سیاسی عدم استحکام اور معیشت
معاشی مسائل کا سارا بوجھ غریب عوام برداشت کرنے پر مجبورکردیے گئے ہیں
ملک میں جاری موجودہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملکی معیشت سنبھل نہیں پا رہی ہے۔
صوبہ پنجاب کا سیاسی اور آئینی بحران تین ماہ سے نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آرہی ہے، سیاسی معاملات جو پارلیمنٹ کے فورم پر حل کیے جاتے ہیں، وہ اب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان سے معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی ہے ، معاملہ جتنا طول پکڑ رہا ہے ، ملکی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
معاشی مسائل کا سارا بوجھ غریب عوام برداشت کرنے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔ موجودہ معاشی تنزلی کے نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، افراط زر ، شرح سود ، سود کی لاگت اور مالیاتی خسارہ معیشت کو متاثرکرنے والے عوامل میں شامل ہیں، اس وقت سرمایہ دار اور صنعت کار بھی اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں 43 سے 235 فیصد تک اضافے کی منظوری دیدی۔ فیصلے سے گھریلو اور دیگرکیٹیگریزکے صارفین متاثرہونگے،حکومت کو 660 ارب روپے کا اضافی ریونیوملے گا۔ای سی سی اجلاس میں یوٹیلیٹی اسٹورزپر آٹا ،خوردنی تیل اور چینی سستے داموں فراہم کرنے کے لیے سالانہ 54 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
اس وقت حکومت کہہ رہی ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیے بنا گزارا نہیں جب کہ روپے کی قدر میں گراؤٹ کے سبب انرجی سمیت تمام درآمدی اشیا مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ عوام خوراک کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں جب کہ صنعتی کساد بازاری سے روزگار کے مواقع بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ یوں سیاسی بحران، معیشت کو مکمل طور پہ اپنی لپیٹ میں لے چْکا ہے اس بحرانی کیفیت سے ملک کو نکالنا قومی سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج ہے ۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کا مالیاتی مؤقف اجناس کی قیمتوں، خاص طور پر تیل کی قیمتوں کے حوالے سے کمزور ہے اور اتار چڑھاؤ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور ایندھن کی سبسڈی کی وجہ سے آمدنی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
نتیجتاً یہ شدید معاشی عدم توازن کا سبب بنتا ہے، اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے مالیاتی فریم ورک اہم ہے ، مزید برآں درآمدی ایندھن کی لاگت میں اضافہ چاہے وہ بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی وجہ سے ہو یا روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے، یا دونوں کی وجہ سے ہو، یہ جی ڈی پی کو کم اور محصولات میں اضافے کو بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے۔ بجلی اور گیس کی مسلسل بندش سے صنعتوں میں پیداواری عمل متاثر اور مزدوروں کا روزگار چھن رہا ہے۔
اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ملک کا مزدور ہے جس کی مثال حالیہ کچھ دنوں میں دیکھنے میں آئی ہے ، جب کراچی کے کورنگی، لانڈھی صنعتی ایریا سے ہزاروں مزدوروں کو نوکری سے جبری طور پر فارغ کر دیا گیا ہے ، یہ صورتحال ملک کے دیگر شہروں کے صنعتی زون کی بھی ہے۔
اس وقت ہماری درآمدات ، بر آمدات سے دوگنا سے زیادہ ہے ، ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جسکی ساٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے،جنھیں روزگار کے مواقع چاہییں، ذرا سوچئے! ایک ایسا ملک جس کے جی ڈی پی کی شرح نمو چار فیصد کے قریب ہے وہ ملک اپنی ساٹھ فی صد سے زائد نوجوان آبادی کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے؟
کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے یہ بات زور دے کے کہی جا رہی ہے کہ فوری انتخابات کا انعقاد ہو ، مگر لگتا نہیں ہے کہ ان اختلافات کو انتخابات بھی ختم کر سکیں کیونکہ ہمارے ہاں انتخابات کے نتائج کو بھی نہ ماننے کا رواج ہے۔ اب ایک اور بات جو طول پکڑ چکی ہے وہ بیرونی مداخلت ہے،یہ بات بھی آگے چل کے نہایت خطرناک ہو جائے گی۔
