پھر ہڑبونگ کاہے کی ہے
پچھلے کئی ہفتوں سے اعلانات اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے کہ حکومت سے غریبوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی
LYON:
منیر نیازی کو اللہ تعالی آسودہ خاک رکھے، اس باکمال شاعر نے کئی ایسے حیران کن اشعار کہے جو ہماری سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے اسی صورت حال کے سامنے رکھ کر کہے گئے ہوں۔ ان کا ایک ایسا ہی شعر ہر چند سال بعد ہماری حالت پر عین فِٹ بیٹھتا ہے؛
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
زیادہ دور کیا جانا، جب سے نئی حکومت آئی ہے، ٹھہراؤ کے بجائے مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔ ایک پل کے لیے چین ہے نہ سکون، چاروں طرف ایک ہڑبونگ ہے۔ آج کا اخبار ہی لے لیجیے، ایک کے بعد ایک ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔
چند روز پہلے اعلان ہوا، صاحبو گھبرانا کیسا، پانچ لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، جو بد خواہ شور مچا رہے ہیں کہ دو تین ماہ میں گندم کا بحران پیدا ہونے والا ہے، وہ اپنی چتاؤنی اپنے پاس رکھیں۔ مگر یہ کیا ؟ پرسوں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گندم امپورٹ کا کنٹریکٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا مگر ساتھ ہی ٹریڈنگ کارپوریشن کو بھی کام پر لگایا کہ اس دوران پانچ نہ سہی تین لاکھ ٹن گندم امپورٹ کا نیا ٹینڈر جاری کرے۔ سمجھدار لوگ ہیں اعلان اور فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔
پچھلے کئی ہفتوں سے اعلانات اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے کہ حکومت سے غریبوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ ان کے لیے مہنگائی کا توڑ یوٹیلیٹی اسٹور پر آٹے، گھی، چینی ، خوردنی تیل وغیرہ پر سستے داموں دستیابی ہے۔ حکومت کا خزانہ خالی سہی مگر دل میں غریبوں کے درد کے لیے بہت جگہ ہے۔
اسی لیے حکومت نے ایک کے بعد ایک پیکیج دے کر غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ گو ایک طرف آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے لیے منت سماجت بھی جاری ہے مگر حکومت ایک ہاتھ لینے سے قبل ہی دوسرے ہاتھ سے دینے کو بے چین ہے۔ مگر یہ کیا؟ اسی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹے، چینی، گھی اور چینی پر ' فقط ' 54 ارب کی بھی سبسڈی کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
اسی اجلاس میں البتہ یہ فیصلہ آرام سے ہو گیا کہ یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں 43 سے 235% تک اضافہ کر دیا جائے۔ بقول ڈاکٹر مصدق آدھے گھریلو صارفین متاثر نہیں ہوں گے۔ موجودہ قیمتوں کی وجہ سے گیس کمپنیوں کو 165 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا تھا، لہٰذا ان کمپنیوں کو دیوالیے سے بچانے کے لیے حکومت نے صارفین سے 547 ارب روپے وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گیس کا سرکلر ڈیٹ جو 2018 میں 299 ارب روپے تھا،31 مارچ تک بڑھ کر 1,232 ارب روپے ہوگیا یعنی اپنی نسبتی عزیزہ بجلی سے تقریباً نصف۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے میں کیونکہ آئی ایم ایف کی شرط شامل تھی، اس لیے پہلے ہی نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 7.91 روپے فی یونٹ کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی اقتصادی کمیٹی اجلاس میں اس اضافے کی منظوری بھی ترنت دے دی گئی۔
ان فیصلوں سے اگر کسی بدخواہ کو یہ لگا کہ حکومت کٹھور دل ہے تو اس نے بالکل غلط اندازہ لگایا۔ حکومت پنجاب نے صوبے میں ایک سو یونٹس تک اوسط ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھرانوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طریقہ کار کیا ہوگا؟ کتنے گھرانے فائدہ اٹھائیں گے؟ کتنے عرصے تک یہ سہولت دستیاب رہے گی؟ کتنے ارب خزانے سے دیے جائیں گے؟ سب ابھی زیرِ غور اور منصوبہ بندی اسٹیج پر ہے مگر سیاست کم بخت بڑی ظام شئے ہے، مکمل ورکنگ نہ ہونے کے باوجود حکومت پنجاب نے اپنے تئیں اس انقلابی اقدام کا اعلان کر ڈالا کہ یکم جولائی سے یہ انقلاب زیرِ عمل سمجھا جائے۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ' اتفاق ' سے عین دو ہفتے بعد پنجاب میں ان بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم طے ہوگی۔ پی ٹی آئی نے دہائی دی کہ یہ فاؤل پلے ہے، یہ دورانِ الیکشن ایک طرح کی ترقیاتی اسکیم ہے، اسے واپس ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا تو حکومت پنجاب نے اس نیک کام کے اجراء میں دو ہفتے کی تاخیر کا پتھر اپنے دل پر رکھ کر اس پر عمل درآمد اس انتخابی معرکے کے عین اگلے دن یعنی 18 جولائی مقرر کر دیا ۔
