تھر پارکر کو تباہی سے بچایا جائے
صوبہ سندھ میں ضلع تھرپاکر کے المیے نے ہر محب وطن پاکستانی کو چشم زدن میں غمزدہ اور صدمہ سے دوچار کردیا۔
صوبہ سندھ میں ضلع تھرپاکر کے المیے نے ہر محب وطن پاکستانی کو چشم زدن میں غمزدہ اور صدمہ سے دوچار کردیا ، وزیراعظم نواز شریف نے تھرپار کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اپنی پیر کوکی تمام مصروفیات ترک کرکے ضلع تھرپارکر کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ پیر کو بلاول بھٹو اور دیگر حکام کے ہمراہ تھرپارکر پہنچ گئے ، مٹھی میں بریفنگ کے بعد ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے تھر کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا جب کہ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو ہدایت کی کہ وہ غذائی قلت کے باعث اموات کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کریں ۔ وفاقی حکومت نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بھی سندھ حکومت کو فراہم کیا ہے جو متاثرین کو متاثرہ علاقہ سے شفٹ کرے گا۔
تھر میں بے بس و لاچار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے، قحط سالی سے مزید 6 بچے جاں بحق ہوگئے جب کہ حکومتی و فلاحی اداروں کی طرف سے بھجوائے گئے سامان کی متاثرین میں تقسیم اور ہلاکتوں کے بارے میں حکام کی عذر خواہی بھی جاری ہے جب کہ وزیراعظم کے اس سوال پر حکام کو اپنے ضمیر کے کسی گوشہ میں یہ خلش محسوس کرلینی چاہیے کہ جب چولستان اور تھر پاکر کے حالات ایک جیسے ہیں تو تھر میں اموات کیوں ہوئیں ۔ بہر کیف کئی علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگا دیے گئے، اتوار کو تھر کے مختلف علاقوں میں غذائی قلت سے مزید 6 بچے جاں بحق ہوگئے اور 20 سے زائد کو اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔ ذرایع کے مطابق اسپتالوں میں غذائی قلت کے شکار مریض بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ 24 گھنٹوں کے دوران 375 بچے سول اسپتال مٹھی لائے گئے۔صرف مٹھی کے سول اسپتال میں اتوار کو 2500سے زائد افراد علاج کے لیے آئے، عام دنوں میں مریضوں کی تعداد 100 سے 200 کے درمیان ہوتی ہے۔ محکمہ صحت نے اندرون سندھ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ تھر کے مختلف علاقوں سے شہریوں کی نقل مکانی بھی جاری ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اتوار کو قحط زدہ علاقوں میں 45 ٹن خوراک تقسیم کردیا گیا جب کہ ڈیپلو، چاچڑو، مٹھی اور ننگر پارکر میں میڈیکل کیمپ قائم کرد یئے گئے ۔
اب تک 1625 مریضوں کا معائنہ کیا۔ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی نے تھرپارکر میں جاری امدادی و طبی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے مٹھی کا دورہ کیا۔ پاک فضائیہ نے بھی فضائی ریلیف آپریشن کا آغاز کردیا ہے اور متاثرین کی مدد کے لیے امدادی اشیاء سے بھرا سی ون تھرٹی طیارہ تلہار ایئربیس پہنچ گیا جہاں امدادی سامان کو ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پہلے طیارے میں بھجوائے گئے سامان میں 3 ہزار خاندانوں کے لیے 4 سے 6 دنوں کے لیے کھانے پینے کا سامان ، ادویات اور دوسری روزمرہ استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ پاک فضائیہ کے مطابق تھر میں خشک سالی کے خاتمے تک امدادی آپریشن جاری رہے گا۔علاوہ ازیں حکومت سندھ کی جانب سے مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹرز متاثرہ علاقوں میں بھیج دیے گئے ۔ جانوروں کی خوراک کے لیے چارے سے لدے کئی ٹرک بھی پہنچے ہیں جب کہ محکمہ لائیو اسٹاک کی ٹیمیں جانوروں کی ویکسی نیشن میں مصروف رہیں۔ پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے امدادی سامان کے ٹرک کے کئیبدین پہنچ گئے ہیں ۔ پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے راشن کے بھرے ٹرک روانہ کردیے گئے ہیں ۔ سرکاری گوداموں میں 45 ہزار بوریوں میں سے صرف 980 بوریاں ہی مستحقین تک پہنچ سکیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے مٹھی میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ریلیف کے کاموں میں کچھ مشکلات ہیں ، وزیراعلیٰ نے تسلیم کیا کہ تھر میں قحط سالی ہے اور شدید سردیوں نے اس کی شدت میں اضافہ کیا اور اعلان کیا ہے کہ حکومت ایک ہفتے میں تمام متاثرین تک پہنچے گی ۔ وزیراعلیٰ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، ایک طرف انھیں نوکر شاہی کی تطہیر اور سانحہ کے اصل ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں کیفرکردار تک پہنچانا ہے تو دوسریجانب حکمرانوں کو تھر سمیت ملک کے غریب اور محروم طبقات کو اپنے سماجی اور معاشی ایجنڈے میں شامل کرنے کی ابتدا بھی کرنی چاہیے جو اشرافیائی طرز حکمرانیکی ایک اندوہ ناک روایت کے طفیل فراموش کیے جا چکے ہیں ۔ کاش مٹھی میں وزرا وو مشیران باتدبیر بوفے اڑانے کے بجائے بھوک ، بیماری اور بیچارگی سے نڈھال بچوں کا دکھ شیئر کرتے،کچھ دیر بھوک کی اذیت برداشت کرتے ،اورموئن جو دڑو کے تحفظ میں پیش پیش ارباب بست وکشاد کو تھر میں بربادی کا پیشگی خیال آتا ۔
تاہم اب بھی وقت ہے حکام بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے دور افتادہ صحرا نشینوں کے درد انگیز شب و روز کا ادراک کریں، ایسے المیوں کی پیشگی روک تھام کے لیے اقدامات کریں، ان خانماں برباد لوگوں بھی زندہ رہنے کا حق دیں ۔تھر کے صحرا میں جو بے آسرا بچے ابدی نیند سو گئے وہ ہمارے طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے ۔ وزرا اور حکام بہانے تراشی سے گریز کریں ، اپنی ساری توانائی سانحہ کے متاثرین کی بحالی پر صرف کریں ۔ میڈیا نے زیب داستاں کے لیے کسی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا، بس حقائق منکشف کیے ہیں ۔واضح ہو کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں پر سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی ہوئی ہے جس میں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ تھر میں صورتحال کی ذمے دار سندھ حکومت ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گندم کی تقسیم سرعت کے ساتھ ہو، امدادی کاموں میں تیزی لائی جائے، مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے تھرپارکر اور اس کے عوام کو تباہی سے بچایا جائے۔
تھر میں بے بس و لاچار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے، قحط سالی سے مزید 6 بچے جاں بحق ہوگئے جب کہ حکومتی و فلاحی اداروں کی طرف سے بھجوائے گئے سامان کی متاثرین میں تقسیم اور ہلاکتوں کے بارے میں حکام کی عذر خواہی بھی جاری ہے جب کہ وزیراعظم کے اس سوال پر حکام کو اپنے ضمیر کے کسی گوشہ میں یہ خلش محسوس کرلینی چاہیے کہ جب چولستان اور تھر پاکر کے حالات ایک جیسے ہیں تو تھر میں اموات کیوں ہوئیں ۔ بہر کیف کئی علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگا دیے گئے، اتوار کو تھر کے مختلف علاقوں میں غذائی قلت سے مزید 6 بچے جاں بحق ہوگئے اور 20 سے زائد کو اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔ ذرایع کے مطابق اسپتالوں میں غذائی قلت کے شکار مریض بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ 24 گھنٹوں کے دوران 375 بچے سول اسپتال مٹھی لائے گئے۔صرف مٹھی کے سول اسپتال میں اتوار کو 2500سے زائد افراد علاج کے لیے آئے، عام دنوں میں مریضوں کی تعداد 100 سے 200 کے درمیان ہوتی ہے۔ محکمہ صحت نے اندرون سندھ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ تھر کے مختلف علاقوں سے شہریوں کی نقل مکانی بھی جاری ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اتوار کو قحط زدہ علاقوں میں 45 ٹن خوراک تقسیم کردیا گیا جب کہ ڈیپلو، چاچڑو، مٹھی اور ننگر پارکر میں میڈیکل کیمپ قائم کرد یئے گئے ۔
