سیاست میں گالم گلوچ کا کلچر
آمریت کے حامی جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے سیاست سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
سیاسی شعور کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ سیاست جمہوریت کا بنیادی جزو ہے، آمریت میں سیاست پر پابندی لگائی جاتی ہے،اس لیے سیاست سے نفرت جمہوریت سے نفرت کے مترادف ہے۔
آمریت کے حامی جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے سیاست سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیاست معاشرے کا ناسور ہے۔ تمام برائیوں کی جڑ سیاست ہی ہے۔ اس لیے سیاست کو ہی ختم کر دینا چاہیے لیکن سیاست کے دشمن اصل میں جمہوریت کے دشمن ہیں۔ سیاست کو گالی بنانے سے ملک میں جمہوریت نہیں آمریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
سیاست عام آدمی کو زبان دیتی ہے جب کہ آمریت عام آدمی کی آوا ز کو دباتی ہے۔ سیاست کو گالی دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جمہوریت اور سیاست کے ہی ثمرات ہیں کہ انھیں سیاست اور جمہور یت کو گالی دینے کی اجازت ہے جب کہ آمریت میں انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سیاست ہی عام آدمی کو اقتدار کے راستے فراہم کرتی ہے جب کہ آمریت میں عام آدمی کے لیے اقتدار کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ سیاست ہی عام آدمی کی آوازہوتی ہے۔
سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ سیاست میں تنقید کی اجازت ہے لیکن گالم گلوچ کو سیاست کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ گالم گلوچ سیاست کا مکروہ چہرہ ہے جس پر کسی بھی صورت فخر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیاست میں گالم گلوچ کو اظہا ر آزادی رائے کے سائے تلے پناہ دینا درست نہیں۔ میں سمجھتا ہوں گالم گلوچ کا کلچر بھی آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے اور جمہوریت کے دشمنوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع دیتا ہے۔
پاکستان میں بھی سیاست میں گالم گلوچ کے کلچر کو آمریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب جب پاکستان میں آمریت نے جمہوریت پر نقب لگائی ہے، سیاست میں گالم گلوچ اور عدم برداشت کے کلچر نے اس کی مدد کی ہے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت نے آمروں کو آمریت کا کھیل کھیلنے میں مدد دی ہے۔ عام آدمی کو سیاست سے متنفر کرنے کا سب سے آسان راستہ بے بنیاد الزام تراشیاں اورگالم گلوچ ہی ہے۔ تنقید اور گالم گلوچ کا فرق سمجھ آجائے تو معاشرہ تہذیب یافتہ اور مہذب کہلاتا ہے۔
سیاسی قیادت معاشرے کی سیاسی تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے۔ اچھی سیاسی قیادت ملک کو اچھی جمہوریت دیتی ہے۔ بری سیاسی قیادت معاشرے کو بری جمہوریت ہی دیتی ہے ۔ جب تک سیاسی قیادت تہذیب یا فتہ نہیں ہوگی تب تک سیاست تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتی۔ ایک دوسرے کا احترام سیاست کی بنیاد ہے۔ لیکن ہم نے گالم گلوچ کو سیاست کی بنیاد بنا دیا ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام ہی سیاست کہلاتی ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا ہی سیاست ہے۔
پارلیمنٹ کا وجود اس بات کی بنیاد ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی و نظریاتی اختلاف کے باوجود اکٹھے بیٹھیں اور ملک کا نظام چلائیں۔ ایک دوسرے کی بات اور تنقید برداشت کرنے کی تحریک و روایت پارلیمنٹ سے ملتی ہے۔ اختلاف کے ساتھ ساتھ تعاون کی راہ بھی پارلیمنٹ سے نکلتی ہے۔ اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے تعاون کرنا بھی سیاست ہے۔ اختلاف کے ساتھ ساتھ باہمی احترام کا کلچر بھی سیاست ہی سکھاتی ہے۔ اختلاف کے دائرہ اختیار کو بھی سیاست ہی طے کرتی ہے۔ اختلاف کو تہذیب کے دائرے میں رکھتے ہوئے تنقید کرنا ہی سیاست کا حسن ہے۔