اس سے قبل آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کرنے کے لیے ایک ماہ میں تین بار تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر ماہ لیوی کے نام پر اضافے کا فیصلہ بھی برقرار ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے ہو چکے مگر آئی ایم ایف کا دل ہے کہ نہیں پسیجا۔ مفتاح اسماعیل بے چارے تاریخ پہ تاریخ دے کر تھک گئے مگر آئی ایم ایف نہ مانا بلکہ ایک عدد نیا میمورنڈم پکڑا دیا۔
اب مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے معاہدے کی حتمی تاریخ دینے کے بجائے وعدہ فردا کی نوید سنا رہے کہ بہت جلد... آئی ایم ایف کے انکار و اقرار پر اب تو رانا ثناء اللہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیاہے کہ ان کے بقول ایک ارب ڈالرز کے لیے ناک کی لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں۔ عبدل کے بقول آئی ایم ایف یہ' اپوزیشن' پاکستان میں کرتا توتو اب تک رانا صاحب اپوزیشن کی طرح اس سے نمٹ چکے ہوتے !!
اس دوران مہنگائی کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اگلے دو ماہ مہنگائی بیس فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اسی لیے اسٹیٹ بینک نے دو روز قبل پالیسی ریٹس چودہ سال کی بلند ترین سطح تک بڑھا دیے ؛ یعنی 15% ۔ ابھی ہم ایسے سادہ دل اس پر فکر مند ہونے ہی والے تھے کہ مفتاح اسماعیل نے ایک اور نوید دے کر ہمیں شانت کر دیا کہ جلد ہی گھی 150 روپے سستا ہو جائے گا اور یہ کہ ہم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ قصہ مختصر اگر یہ سب ہنگامہ استحکام کی طرف لے جا رہا ہے تو پھر ہڑبونگ کاہے کی ہے ؟
منیر نیازی کو اللہ تعالی آسودہ خاک رکھے، اس باکمال شاعر نے کئی ایسے حیران کن اشعار کہے جو ہماری سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے اسی صورت حال کے سامنے رکھ کر کہے گئے ہوں۔ ان کا ایک ایسا ہی شعر ہر چند سال بعد ہماری حالت پر عین فِٹ بیٹھتا ہے؛
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
زیادہ دور کیا جانا، جب سے نئی حکومت آئی ہے، ٹھہراؤ کے بجائے مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔ ایک پل کے لیے چین ہے نہ سکون، چاروں طرف ایک ہڑبونگ ہے۔ آج کا اخبار ہی لے لیجیے، ایک کے بعد ایک ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔
چند روز پہلے اعلان ہوا، صاحبو گھبرانا کیسا، پانچ لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، جو بد خواہ شور مچا رہے ہیں کہ دو تین ماہ میں گندم کا بحران پیدا ہونے والا ہے، وہ اپنی چتاؤنی اپنے پاس رکھیں۔ مگر یہ کیا ؟ پرسوں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گندم امپورٹ کا کنٹریکٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا مگر ساتھ ہی ٹریڈنگ کارپوریشن کو بھی کام پر لگایا کہ اس دوران پانچ نہ سہی تین لاکھ ٹن گندم امپورٹ کا نیا ٹینڈر جاری کرے۔ سمجھدار لوگ ہیں اعلان اور فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔
پچھلے کئی ہفتوں سے اعلانات اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے کہ حکومت سے غریبوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ ان کے لیے مہنگائی کا توڑ یوٹیلیٹی اسٹور پر آٹے، گھی، چینی ، خوردنی تیل وغیرہ پر سستے داموں دستیابی ہے۔ حکومت کا خزانہ خالی سہی مگر دل میں غریبوں کے درد کے لیے بہت جگہ ہے۔