ترقی، خوشحالی اور امن سکون کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، تب ہی ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری اور سیاحت ہو گی، کارخانے لگیں گے ، روزگار بڑھے گا ، غربت دور ہوگی، مزدور خوشحال ہوگا' ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا ، ملکی قرض اتارنے میں مدد ملے گی ، روپیہ مضبوط ہوگا، سکون سے معدنیات کی تلاش ہوسکے گی۔
ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ریاستی اداروں کا کردار بہت اہم ہے یہ سیاسی حکومتوں کی کامیابی میں جتنا متحرک ہوں ملک ترقی میں اتنا آگے بڑھتا ہے، ملک میں انتشار پیدا کرنے والے بیانات، تحریکوں، دھرنوں اور آئے دن سڑکوں کی بندش کو ختم ہونا چاہیے ' جمہوری عمل کو شائستگی اور تحمل سے آگے بڑھایا جائے، سیاسی جماعتوں کو جمہوری سوچ پیدا کرنی ہوگی' نفرت ،گالم گلوچ، دھوکا دہی، جھوٹ و فریب کو ختم کرنا ہوگا۔ خود پسندیدگی اپنے علاوہ سب کو کرپٹ سمجھنے کی روش سے جان چھڑانی ہوگی، دینی و سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
اگر سیاسی استحکام اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آتا ہے تو ملکی معیشت میں بھی بہتری پیدا ہو جائے گی اور صنعتکار و سرمایہ دار اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اپنے سرمایہ کو مزید استعمال میں لائیں گے انھیں مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی تو جہاں سرمایہ دار کے لیے اپنی آمدنی میں اضافے کے ذرایع پیدا ہوں گے وہاں دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
مزدورکی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام سے زیادہ صنعت دوست ماحول ضروری ہے ، اگر ان سیاسی لیڈران کو ملک و قوم کی فکر ہے،اگر معاشی ابتری سے نکلنا ہے، اگر قومی معیشت کو سری لنکا جیسی تباہی سے بچانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت میں نہیں بلکہ سیاست کی ہم آہنگی کی کوششوں سے کرنا ہو گا۔جب تک سیاسی جماعتیں ،سیاست کے معیاری رموز سے واقفیت اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل نہیں کرتیں، ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
ملک کی گھمبیر معاشی صورت حال میں بہتری لانے کے لیے حکومت پرائس کنٹرول اتھارٹی اور مسابقتی کمیشن کو بھرپور طریقے سے متحرک کرے تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا سدباب ہوسکے۔ اس میں روز مرہ کی اشیا خورونوش بھی ہیں اور صنعتی مصنوعات بھی۔ وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے۔ ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہئیں۔ تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے ۔ سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔
انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائیں۔ صدر اور وزیر اعظم سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے۔گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے۔ ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔
اسی لیے کسان کو کھاد ، بیج ، زرعی ادویات اور مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔ سوشل سیکیورٹی ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئربورڈ کو فعال کرنا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کو مناسب ریلیف مل سکے۔
موجودہ حکومتی معاشی نظریے کے مطابق معاشی عمل کو آزاد منڈی کی قوتوں کو طے کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر اپنے کاروباری مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں اور حکومت ان قوتوں کی کارکردگی میں مداخلت نہیں کرتی ، مگر موجودہ حالات میں غریب عوام جن معاشی مشکلات کا شکار ہیں وہ تقاضہ کرتے ہیں کہ مشکل ترین معاشی حالات میں عوام ہی نہیں بلکہ ملک کا کاروباری طبقہ اور بیوروکریسی بھی اپنا کردار ادا کرے۔
فقط چند برسوں کے لیے کارورباری طبقات کاروباری مفادات کے بجائے ملک اور قوم کے مفادات کے مطابق پالیسیاں بنائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوسکیں۔اس وقت ایک اہم مسئلہ پیڑولیم مصنوعات کی درآمد اور اس کے لیے زرمبادلہ کی ادائیگی کا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں بڑھتی قدر بھی ملک میں مہنگائی کا بنیادی سبب ہے ، مگر اس کی آڑ میں ہوس زر میں مبتلا کاروباری طبقات قیمتوں میں کئی گنا زیادہ اضافہ کردیتے ہیں ، جس سے مہنگائی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان معاملات کو سلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا۔
