خواتین کا عالمی دن

آج کےپاکستان میں امارت اورغربت کےدرمیان جوفاصلہ پیداہوچکاہےوہ اگرسچ بات پوچھیں توکفراوراسلام کےدرمیان کافاصلہ ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

آج کے پاکستان میں امارت اور غربت کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہو چکا ہے وہ اگر سچ بات پوچھیں تو کفر اور اسلام کے درمیان کا فاصلہ ہے۔ حضور پاکؐ نے فرمایا ہے کہ ''قریب ہے کہ بھو ک کفر تک پہنچا دے۔''آج کی غربت مفلس پاکستانیوں کو کفر تک پہنچا رہی ہے اور وہ اپنے معصوم بچوں کو اس لیے اپنے ہی ہاتھوں ہلاک کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ان معصوموں کو کھلانے یعنی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کچھ نہیں اس لیے انھیں بھوکا مارنے سے بہتر ہے کہ خود ہی ان کا گلا گھونٹ دیں اور پھر خود کو بھی ختم کر دیں کہ یہ منظر کون دیکھ سکتا ہے جن والدین کے پاس اتنی ہمت نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی معصوم اولاد کو ختم کر دیں وہ ان بچوں کو شہر کے کسی بارونق چوک میں برائے فروخت لے آتے ہیں یعنی جس کسی کی ہمت ہے وہ ان کو مفت میں گھر لے جائے۔

یہ المیہ میں آپ کی طرح ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں مگر اس پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ اب میں نے اخباروں میں پڑھا کہ ایک پاکستانی رئیس ملک ریاض حسین تھرپارکر میں بچوں کو بھوک سے نجات دلانے کے لیے وہاں نہ صرف مستقل کیمپ لگا رہے ہیں بلکہ بہت ہی بھاری رقم بھی خرچ کر رہے ہیں۔ ملک صاحب نے ہمارے دوسرے پاکستانی ارب پتیوں کی طرح یہ دولت پاکستان سے کمائی لیکن وہ اس کا ایک حصہ پاکستانیوں پر خرچ بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے زمینوں کی خرید و فروخت اور ہاؤسنگ کے کامیاب منصوبوں سے یہ دولت کمائی ہے۔ ان کے بحریہ ٹاؤن بنتے اور پھیلتے جا رہے ہیں۔ ان کی آمدن کا ایک حصہ مستقل دسترخوانوں کی طرح وہ پاکستان کے بھوکے بچوں پر بھی صرف کر رہے ہیں۔ معاف کیجیے خدا کی لعنت ہے ان دوسرے ارب پتی پاکستانیوں پر جنہوں نے ملک صاحب کی طرح پاکستان سے دولت تو کمائی مگر اسے پاکستان سے باہر لے گئے۔ پاکستانیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔

میرے پاس کوئی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری اس غربت کا علاج خود ملک کے اندر موجود ہے۔ یہ ایک مصنوعی غربت ہے جو ہمارے بڑے لوگوں اور بااثر خاندانوں اور کنبوں کی لوٹ کھسوٹ نے پیدا کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک کہانی میری نظر سے گزری ہے۔ ایک عورت کی کہانی جو اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے آپ کو بیچ رہی ہے، وہ کہتی ہے کہ میں پچھلے ایک گھنٹے سے بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تھی اور میری نظریں آتے جاتے ہوئے مردوں پر اور آتی جاتی گاڑیوں پر ٹک جاتی تھیں۔ میں اس انتظار میں تھی کہ دیکھو کب کوئی اشارہ کرے، کب کسی کار کا ہارن بجے اور میں سوچ رہی تھی کہ اگر آج بھی خالی ہاتھ گھر لوٹی تو میرے بچوں کو کل کی طرح آج بھی بھوکا سونا ہو گا۔ بس اس خیال سے میری جان فنا ہونے لگی۔ اور اب آتے جاتے مردوں اور گاڑیوں کو دیکھتے دیکھتے میں تھک اور مایوس ہو کر نڈھال ہو رہی تھی۔


گزرے پانچ برسوں کے ہر دن نے میرے جسم پر انگلیوں کے اتنے نشان چھوڑے تھے جس سے میرا حلیہ ہی بدل گیا تھا اور میری شکل ہی بگاڑ کر رکھی دی گئی تھی۔ میں انھی خیالوں میں گم تھی کہ میرے پاس ایک موٹرسائیکل آ کر رکی اور میں اس پر بیٹھ گئی۔ فارغ ہونے کے بعد مجھے مقررہ رقم سے ایک سو روپے کا نوٹ زیادہ ملا۔ میں نے اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقررہ رقم سے زیادہ ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم ہے لیکن آج عورتوں کے عالمی تہوار کا دن ہے۔ یہ رکھ لو۔

یہ پاکستان کی نہ جانے کتنی ہی ماؤں کی کہانی ہے مگر ان کے بچوں کا مہربان اب تک ایک ہی ہے ملک ریاض۔ ظاہر ہے کہ آپ کی طرح میں بھی بے بس ہوں ورنہ میں پاکستان کے خوشحال لوگوں کی آسودگی میں ان تمام بچوں کو شریک کر دیتا جو اس مٹی کے بیٹے ہیں مگر غریب کی اولاد ہیں۔ پاکستان کو اگر زندہ رہنا ہے تو اس میں انصاف لازم ہے مثلاً یہی کہ زیادہ نہیں تو سب کو کھانے کو تو ملے۔ غضب خدا کا کہ پاکستان کے ایک حصے تھر میں بچے بھوک سے اس لیے مر گئے کہ گوداموں میں پڑی ہوئی گندم ان تک پہنچائی نہ جا سکی یعنی جو حکمران ہیں سندھ کے ان تک بچوں کی چیخیں بھی نہ پہنچ سکیں۔ میڈیا نے شور مچایا تو ان کو پتہ چلا کہ ان کی رعایا کے کچھ بچے تھوک کے حساب سے مر گئے ہیں۔ بڑی صاف بات یہ ہے کہ جو اس صوبے کے حکمران ہیں ان کو بھی ان بچوں کی طرح بھوکا مارا جائے یا کم ازکم اس افلاس زدہ علاقے میں رہائش پر مجبور کیا جائے۔

ہماری بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں احتساب کا نام و نشان باقی نہیں رہا جس کا جو جی چاہے یا جس کی طاقت ہو وہ جو چاہے کرتا رہے۔ ہر سرکاری ملازم اپنے سرکاری فرائض کا پابند ہے لیکن اگر وہ یہ فرائض ادا نہ کرے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور جب کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا تو مائیں جسم بیچ کر بچوں کو کھانا کھلاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ جسم ہر روز بک جائے جب کہ بھوک ہر روز آ جاتی ہے۔ خبر ملی کہ وزیراعلیٰ سندھ بالآخر تھر تشریف لے گئے۔ ان کے اعزاز میں نہایت ہی پرتکلف مرغن کھانا تیار ہوا جو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نوش کیا یعنی شرم تم کو مگر نہیں آتی والا منظر تھا۔ ملک میں ایسے سانحے ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔ یہ ہمارے حکمران اس آنے والے عذاب کی پیشگی نشانیاں ہیں۔ ان میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔
Load Next Story