینک دیتے ہیں اور پھر اترائی کے وقت ان کی ملاقات سب سے پہلے ان ہی سچائیوں سے ہوتی ہے تو وہ انھیں دیکھ کر بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ہیں لیکن اس وقت ان کے پاس آنسوؤں کے علاوہ اورکچھ باقی نہیں ہی بچتا ہے۔
یاد رکھیں یہ قدرت کا قانون ہے اور قدرت کے قانون کبھی بدلا نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے چندرا کہا کرتا تھا '' قدرت کا قانون سب سے بڑا بادشاہ ہوتا ہے'' اور یہ بادشاہ کبھی نہیں بدلتا کبھی اس پر زوال نہیں آتا ، جب کہ ہم سب بدل جاتے ہیں ہماری جگہیں بدل جاتی ہیں کاش کہ ہمارے حکمران بھی بلندی پر جانے سے پہلے انسانی تاریخ کا مطالعہ ضرورکر لیا کریں تو وہ حادثات ، سانحات ، ناگہانیوں اور انہونیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ، لیکن ہمارے حکمرانوں کا حال دیکھ کر عظیم شاعر الیگزینڈر پوپ کی بات بار بار یاد آجاتی ہے کہ '' فرشتے جہاں چلتے ہوئے ڈرتے ہیں احمق وہاں دوڑتا ہے۔'' دی لائف آف ریزن میں جارج سانتایانہ لکھتا ہے کہ جو لوگ ماضی یاد نہیں رہ سکتے انھیں اس کو دہرانے کی سزا دی جاتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی کہانی بہت ہی دلچسپ ہے وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہ پہلا کام نیچے دیکھنا ترک کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس خیال میں مدہوش ہوجاتے ہیں کہ اب انھیں یہاں سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا اور اب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں ہی رہنا ہے اور نیچے کبھی بھی نہیں جانا ہے۔
اس لیے جب نیچے جانا ہی نہیں ہے تو پھر خوب مزے کرو، خوب عیاشیاں کرو ، خوب لوٹ کھسوٹ کرو اور پھر وہ بلندی کے غرور اور تکبر میں غرق ہوجاتے ہیں اور جب وہ بلندی کے غرور و تکبر میں غرق ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی واپسی کے سفر کا سامان بندھنا شروع ہو جاتا ہے۔
چھٹی صدی ق م میں عظیم فلسفی سولن نے کہا تھا '' شان و شوکت بڑی آسانی سے بدکاری کی طرف راغب کر تی ہے'' اس ساری کہانی میں ہم ان عظیم خدائی خدمت گاروں کا ذکر تو کرنا بھول گئے ہیں۔
یہ عظیم خدائی خدمت گار وہ عظیم مخلوق ہیں، ہمیشہ بلندی پر پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں اور بلندی پر ہر نئے آنے والوں کو فوراً دبوچ لیتے ہیں وہ ان کو ایسے اسے سہانے خواب و سپنے اور طریقے دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ پھر ان کو ان کی ایک منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی ہے اور یہ عظیم خدمتگار پھر ان سے ایسے ایسے کارنامے سر انجام کرواتی ہے کہ جنھیں نیچے والے دیکھ دیکھ کر عش عش کر بیٹھتے ہیں اور پھر ان کی اترائی کا سفر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اترائی کے سفر میں آسانی کے لیے وہ ان کو ایسے ایسے راستے اور طریقے بتاتی ہے کہ جس سے پہلے وہ ان سے کبھی واقف ہی نہیں ہوتے ہیں۔
اس کے اصل میں دو مفید فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اترنے والوں کو اور آسانی ہوجاتی ہے اور انھیں نیچے دیکھنے کی خواہش بھی جلدی پوری ہوجاتی ہے اور آخر میں سفرکے اختتام پر خدائی خدمت گاروں کی ٹیم خوب داد وتحسین وصول کر رہی ہوتی ہے۔ یہ تو کہانی ہے بلندیوں پر پہنچنے والوں کی۔ آئیں اب ان چھوٹے چھوٹے مصنوعی بونے حکمرانوں کی بات کرتے ہیں جو رہتے تو ہیں ہمیشہ زمین پر ہی لیکن انھوں نے اپنی زمینوں ، جاگیروں ، محلات ، فیکٹریوں اور روپوں پیسوں کی وجہ سے اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں حرام کر رکھی ہے۔
یہ زمینی مخلوق آپ کو ملک کے ہر شہر ، قصبے ، محلوں، دیہاتوں میں بآسانی گھومتی پھرتی نظر آجائیں گی، جن کا تکبر، غرور، شان وشوکت بلندیوں پر پہنچنے والوں سے بھی زیادہ ہے، ان کی کہانیاں بلندیوں والوں سے زیادہ کراہت انگیز ہیں جن کی حرکات دیکھ کر قارون، سکندر اعظم ، ہٹلر ، میسولینی، چنگیز خان اپنی اپنی قبروں میں تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔ یاد رہے پہلے یہ مخلوق دنیا بھر میں پائی جاتی تھی لیکن اب یہ پوری دنیا سے ناپید ہوکر صرف اور صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ انسان دولت کو نہیں کھاتا بلکہ دولت انسان کوکھا جاتی ہے۔
پوری دنیا سے اس مخلوق کا ناپید ہونا اس لیے ممکن ہوا کہ ان کی دولت انھیں کھا گئی۔ جب حضرت عیسیٰ کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیں کیوں بیان کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا '' اس لیے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے ، کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے'' اصل میں سوچ بچار ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
تھامس ایڈیسن نے سر جو شوار نیلڈ کا یہ اقتباس اپنی تجربہ گاہ کی ایک دیوار پر چسپاں کر رکھا تھا ''ایسا کام کرنے سے ہر شخص گریز کرتا ہے جس میں حقیقی سوچ بچار کو دخل ہو۔'' اب دیکھنا صرف یہ باقی ہے کہ ہمارے ملک میں اس مخلوق کو دولت کب کھاتی ہے۔