آجکل پاکستان میں سیاست میں گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھتا نظر آرہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ماضی میں گالم گلوچ کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ گالم گلوچ سیاست کا خوبصورت چہرہ نہیں ہے۔
کل تک ایک دوسرے کو غدار کہنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غدار کہنا درست نہیں ہے کیونکہ سیاست میں غدار کہنے کے بعد بھی آپ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔ لوگ اسی اور نوے کی دہائی کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بری مثالوں کو دہرایا نہیں جاتا۔تب ایک دوسرے کو گالی دینے والوں کو پھر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پڑا تھا۔ اس لیے آج گالم گلوچ کی سیاست کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کل انھیں بھی ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
معاشرہ میں سیاسی شعور تہذیب کے دائرے میں ہی درست ہے۔ معاشرہ میں عدم برداشت کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو گالی دینا اچھی بات نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کے پیچھے لگ کر ایک دوسرے کو گالی دینا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ بھیرہ میں احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سیاست اور جمہوریت کا کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔ اس طرح گالم گلوچ معاشرے میں تناؤ اور عدم برداشت پیدا کرتا ہے، اس طرح اکٹھے رہنا مشکل ہوجائے گا۔
ہمیں ایک دوسرے کی نجی زندگی کا احترام کرنا ہوگا۔ احسن اقبال پر پاکستان کی کسی بھی عدالت میں کرپشن کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ ان پر ناروال اسپورٹس سٹی بنانے پر اختیارات کے غلط استعمال کا کیس ہے، اس میں کرپشن کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ احسن اقبال کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے خاندان نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور احسن اقبال سے معافی مانگ لی ہے، یہ اچھا رویہ ہے، غلطی کا احساس کرنا اور پھر معذرت کرنا ، ملک کے سیاسی کلچر کے لیے انتہائی ضروری ہے لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اس بدتمیزی اور گالم گلوچ کا دفاع کیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کے عام آدمی کو اب پاکستان کی سیاسی قیادت کو مجبو رکرنا چاہیے کہ وہ گالم گلوچ اور بد تمیزی کا کلچر ختم کریں۔بد تمیز ی اور گالم گلوچ کے رحجان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو بھی ایک مہم شروع کرنی چاہیے جس میں سیاسی و نظریاتی اختلاف کو گالم گلوچ اور بد تمیزی سے پاک کرنے پر زور دیا جائے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو گالم گلوچ اور بد تمیزی شروع ہوتی ہے۔ جب دلیل میں وزن نہ رہے تو گالم گلوچ سے وزن بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیاسی قیادت کو اس بات پر مجبورکرنا چاہیے کہ وہ اپنی بات دلیل سے کریں۔ اپنے بیانیے کو تہذیب کے دائرے میں بیان کریں۔اپنی سیاسی جماعت کے منشور پر بات کریں۔ جھوٹے الزامات پر قانون کی گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں سیاست کو گالم گلوچ اور جھوٹے الزامات سے پاک کرنے کے لیے ملک میں ہتک عزت کے مقدمات پربروقت کاروائی ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہماری عدلیہ ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ عدلیہ کا رخ کرنے کے بجائے خود ہی گالی کا جواب گالی سے دینے کر حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ایک خطرناک رحجان ہے۔ اس لیے میری اعلیٰ عدلیہ سے گزارش ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلے کے لیے راہ نکالی جائے تا کہ اگر کسی پر کوئی جھوٹا، بے بنیاد اور غلط الزام لگائے تو اسے قانون کی گرفت میں لایا جا سکے،ایسے کیس کا فیصلہ بھی جلد ہوسکے، جب سزا کو یقین ہوگا تو جھوٹے الزام لگنے بھی بند ہوجائیںگے اور گالم گلوچ کا کلچر بھی کم ہوگا۔ ورنہ یہ بڑھتا جائے گااور معاشرے میں نفاق بہت بڑھ جائے گا جو پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا۔
