برطانوی فوج نے افغانستان میں 50 سے زائد غیر مسلح افراد کو قتل کیا بی بی سی
نشریاتی ادارے کے پروگرام ’پینوراما‘ میں اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے آپریشنز سے متعلق دستاویزات کا جائزہ لیا
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں 50 سے زائد قیدی اور غیر مسلح افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
نشریاتی ادارے کے پروگرام 'پینوراما' میں اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے آپریشنز سے متعلق دستاویزات کا جائزہ لیا۔ ایس اے ایس خصوصی آپریشنز میں استعمال ہونے والی ایک برطانوی ایلیٹ یونٹ ہے۔
بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایس اے ایس اسکواڈرن کے ساتھ خدمات انجام دینے والے متعدد افراد نے اقرار کیا کہ انہوں نے ایس اے ایس کے کارندوں کو 'رات کے چھاپوں کے دوران غیر مسلح لوگوں کو مارتے دیکھا'۔
سابق فوجیوں کے بیان کے مطابق ایک فرد کے قتل کو وقوعہ پر اے کے 47 اسالٹ رائفل رکھ کر جائز قرار دیا گیا تھا اور فورس کے اندر موجود کچھ افراد 'زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کی گنتی کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے'۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاکہ 'اندرونی ای میلز سے معلوم ہوا کہ اسپیشل فورسز کی اعلیٰ سطح کے افسران کو معلوم تھا کہ غیر قانونی ہلاکتوں پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن وہ ملٹری پولیس کو اطلاع دینے میں ناکام رہے'
بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 'ہو سکتا ہے کہ ایک ایس اے ای یونٹ نے 6 ماہ کے دورے میں 54 افراد کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا۔
برطانیہ کی خصوصی افواج کے سابق سربراہ جنرل سر مارک کارلٹن سمتھ کو 'غیر قانونی قتل کے بارے میں بریف کیا گیا تھا لیکن انہوں نے رائل ملٹری پولیس کو شواہد نہیں بھیجے تھے یہاں تک کہ جب آر ایم پی نے ایس اے ایس اسکواڈرن میں قتل کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
مذکورہ معاملے پر برطانونی وزارت دفاع نے کہا کہ بی بی سی کے پینوراما پروگرام میں 'محض الزامات کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے گئے جبکہ ان الزامات کی پہلے ہی مکمل چھان بین ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پروگرام میں لگائے گئے واقعات کی تحقیقات میں مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ وہ 'کسی بھی نئے ثبوت پر غور کرنے کے لیے تیار ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی'۔
نشریاتی ادارے کے پروگرام 'پینوراما' میں اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے آپریشنز سے متعلق دستاویزات کا جائزہ لیا۔ ایس اے ایس خصوصی آپریشنز میں استعمال ہونے والی ایک برطانوی ایلیٹ یونٹ ہے۔
بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایس اے ایس اسکواڈرن کے ساتھ خدمات انجام دینے والے متعدد افراد نے اقرار کیا کہ انہوں نے ایس اے ایس کے کارندوں کو 'رات کے چھاپوں کے دوران غیر مسلح لوگوں کو مارتے دیکھا'۔
سابق فوجیوں کے بیان کے مطابق ایک فرد کے قتل کو وقوعہ پر اے کے 47 اسالٹ رائفل رکھ کر جائز قرار دیا گیا تھا اور فورس کے اندر موجود کچھ افراد 'زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کی گنتی کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے'۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاکہ 'اندرونی ای میلز سے معلوم ہوا کہ اسپیشل فورسز کی اعلیٰ سطح کے افسران کو معلوم تھا کہ غیر قانونی ہلاکتوں پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن وہ ملٹری پولیس کو اطلاع دینے میں ناکام رہے'
بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 'ہو سکتا ہے کہ ایک ایس اے ای یونٹ نے 6 ماہ کے دورے میں 54 افراد کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا۔
برطانیہ کی خصوصی افواج کے سابق سربراہ جنرل سر مارک کارلٹن سمتھ کو 'غیر قانونی قتل کے بارے میں بریف کیا گیا تھا لیکن انہوں نے رائل ملٹری پولیس کو شواہد نہیں بھیجے تھے یہاں تک کہ جب آر ایم پی نے ایس اے ایس اسکواڈرن میں قتل کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
مذکورہ معاملے پر برطانونی وزارت دفاع نے کہا کہ بی بی سی کے پینوراما پروگرام میں 'محض الزامات کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے گئے جبکہ ان الزامات کی پہلے ہی مکمل چھان بین ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پروگرام میں لگائے گئے واقعات کی تحقیقات میں مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ وہ 'کسی بھی نئے ثبوت پر غور کرنے کے لیے تیار ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی'۔