صوبہ پنجاب کا سیاسی اور آئینی بحران تین ماہ سے نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آرہی ہے، سیاسی معاملات جو پارلیمنٹ کے فورم پر حل کیے جاتے ہیں، وہ اب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان سے معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی ہے ، معاملہ جتنا طول پکڑ رہا ہے ، ملکی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
معاشی مسائل کا سارا بوجھ غریب عوام برداشت کرنے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔ موجودہ معاشی تنزلی کے نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، افراط زر ، شرح سود ، سود کی لاگت اور مالیاتی خسارہ معیشت کو متاثرکرنے والے عوامل میں شامل ہیں، اس وقت سرمایہ دار اور صنعت کار بھی اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں 43 سے 235 فیصد تک اضافے کی منظوری دیدی۔ فیصلے سے گھریلو اور دیگرکیٹیگریزکے صارفین متاثرہونگے،حکومت کو 660 ارب روپے کا اضافی ریونیوملے گا۔ای سی سی اجلاس میں یوٹیلیٹی اسٹورزپر آٹا ،خوردنی تیل اور چینی سستے داموں فراہم کرنے کے لیے سالانہ 54 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
اس وقت حکومت کہہ رہی ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیے بنا گزارا نہیں جب کہ روپے کی قدر میں گراؤٹ کے سبب انرجی سمیت تمام درآمدی اشیا مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ عوام خوراک کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں جب کہ صنعتی کساد بازاری سے روزگار کے مواقع بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ یوں سیاسی بحران، معیشت کو مکمل طور پہ اپنی لپیٹ میں لے چْکا ہے اس بحرانی کیفیت سے ملک کو نکالنا قومی سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج ہے ۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کا مالیاتی مؤقف اجناس کی قیمتوں، خاص طور پر تیل کی قیمتوں کے حوالے سے کمزور ہے اور اتار چڑھاؤ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور ایندھن کی سبسڈی کی وجہ سے آمدنی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
نتیجتاً یہ شدید معاشی عدم توازن کا سبب بنتا ہے، اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے مالیاتی فریم ورک اہم ہے ، مزید برآں درآمدی ایندھن کی لاگت میں اضافہ چاہے وہ بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی وجہ سے ہو یا روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے، یا دونوں کی وجہ سے ہو، یہ جی ڈی پی کو کم اور محصولات میں اضافے کو بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے۔ بجلی اور گیس کی مسلسل بندش سے صنعتوں میں پیداواری عمل متاثر اور مزدوروں کا روزگار چھن رہا ہے۔
اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ملک کا مزدور ہے جس کی مثال حالیہ کچھ دنوں میں دیکھنے میں آئی ہے ، جب کراچی کے کورنگی، لانڈھی صنعتی ایریا سے ہزاروں مزدوروں کو نوکری سے جبری طور پر فارغ کر دیا گیا ہے ، یہ صورتحال ملک کے دیگر شہروں کے صنعتی زون کی بھی ہے۔
اس وقت ہماری درآمدات ، بر آمدات سے دوگنا سے زیادہ ہے ، ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جسکی ساٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے،جنھیں روزگار کے مواقع چاہییں، ذرا سوچئے! ایک ایسا ملک جس کے جی ڈی پی کی شرح نمو چار فیصد کے قریب ہے وہ ملک اپنی ساٹھ فی صد سے زائد نوجوان آبادی کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے؟
کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے یہ بات زور دے کے کہی جا رہی ہے کہ فوری انتخابات کا انعقاد ہو ، مگر لگتا نہیں ہے کہ ان اختلافات کو انتخابات بھی ختم کر سکیں کیونکہ ہمارے ہاں انتخابات کے نتائج کو بھی نہ ماننے کا رواج ہے۔ اب ایک اور بات جو طول پکڑ چکی ہے وہ بیرونی مداخلت ہے،یہ بات بھی آگے چل کے نہایت خطرناک ہو جائے گی۔
ترقی، خوشحالی اور امن سکون کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، تب ہی ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری اور سیاحت ہو گی، کارخانے لگیں گے ، روزگار بڑھے گا ، غربت دور ہوگی، مزدور خوشحال ہوگا' ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا ، ملکی قرض اتارنے میں مدد ملے گی ، روپیہ مضبوط ہوگا، سکون سے معدنیات کی تلاش ہوسکے گی۔
ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ریاستی اداروں کا کردار بہت اہم ہے یہ سیاسی حکومتوں کی کامیابی میں جتنا متحرک ہوں ملک ترقی میں اتنا آگے بڑھتا ہے، ملک میں انتشار پیدا کرنے والے بیانات، تحریکوں، دھرنوں اور آئے دن سڑکوں کی بندش کو ختم ہونا چاہیے ' جمہوری عمل کو شائستگی اور تحمل سے آگے بڑھایا جائے، سیاسی جماعتوں کو جمہوری سوچ پیدا کرنی ہوگی' نفرت ،گالم گلوچ، دھوکا دہی، جھوٹ و فریب کو ختم کرنا ہوگا۔ خود پسندیدگی اپنے علاوہ سب کو کرپٹ سمجھنے کی روش سے جان چھڑانی ہوگی، دینی و سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
اگر سیاسی استحکام اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آتا ہے تو ملکی معیشت میں بھی بہتری پیدا ہو جائے گی اور صنعتکار و سرمایہ دار اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اپنے سرمایہ کو مزید استعمال میں لائیں گے انھیں مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی تو جہاں سرمایہ دار کے لیے اپنی آمدنی میں اضافے کے ذرایع پیدا ہوں گے وہاں دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
مزدورکی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام سے زیادہ صنعت دوست ماحول ضروری ہے ، اگر ان سیاسی لیڈران کو ملک و قوم کی فکر ہے،اگر معاشی ابتری سے نکلنا ہے، اگر قومی معیشت کو سری لنکا جیسی تباہی سے بچانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت میں نہیں بلکہ سیاست کی ہم آہنگی کی کوششوں سے کرنا ہو گا۔جب تک سیاسی جماعتیں ،سیاست کے معیاری رموز سے واقفیت اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل نہیں کرتیں، ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
ملک کی گھمبیر معاشی صورت حال میں بہتری لانے کے لیے حکومت پرائس کنٹرول اتھارٹی اور مسابقتی کمیشن کو بھرپور طریقے سے متحرک کرے تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا سدباب ہوسکے۔ اس میں روز مرہ کی اشیا خورونوش بھی ہیں اور صنعتی مصنوعات بھی۔ وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے۔ ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہئیں۔ تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے ۔ سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔
انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائیں۔ صدر اور وزیر اعظم سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے۔گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے۔ ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔
اسی لیے کسان کو کھاد ، بیج ، زرعی ادویات اور مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔ سوشل سیکیورٹی ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئربورڈ کو فعال کرنا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کو مناسب ریلیف مل سکے۔
موجودہ حکومتی معاشی نظریے کے مطابق معاشی عمل کو آزاد منڈی کی قوتوں کو طے کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر اپنے کاروباری مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں اور حکومت ان قوتوں کی کارکردگی میں مداخلت نہیں کرتی ، مگر موجودہ حالات میں غریب عوام جن معاشی مشکلات کا شکار ہیں وہ تقاضہ کرتے ہیں کہ مشکل ترین معاشی حالات میں عوام ہی نہیں بلکہ ملک کا کاروباری طبقہ اور بیوروکریسی بھی اپنا کردار ادا کرے۔
فقط چند برسوں کے لیے کارورباری طبقات کاروباری مفادات کے بجائے ملک اور قوم کے مفادات کے مطابق پالیسیاں بنائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوسکیں۔اس وقت ایک اہم مسئلہ پیڑولیم مصنوعات کی درآمد اور اس کے لیے زرمبادلہ کی ادائیگی کا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں بڑھتی قدر بھی ملک میں مہنگائی کا بنیادی سبب ہے ، مگر اس کی آڑ میں ہوس زر میں مبتلا کاروباری طبقات قیمتوں میں کئی گنا زیادہ اضافہ کردیتے ہیں ، جس سے مہنگائی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان معاملات کو سلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا۔