آمریت کے حامی جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے سیاست سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیاست معاشرے کا ناسور ہے۔ تمام برائیوں کی جڑ سیاست ہی ہے۔ اس لیے سیاست کو ہی ختم کر دینا چاہیے لیکن سیاست کے دشمن اصل میں جمہوریت کے دشمن ہیں۔ سیاست کو گالی بنانے سے ملک میں جمہوریت نہیں آمریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
سیاست عام آدمی کو زبان دیتی ہے جب کہ آمریت عام آدمی کی آوا ز کو دباتی ہے۔ سیاست کو گالی دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جمہوریت اور سیاست کے ہی ثمرات ہیں کہ انھیں سیاست اور جمہور یت کو گالی دینے کی اجازت ہے جب کہ آمریت میں انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سیاست ہی عام آدمی کو اقتدار کے راستے فراہم کرتی ہے جب کہ آمریت میں عام آدمی کے لیے اقتدار کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ سیاست ہی عام آدمی کی آوازہوتی ہے۔
سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ سیاست میں تنقید کی اجازت ہے لیکن گالم گلوچ کو سیاست کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ گالم گلوچ سیاست کا مکروہ چہرہ ہے جس پر کسی بھی صورت فخر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیاست میں گالم گلوچ کو اظہا ر آزادی رائے کے سائے تلے پناہ دینا درست نہیں۔ میں سمجھتا ہوں گالم گلوچ کا کلچر بھی آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے اور جمہوریت کے دشمنوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع دیتا ہے۔
پاکستان میں بھی سیاست میں گالم گلوچ کے کلچر کو آمریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب جب پاکستان میں آمریت نے جمہوریت پر نقب لگائی ہے، سیاست میں گالم گلوچ اور عدم برداشت کے کلچر نے اس کی مدد کی ہے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت نے آمروں کو آمریت کا کھیل کھیلنے میں مدد دی ہے۔ عام آدمی کو سیاست سے متنفر کرنے کا سب سے آسان راستہ بے بنیاد الزام تراشیاں اورگالم گلوچ ہی ہے۔ تنقید اور گالم گلوچ کا فرق سمجھ آجائے تو معاشرہ تہذیب یافتہ اور مہذب کہلاتا ہے۔
سیاسی قیادت معاشرے کی سیاسی تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے۔ اچھی سیاسی قیادت ملک کو اچھی جمہوریت دیتی ہے۔ بری سیاسی قیادت معاشرے کو بری جمہوریت ہی دیتی ہے ۔ جب تک سیاسی قیادت تہذیب یا فتہ نہیں ہوگی تب تک سیاست تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتی۔ ایک دوسرے کا احترام سیاست کی بنیاد ہے۔ لیکن ہم نے گالم گلوچ کو سیاست کی بنیاد بنا دیا ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام ہی سیاست کہلاتی ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا ہی سیاست ہے۔
پارلیمنٹ کا وجود اس بات کی بنیاد ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی و نظریاتی اختلاف کے باوجود اکٹھے بیٹھیں اور ملک کا نظام چلائیں۔ ایک دوسرے کی بات اور تنقید برداشت کرنے کی تحریک و روایت پارلیمنٹ سے ملتی ہے۔ اختلاف کے ساتھ ساتھ تعاون کی راہ بھی پارلیمنٹ سے نکلتی ہے۔ اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے تعاون کرنا بھی سیاست ہے۔ اختلاف کے ساتھ ساتھ باہمی احترام کا کلچر بھی سیاست ہی سکھاتی ہے۔ اختلاف کے دائرہ اختیار کو بھی سیاست ہی طے کرتی ہے۔ اختلاف کو تہذیب کے دائرے میں رکھتے ہوئے تنقید کرنا ہی سیاست کا حسن ہے۔
آجکل پاکستان میں سیاست میں گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھتا نظر آرہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ماضی میں گالم گلوچ کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ گالم گلوچ سیاست کا خوبصورت چہرہ نہیں ہے۔
