بڑے لوگ۔ بڑی باتیں
معاشرتی بگاڑ میں یہ جدید برقی آلہ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے
دنیا میں ترقی کے پیمانے مختلف ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ ان میںتبدیلیاں اور جدت آرہی ہے۔ باہمی رابطے کی بات کی جائے تو زیادہ وقت نہیں گزرا جب دنیا میںمعلومات کے ذرایع بہت محدود تھے اور معلومات کا تبادلہ ایک دقت طلب معاملہ ہوتا تھالیکن جدید دنیا میں سوشل میڈیانے انقلاب برپا کر دیا ہے جہاں رابطوں میں آسانی ہوئی ہے وہیں پر غیرذمے دارانہ گفتگو اورغیر مصدقہ خبروںکی صورت میں افواہوں کا ایک طوفان موبائل فون کی صورت میں ہمارے ہاتھ پہنچ چکا ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ میں یہ جدید برقی آلہ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے۔ لیکن اگر اس کی افادیت کی بات کی جائے تو معلومات اورعلم میں اضافے کے لیے مفید اور مثبت تحریریوں تک بھی ہماری رسائی آسان ہو چکی ہے اور ایسی تحریریں بھی ہم تک پہنچ رہی ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا پسند کرتے ہیں۔ آج قارئین کے مطالعہ کے لیے سوشل میڈیا سے حاصل کردہ چند تحریریں پیش خدمت ہیں۔
آیت اﷲ خمینیسیکسی نے سوال کیا کہ اس مغرب زدہ معاشریمیں کس بنیاد پر آپ اسلامی انقلاب لانے کی توقع رکھتے ہیں توان کا جواب تھا کہ آج جھولے میںلیٹا ہوا بچہ میری امید کی کرن ہے تو پھر دنیا نے دیکھا آیت اﷲکی سپاہ نے انقلاب برپا کر دیا۔ پاکستان میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، نوجوان نسل نے ملکی سیاست میں انقلاب کی داغ بیل ڈال دی ہے اور ایک نیا طرز سیاست منظر عام پر آیا ہے اسے اتفاق یا اختلاف کرنا ہم سب کی اپنی اپنی پسند ہے۔
کسی صوبائی سیکریٹری کے حوالے سیایکپوسٹ کچھ یوں ہے۔ایک کسان نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بٹیرے پکڑ لیے، اس نے سوچا خود اُس نے اِن بٹیروں کا کیا کرنا ہے کیوں نہ یہ سب سے بڑے اور با اثر افسر کو تحفے میں دیے جائیں۔ اب بھلا ایک کسان کے لیے پٹواری سے بڑا افسر کون ہو سکتا تھا اور پھر کسان کو پٹواری سے کام بھی پڑتا تھا تو وہ چل پڑا کہ چل کے پٹواری صاحب کو خوش کرتے ہیں۔
پٹواری کے گھر کے باہر پہنچ کر کسان نے باہر سے ہی آواز دی، پٹواری صاحب! پٹواری نے جواب دیا ، ہاں اوئے رحمیاں، کی گل اے ۔کسان نے پوچھا، بٹیرے کھا لیندے او؟ (اسی دوران ایک ستم ظریف جو پاس سے گزر رہا تھا، اس نے آہستہ سے کسان کے کان میں بتا دیا کہ پٹواری کا تبادلہ ہو گیا ہے) پٹواری خوشی سے بولا: آہو کھا لینے آں! کسان بولا، چنگافیر پھڑیا کرو تے کھایا کرو!!
