مون سون بارشیں اور کورونا کا پھیلاؤ

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔ فوٹو: فائل

LONDON:
ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، ان بارشوں کے نتیجے میںوسیع پیمانے پرنقصانات ہوئے ہیں ، انسانی جان ومال کا ضیاع ہورہا ہے ، بلوچستان ، خیبرپختون خوا شدید متاثر ہوئے ہیں ، کراچی ایک بار اربن فلڈنگ کا شکار ہوچکا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے ، بارش سے قبل تیز ہواؤں چلنے کے امکانات موجود ہیں، جس سے درخت اکھڑ سکتے ہیں جب کہ کمزور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق تمام وفاقی، صوبائی وزارتوں، ان کے ماتحت متعلقہ اداروں بشمول صوبائی، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور ضلع ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور بر وقت و پیشگی اقدامات اٹھانے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

دوسری جانب ماہرین صحت نے کوروناکی شرح میں ایک بار پھر اضافے پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نئی لہر آ سکتی ہے، عوام احتیاط کریں اور این سی او سی کی جانب سے جاری ہدایات پر عمل کریں، ماہرین صحت کے مطابق عید کے موقع پر اور بعد میں تقریبات زیادہ ہوتی ہیں،اور ان میں ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیے خدشہ ہے کہ کورونا ایک بار پھر پھیلے گا۔

چونکہ پاکستان میں کوروناکی لہر بڑھ رہی ہے، این سی او سی کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے، کورونا سے بچاؤ کے لیے این سی او سی کی جانب سے گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں، کورونا سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن لازمی قرار دی گئی ہے تو وہیں عوامی مقامات پر ماسک کا استعمال بھی لازمی قرار دیا گیا ہے،شہر قائد کراچی میں بھی کوروناکیسز بڑھ رہے ہیں،لاہور میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔

سیکریٹری صحت پنجاب کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب میں کورونا کے 101، لاہور میں 92 اور راولپنڈی میں 5 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے۔یہ وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے کہ پاکستانی عوام شعور وفہم وفراست کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ، ایس او پیز پر عمل کریں ، تاکہ کورونا کا پھیلاؤ رک سکے ۔

جنوبی ایشیا کی مون سون بارشیں مقامی موسمی صورتحال کے زیر اثر نہیں بلکہ عالمی موسمی صورتحال کے زیر اثر ہوتی ہیں، اگر بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم ہو تو جنوبی ایشیا میں بارشیں اوسط سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم چل رہا ہے۔

اسی طرح بحر ہند کا درجہ حرارت بھی اثر انداز ہوتا ہے، وہاں پر اگر درجہ حرارت معمول پر ہو تو بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت وہاں پر درجہ حرارت معمول پر ہے۔ملک میں تین ماہ تک جاری رہنے والے مون سون سیزن کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، جس میں پہلا حصہ جو کہ قبل از وقت شروع ہو چکا ہے 15 اگست تک چلے گا جب کہ دوسرا حصہ 16 اگست سے لے کر 30 ستمبر تک جاری رہے گا۔ 15اگست تک بارشوں کا سلسلہ زیادہ رہے گا جس دوران بارشوں کے متعدد اسپیل وقفے وقفے سے ہو سکتے ہیں۔کراچی سمیت سندھ بھر میں اگلے تین سے چار دن میں اچھی بارشیں متوقع ہیں۔

بارش کو باران رحمت کہا جاتا ہے ، یہ نعمت خداوندی ہے ، یہ زمین کی پیاس بجھاتی ہے ، کھیت کھلیان کو سرسبز وشاداب کرتی ہے ، اور انسانوں ، نباتات ، حیوانات کے لیے زندہ رہنے کا وسیلہ ہے ،لیکن مقام افسوس ہے کہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں جو پانی ہمیں حاصل ہوتا ہے،وہ سارا ضایع ہوجاتا ہے ۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرتا ہے جب کہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔


پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے، پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔ہر سال ضایع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں، دوسری جانب ہم بھارت کی آبی جارحیت کا شکار ہوچکے ہیں۔

ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بارشیں یا تو بہت کم ہوتی ہیں یا پھر بہت زیادہ بارشوں سے سیلاب آجاتے ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان آنے والے دریاؤں پر سیکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرلیے اور اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ بھارتی سپریم کورٹ سے پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کا بھی فیصلہ لے لیا۔

