بچوں کی طرح سوچنے والا مصنوعی ذہانت کا ماڈل تیار
مصنوعی ذہانت کے ڈِیپ لرننگ سسٹم فطری طبعیات کو سیکھ سکتے ہیں
کراچی:
انسانوں کے مشابہ مصنوعی ذہانت کا نظام بنانا کمپیوٹر سائنس کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔لیکن اب محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی مصنوعی ذہانت تشکیل دی ہے جس کو طبعی دنیا کے بنیادی اصول سِکھا دیے جائیں تو وہ بچوں کی طرح سوچ سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ڈِیپ لرننگ سسٹم فطری طبعیات کو سیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ عام سمجھ بوجھ کے اصول ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبعی دنیا میں اشیاء کیسے کام کرتی ہیں۔
تجربوں میں محققین نے پلیٹو نامی نئے نظام کی حرکت کرتی گیندوں کی اینیمیٹڈ سلائیڈز سے تربیت کی۔
بصری اینی میشن کے چھوٹے سے سیٹ سے سدھائے جانے کے بعد پلیٹو جو سیکھا اس کے اظہار کے قابل تھا، یہاں تک کہ اگر سلائیڈز میں ہلتی گیندیں کسی ناممکن طریقے سے ہلتیں تو وہ حیران بھی ہوتا۔
یہ نئی تحقیق نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج لندن اور گوگل کی ایک کمپنی ڈِیپ مائنڈ کے محققین نے کی جو نیچر ہیومن بیہیویر میں شائع کی گئی۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے نتائج ایسے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز بنانے کےلیے اہم ہیں جن میں انسانوں کی سمجھ جیسی سمجھ ہو۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر لوئس ایس پِلوٹو کا کہنا تھا کہ طبعی دنیا کی سمجھ ایک اہم قابلیت ہے جو لوگ بغیر کسی محنت کےاستعمال میں لا رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ البتہ مصنوعی ذہانت کے لیے یہ ابھی تک ایک مسئلہ ہے۔ اگر ہم حقیقی دنیا میں ایسے مددگار نظام تعین کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ان ماڈلز کے ساتھ اپنی طبعی دنیا کی فطری حس شیئر کرنی ہوگی۔
انسانوں کے مشابہ مصنوعی ذہانت کا نظام بنانا کمپیوٹر سائنس کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔لیکن اب محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی مصنوعی ذہانت تشکیل دی ہے جس کو طبعی دنیا کے بنیادی اصول سِکھا دیے جائیں تو وہ بچوں کی طرح سوچ سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ڈِیپ لرننگ سسٹم فطری طبعیات کو سیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ عام سمجھ بوجھ کے اصول ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبعی دنیا میں اشیاء کیسے کام کرتی ہیں۔
تجربوں میں محققین نے پلیٹو نامی نئے نظام کی حرکت کرتی گیندوں کی اینیمیٹڈ سلائیڈز سے تربیت کی۔
بصری اینی میشن کے چھوٹے سے سیٹ سے سدھائے جانے کے بعد پلیٹو جو سیکھا اس کے اظہار کے قابل تھا، یہاں تک کہ اگر سلائیڈز میں ہلتی گیندیں کسی ناممکن طریقے سے ہلتیں تو وہ حیران بھی ہوتا۔
یہ نئی تحقیق نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج لندن اور گوگل کی ایک کمپنی ڈِیپ مائنڈ کے محققین نے کی جو نیچر ہیومن بیہیویر میں شائع کی گئی۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے نتائج ایسے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز بنانے کےلیے اہم ہیں جن میں انسانوں کی سمجھ جیسی سمجھ ہو۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر لوئس ایس پِلوٹو کا کہنا تھا کہ طبعی دنیا کی سمجھ ایک اہم قابلیت ہے جو لوگ بغیر کسی محنت کےاستعمال میں لا رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ البتہ مصنوعی ذہانت کے لیے یہ ابھی تک ایک مسئلہ ہے۔ اگر ہم حقیقی دنیا میں ایسے مددگار نظام تعین کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ان ماڈلز کے ساتھ اپنی طبعی دنیا کی فطری حس شیئر کرنی ہوگی۔