حاصل کلام یہ ہے کہ پٹواری ہو، ڈی پی او ہو، کمشنر ہو، کلکٹر ہو، سیکریٹری ہو، یا صدر پاکستان ہو، سب کرسی پر بیٹھنے تک بادشاہ ہیں ورنہ خود ہی پھڑنا پڑتا اور خود ہی کھانا پڑتا ہے۔
بکریاں پالنے والے ایکچرواہے سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو۔ اس نے کہا، میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے ۔ مگر سوال پوچھنے والے نے جب بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں،جب اس نے چرواہے سے تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اس کاجو جواب تھا، وہ کمال کا تھا اور اس کا وہی ایک جملہ دراصل کامیاب ہونے کا بہت بڑانسخہ ہے۔ چرواہینے کہا کہ بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں، ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں، اس لیے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی۔
یہ تیرہویں بکری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لیے باعث خیر وبرکت ہے۔ یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے گلہ بان کا یہ جملہ ایک طرف۔مجھے وہ بات ان پڑھ سادہ لوح گلہ بان کامیابی کا وہ فلسفہ آسانی سے سمجھا گیا جواکنامکس اورکامرس کی موٹی موٹی کتابیں مجھے نہ سمجھا سکیں۔اِمام المُتقین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے ،'' لوگ رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ یہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔ ''
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور قدرے جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔ میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کریںگے لیکن انھوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج اسکول میں میرادن کیسا گزرا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی۔ میرے والد نے کہا ،کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا۔
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟ انھوں نے پیار سے مجھے جواب دیا، ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذباتمجروح کر دیتے ہے۔ میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے اردگرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرناہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ میں یہ جدید برقی آلہ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے۔ لیکن اگر اس کی افادیت کی بات کی جائے تو معلومات اورعلم میں اضافے کے لیے مفید اور مثبت تحریریوں تک بھی ہماری رسائی آسان ہو چکی ہے اور ایسی تحریریں بھی ہم تک پہنچ رہی ہیں جن کو ہم دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا پسند کرتے ہیں۔ آج قارئین کے مطالعہ کے لیے سوشل میڈیا سے حاصل کردہ چند تحریریں پیش خدمت ہیں۔
آیت اﷲ خمینیسیکسی نے سوال کیا کہ اس مغرب زدہ معاشریمیں کس بنیاد پر آپ اسلامی انقلاب لانے کی توقع رکھتے ہیں توان کا جواب تھا کہ آج جھولے میںلیٹا ہوا بچہ میری امید کی کرن ہے تو پھر دنیا نے دیکھا آیت اﷲکی سپاہ نے انقلاب برپا کر دیا۔ پاکستان میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، نوجوان نسل نے ملکی سیاست میں انقلاب کی داغ بیل ڈال دی ہے اور ایک نیا طرز سیاست منظر عام پر آیا ہے اسے اتفاق یا اختلاف کرنا ہم سب کی اپنی اپنی پسند ہے۔
کسی صوبائی سیکریٹری کے حوالے سیایکپوسٹ کچھ یوں ہے۔ایک کسان نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بٹیرے پکڑ لیے، اس نے سوچا خود اُس نے اِن بٹیروں کا کیا کرنا ہے کیوں نہ یہ سب سے بڑے اور با اثر افسر کو تحفے میں دیے جائیں۔ اب بھلا ایک کسان کے لیے پٹواری سے بڑا افسر کون ہو سکتا تھا اور پھر کسان کو پٹواری سے کام بھی پڑتا تھا تو وہ چل پڑا کہ چل کے پٹواری صاحب کو خوش کرتے ہیں۔
پٹواری کے گھر کے باہر پہنچ کر کسان نے باہر سے ہی آواز دی، پٹواری صاحب! پٹواری نے جواب دیا ، ہاں اوئے رحمیاں، کی گل اے ۔کسان نے پوچھا، بٹیرے کھا لیندے او؟ (اسی دوران ایک ستم ظریف جو پاس سے گزر رہا تھا، اس نے آہستہ سے کسان کے کان میں بتا دیا کہ پٹواری کا تبادلہ ہو گیا ہے) پٹواری خوشی سے بولا: آہو کھا لینے آں! کسان بولا، چنگافیر پھڑیا کرو تے کھایا کرو!!
حاصل کلام یہ ہے کہ پٹواری ہو، ڈی پی او ہو، کمشنر ہو، کلکٹر ہو، سیکریٹری ہو، یا صدر پاکستان ہو، سب کرسی پر بیٹھنے تک بادشاہ ہیں ورنہ خود ہی پھڑنا پڑتا اور خود ہی کھانا پڑتا ہے۔
بکریاں پالنے والے ایکچرواہے سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو۔ اس نے کہا، میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے ۔ مگر سوال پوچھنے والے نے جب بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں،جب اس نے چرواہے سے تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اس کاجو جواب تھا، وہ کمال کا تھا اور اس کا وہی ایک جملہ دراصل کامیاب ہونے کا بہت بڑانسخہ ہے۔ چرواہینے کہا کہ بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں، ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں، اس لیے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی۔
یہ تیرہویں بکری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لیے باعث خیر وبرکت ہے۔ یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے گلہ بان کا یہ جملہ ایک طرف۔مجھے وہ بات ان پڑھ سادہ لوح گلہ بان کامیابی کا وہ فلسفہ آسانی سے سمجھا گیا جواکنامکس اورکامرس کی موٹی موٹی کتابیں مجھے نہ سمجھا سکیں۔اِمام المُتقین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے ،'' لوگ رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ یہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔ ''
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور قدرے جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔ میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کریںگے لیکن انھوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج اسکول میں میرادن کیسا گزرا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی۔ میرے والد نے کہا ،کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا۔
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟ انھوں نے پیار سے مجھے جواب دیا، ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذباتمجروح کر دیتے ہے۔ میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے اردگرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرناہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