اب تک 1625 مریضوں کا معائنہ کیا۔ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی نے تھرپارکر میں جاری امدادی و طبی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے مٹھی کا دورہ کیا۔ پاک فضائیہ نے بھی فضائی ریلیف آپریشن کا آغاز کردیا ہے اور متاثرین کی مدد کے لیے امدادی اشیاء سے بھرا سی ون تھرٹی طیارہ تلہار ایئربیس پہنچ گیا جہاں امدادی سامان کو ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پہلے طیارے میں بھجوائے گئے سامان میں 3 ہزار خاندانوں کے لیے 4 سے 6 دنوں کے لیے کھانے پینے کا سامان ، ادویات اور دوسری روزمرہ استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ پاک فضائیہ کے مطابق تھر میں خشک سالی کے خاتمے تک امدادی آپریشن جاری رہے گا۔علاوہ ازیں حکومت سندھ کی جانب سے مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹرز متاثرہ علاقوں میں بھیج دیے گئے ۔ جانوروں کی خوراک کے لیے چارے سے لدے کئی ٹرک بھی پہنچے ہیں جب کہ محکمہ لائیو اسٹاک کی ٹیمیں جانوروں کی ویکسی نیشن میں مصروف رہیں۔ پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے امدادی سامان کے ٹرک کے کئیبدین پہنچ گئے ہیں ۔ پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے راشن کے بھرے ٹرک روانہ کردیے گئے ہیں ۔ سرکاری گوداموں میں 45 ہزار بوریوں میں سے صرف 980 بوریاں ہی مستحقین تک پہنچ سکیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے مٹھی میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ریلیف کے کاموں میں کچھ مشکلات ہیں ، وزیراعلیٰ نے تسلیم کیا کہ تھر میں قحط سالی ہے اور شدید سردیوں نے اس کی شدت میں اضافہ کیا اور اعلان کیا ہے کہ حکومت ایک ہفتے میں تمام متاثرین تک پہنچے گی ۔ وزیراعلیٰ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، ایک طرف انھیں نوکر شاہی کی تطہیر اور سانحہ کے اصل ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں کیفرکردار تک پہنچانا ہے تو دوسریجانب حکمرانوں کو تھر سمیت ملک کے غریب اور محروم طبقات کو اپنے سماجی اور معاشی ایجنڈے میں شامل کرنے کی ابتدا بھی کرنی چاہیے جو اشرافیائی طرز حکمرانیکی ایک اندوہ ناک روایت کے طفیل فراموش کیے جا چکے ہیں ۔ کاش مٹھی میں وزرا وو مشیران باتدبیر بوفے اڑانے کے بجائے بھوک ، بیماری اور بیچارگی سے نڈھال بچوں کا دکھ شیئر کرتے،کچھ دیر بھوک کی اذیت برداشت کرتے ،اورموئن جو دڑو کے تحفظ میں پیش پیش ارباب بست وکشاد کو تھر میں بربادی کا پیشگی خیال آتا ۔
تاہم اب بھی وقت ہے حکام بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے دور افتادہ صحرا نشینوں کے درد انگیز شب و روز کا ادراک کریں، ایسے المیوں کی پیشگی روک تھام کے لیے اقدامات کریں، ان خانماں برباد لوگوں بھی زندہ رہنے کا حق دیں ۔تھر کے صحرا میں جو بے آسرا بچے ابدی نیند سو گئے وہ ہمارے طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے ۔ وزرا اور حکام بہانے تراشی سے گریز کریں ، اپنی ساری توانائی سانحہ کے متاثرین کی بحالی پر صرف کریں ۔ میڈیا نے زیب داستاں کے لیے کسی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا، بس حقائق منکشف کیے ہیں ۔واضح ہو کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں پر سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی ہوئی ہے جس میں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ تھر میں صورتحال کی ذمے دار سندھ حکومت ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گندم کی تقسیم سرعت کے ساتھ ہو، امدادی کاموں میں تیزی لائی جائے، مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے تھرپارکر اور اس کے عوام کو تباہی سے بچایا جائے۔