اسی لیے حکومت نے ایک کے بعد ایک پیکیج دے کر غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ گو ایک طرف آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے لیے منت سماجت بھی جاری ہے مگر حکومت ایک ہاتھ لینے سے قبل ہی دوسرے ہاتھ سے دینے کو بے چین ہے۔ مگر یہ کیا؟ اسی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹے، چینی، گھی اور چینی پر ' فقط ' 54 ارب کی بھی سبسڈی کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
اسی اجلاس میں البتہ یہ فیصلہ آرام سے ہو گیا کہ یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں 43 سے 235% تک اضافہ کر دیا جائے۔ بقول ڈاکٹر مصدق آدھے گھریلو صارفین متاثر نہیں ہوں گے۔ موجودہ قیمتوں کی وجہ سے گیس کمپنیوں کو 165 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا تھا، لہٰذا ان کمپنیوں کو دیوالیے سے بچانے کے لیے حکومت نے صارفین سے 547 ارب روپے وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گیس کا سرکلر ڈیٹ جو 2018 میں 299 ارب روپے تھا،31 مارچ تک بڑھ کر 1,232 ارب روپے ہوگیا یعنی اپنی نسبتی عزیزہ بجلی سے تقریباً نصف۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے میں کیونکہ آئی ایم ایف کی شرط شامل تھی، اس لیے پہلے ہی نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 7.91 روپے فی یونٹ کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی اقتصادی کمیٹی اجلاس میں اس اضافے کی منظوری بھی ترنت دے دی گئی۔
ان فیصلوں سے اگر کسی بدخواہ کو یہ لگا کہ حکومت کٹھور دل ہے تو اس نے بالکل غلط اندازہ لگایا۔ حکومت پنجاب نے صوبے میں ایک سو یونٹس تک اوسط ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھرانوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طریقہ کار کیا ہوگا؟ کتنے گھرانے فائدہ اٹھائیں گے؟ کتنے عرصے تک یہ سہولت دستیاب رہے گی؟ کتنے ارب خزانے سے دیے جائیں گے؟ سب ابھی زیرِ غور اور منصوبہ بندی اسٹیج پر ہے مگر سیاست کم بخت بڑی ظام شئے ہے، مکمل ورکنگ نہ ہونے کے باوجود حکومت پنجاب نے اپنے تئیں اس انقلابی اقدام کا اعلان کر ڈالا کہ یکم جولائی سے یہ انقلاب زیرِ عمل سمجھا جائے۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ' اتفاق ' سے عین دو ہفتے بعد پنجاب میں ان بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم طے ہوگی۔ پی ٹی آئی نے دہائی دی کہ یہ فاؤل پلے ہے، یہ دورانِ الیکشن ایک طرح کی ترقیاتی اسکیم ہے، اسے واپس ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا تو حکومت پنجاب نے اس نیک کام کے اجراء میں دو ہفتے کی تاخیر کا پتھر اپنے دل پر رکھ کر اس پر عمل درآمد اس انتخابی معرکے کے عین اگلے دن یعنی 18 جولائی مقرر کر دیا ۔
اس سے قبل آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کرنے کے لیے ایک ماہ میں تین بار تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر ماہ لیوی کے نام پر اضافے کا فیصلہ بھی برقرار ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے ہو چکے مگر آئی ایم ایف کا دل ہے کہ نہیں پسیجا۔ مفتاح اسماعیل بے چارے تاریخ پہ تاریخ دے کر تھک گئے مگر آئی ایم ایف نہ مانا بلکہ ایک عدد نیا میمورنڈم پکڑا دیا۔
اب مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے معاہدے کی حتمی تاریخ دینے کے بجائے وعدہ فردا کی نوید سنا رہے کہ بہت جلد... آئی ایم ایف کے انکار و اقرار پر اب تو رانا ثناء اللہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیاہے کہ ان کے بقول ایک ارب ڈالرز کے لیے ناک کی لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں۔ عبدل کے بقول آئی ایم ایف یہ' اپوزیشن' پاکستان میں کرتا توتو اب تک رانا صاحب اپوزیشن کی طرح اس سے نمٹ چکے ہوتے !!
اس دوران مہنگائی کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اگلے دو ماہ مہنگائی بیس فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اسی لیے اسٹیٹ بینک نے دو روز قبل پالیسی ریٹس چودہ سال کی بلند ترین سطح تک بڑھا دیے ؛ یعنی 15% ۔ ابھی ہم ایسے سادہ دل اس پر فکر مند ہونے ہی والے تھے کہ مفتاح اسماعیل نے ایک اور نوید دے کر ہمیں شانت کر دیا کہ جلد ہی گھی 150 روپے سستا ہو جائے گا اور یہ کہ ہم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ قصہ مختصر اگر یہ سب ہنگامہ استحکام کی طرف لے جا رہا ہے تو پھر ہڑبونگ کاہے کی ہے ؟