کل تک ایک دوسرے کو غدار کہنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غدار کہنا درست نہیں ہے کیونکہ سیاست میں غدار کہنے کے بعد بھی آپ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔ لوگ اسی اور نوے کی دہائی کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بری مثالوں کو دہرایا نہیں جاتا۔تب ایک دوسرے کو گالی دینے والوں کو پھر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پڑا تھا۔ اس لیے آج گالم گلوچ کی سیاست کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کل انھیں بھی ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
معاشرہ میں سیاسی شعور تہذیب کے دائرے میں ہی درست ہے۔ معاشرہ میں عدم برداشت کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو گالی دینا اچھی بات نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کے پیچھے لگ کر ایک دوسرے کو گالی دینا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ بھیرہ میں احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سیاست اور جمہوریت کا کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔ اس طرح گالم گلوچ معاشرے میں تناؤ اور عدم برداشت پیدا کرتا ہے، اس طرح اکٹھے رہنا مشکل ہوجائے گا۔
ہمیں ایک دوسرے کی نجی زندگی کا احترام کرنا ہوگا۔ احسن اقبال پر پاکستان کی کسی بھی عدالت میں کرپشن کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ ان پر ناروال اسپورٹس سٹی بنانے پر اختیارات کے غلط استعمال کا کیس ہے، اس میں کرپشن کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ احسن اقبال کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے خاندان نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور احسن اقبال سے معافی مانگ لی ہے، یہ اچھا رویہ ہے، غلطی کا احساس کرنا اور پھر معذرت کرنا ، ملک کے سیاسی کلچر کے لیے انتہائی ضروری ہے لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اس بدتمیزی اور گالم گلوچ کا دفاع کیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کے عام آدمی کو اب پاکستان کی سیاسی قیادت کو مجبو رکرنا چاہیے کہ وہ گالم گلوچ اور بد تمیزی کا کلچر ختم کریں۔بد تمیز ی اور گالم گلوچ کے رحجان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو بھی ایک مہم شروع کرنی چاہیے جس میں سیاسی و نظریاتی اختلاف کو گالم گلوچ اور بد تمیزی سے پاک کرنے پر زور دیا جائے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو گالم گلوچ اور بد تمیزی شروع ہوتی ہے۔ جب دلیل میں وزن نہ رہے تو گالم گلوچ سے وزن بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیاسی قیادت کو اس بات پر مجبورکرنا چاہیے کہ وہ اپنی بات دلیل سے کریں۔ اپنے بیانیے کو تہذیب کے دائرے میں بیان کریں۔اپنی سیاسی جماعت کے منشور پر بات کریں۔ جھوٹے الزامات پر قانون کی گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں سیاست کو گالم گلوچ اور جھوٹے الزامات سے پاک کرنے کے لیے ملک میں ہتک عزت کے مقدمات پربروقت کاروائی ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہماری عدلیہ ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ عدلیہ کا رخ کرنے کے بجائے خود ہی گالی کا جواب گالی سے دینے کر حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ایک خطرناک رحجان ہے۔ اس لیے میری اعلیٰ عدلیہ سے گزارش ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کے جلد فیصلے کے لیے راہ نکالی جائے تا کہ اگر کسی پر کوئی جھوٹا، بے بنیاد اور غلط الزام لگائے تو اسے قانون کی گرفت میں لایا جا سکے،ایسے کیس کا فیصلہ بھی جلد ہوسکے، جب سزا کو یقین ہوگا تو جھوٹے الزام لگنے بھی بند ہوجائیںگے اور گالم گلوچ کا کلچر بھی کم ہوگا۔ ورنہ یہ بڑھتا جائے گااور معاشرے میں نفاق بہت بڑھ جائے گا جو پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا۔