اسی تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اور اس وقت ہم آبی قلت کے بحران کے دہانے تک آپہنچے ہیں۔ اس بحران میں بھارتی سازشوں کے علاوہ اپنی بے تدبیری کا بھی عمل دخل ہے جس سے پانی کی قلت کابحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔

آبی وسائل کو صحیح طور پر سمجھنا اور اس کے استعمال اور زیاں سے ملکی سطح پر بچنا اور اس کی پالیسیاں وضع کرنے کے لیے ان مسائل اور ان کے تمام عوامل کو صحیح طور پر سمجھنا ضروری ہے۔ آنے والے وقت میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنی ہوگی اور اس کے لیے اپنی زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا اور صحیح فصلوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔

ہمیں اپنے ملک کی Water Productivity کو بڑھانا ہوگا۔اس کے لیے نہ صرف آبی ماہرین بلکہ ماحولیاتی اور حیاتیاتی ماہرین کی آراء بھی اہم ہیں۔ کیوں کہ آبی وسائل نہ صرف زراعت اور بجلی کے لیے ضروری ہیں بلکہ انسان اور فطرت پر دارومدار رکھنے والی تمام حیاتیاتی انواع جیسے جنگلات، سمندری حیات اور وہ تمام چیزیں جن پر انسان کا دارومدار ہے کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ ان کا صحیح حصہ ان کو مل سکے۔2021کی عالمی رپورٹ کے مطابق دنیاء میں قریباً36ممالک ایسے ہیں کہ جو آبی قلت کا سامناجلد یا بدیر کرسکتے ہیں اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے قیام کے وقت پانی کی دستیابی 5000کیوبک میٹربلحاظ حجم تھی جو اب کم ہوتے ہوتے 1000کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ آبی ماہرین کا خیال ہے کہ 2025تک پانی کی دستیابی 500کیوبک میٹر ہوجائے گی اورملک شدید ترین آبی قلت کا سامنا کریگا۔ بلوچستان میں پانی کی شدید قلت کو حساس مسئلہ سمجھ کر اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوںگے اور وسیع پیمانے پر ڈیمز تعمیر کرنے ہوںگے تب ہی جاکر بلوچستان میں پانی کی قلت کے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔

پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے بڑھتی ہوئی آبی جارحیت کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔کشمیر پر قابض ہونے کی بدولت بھارت کو یہ اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے کہ وہ ہمارے دریاؤں پر ڈیم یا بیراج بنا کر ان کا رخ اپنے ملک کی طرف موڑ رہا ہے۔مثلاً بگلہار ڈیم، کشن گنگا اور رتلے ڈیم جیسے منصوبوں کے ذریعے۔ 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدہ کی مستقل خلاف ورزی جاری ہے جس کے تحت تین مشرقی دریاؤں(دریائے بیاس، راوی اور ستلج)کا پانی بھارت استعمال کرسکتا ہے اورتین مغربی دریاؤں (دریائے سندھ، چناب اور جہلم)کا پانی پاکستان استعمال کر سکتا ہے۔

لہٰذا آنے والے وقت میں پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہوگا جس سے نہ صرف عام لوگ متاثر ہوںگے بلکہ زراعت پر منحصر ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ قائداعظم کا یہ فرمان کہ ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے'' ان کی اس دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو انھوں نے اس وقت بھانپ لیا تھا کہ آنے والے وقت میں یہ تنازع ضرور کھڑا ہوگا اور بھارت کی جانب سے ہمارے آبی ذخائر پر ڈاکہ ڈالا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف عالمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں بارشوں اور برفباری کے پیٹرن بدل رہے ہیں لہٰذا مختلف ممالک میں خشک سالی یا بے موسمی بارشیں ہو رہی ہیں جو کہ فصلوں اور قدرتی حیات، جنگلات وغیرہ کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں اور پاکستان میں 80 فیصد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے اور دریاؤں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے۔ بلاشبہ ملک بھر میں پانی کے ذخائر میں کمی کے پیچھے ہماری حکومتوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیساں کارفرما ہیں، اگر پانی کے مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے وقتی اور قلیل المدتی حل تلاش کرلیے جاتے تو آج ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ عفریت کی شکل اختیار نہ کرتا۔
Load Next Story