ہماری مہربان لکشمی
سب کچھ مل گیا،مزے مزے کی حکومتیں ملیں، بڑے بڑے مجاہد ملے، ولولہ انگیزقیادت ملی
حضرت امیرمینائی پر زندگی میں ''دووقت'' کٹھن گزرے تھے ،
زندگی میں وقت مجھ پر دوہی گزرے کٹھن
ایک تیرے آنے سے ''پہلے''ایک تیرے جانے کے بعد
لیکن ہم کودوسوالوں نے بہت پریشان کیا ہوا ہے، ایک انگریزوں کے ''جانے کے بعد'' اور دوسرا، آئی ایم ایف کے ''آنے ''کے بعد۔پہلا سوال تو ہم اکثراپنے کالموں میں کرتے رہتے ہیں، اپنے آزوبازو اورپاس پڑوس کے دانا دانشوروں سے بھی کرتے رہتے ہیں،خصوصاً ان دانا دانشوروں سے جوآزادی اورخود مختاری کی قوالیاں گاگا کر ''عزیزمیاں'' اور فریدی برادران بن چکے ہیں کہ ظالم انگریز،فرنگی سامراج ہمارا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا۔ پھر ہم نے جدوجہد کی، قربانیاں دیں، ہزاروں جان کی اور خداکے فضل سے ہمیں آزادی کی نعمت مل گئی۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعاکے بعد
سب کچھ مل گیا،مزے مزے کی حکومتیں ملیں، بڑے بڑے مجاہد ملے، ولولہ انگیزقیادت ملی، فخر ایشا، قائد عوام ملا، مرد مومن ، مرد حق ملا، چاروں صوبوں کی زنجیرملی، کمانڈو ملا،سب پر بھاری ملا،قرض اتاروملک سنواروملا اور
زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا
میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
صادق وامین،امیرالمومینین،ریاست مدینہ کا داعی و علمبردار بھی ملااوراب نہ جانے کیاکیاملنے والاہے لیکن اس مال ومتاع کا پتہ نہیں چلا جو ظالم انگریز یہاں سے لے جارہے تھے۔
روتے روتے ہم تو تنہا ہوگئے
تم نہ جانے کس جہاں میں کھوگئے
ابھی تلاش بھی جاری ہے اورتفتیش بھی، اسی لیے اس سوال کوایک طرف کرکے دوسرے سوال پر آتے ہیں، یہ سوال اس ''دیو''کے بارے میں ہے جس نے نیلم پری کا لباس پہنا ہواہے یعنی لکشمی بائی،آئی ایم ایف جو ''الو''پر سواری کرتی ہے اورگدھوں پر باربرداری ۔وہ سوال جو ایک عرصے سے ہمارے دماغ میں دھواں دے رہاہے، یہ ہے کہ اس کی شرائط میں ہمیشہ عوام کاگلاکاٹنے کی شرائط کیوں شامل ہوتی ہیں۔
اس نے کبھی کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ میرے دیے ہوئے قرضے سے عوامی بہبود یامفاد کاکام کرو،حکومتی خواص کے اللے تللے پر یہ رقم مت اڑاو،کوئی ڈیم تعمیرکرو،کوئی صنعت قائم کرو،اسے بجلی گیس، پیٹرولیم وغیرہ پرسبسڈی تو کھٹکتی ہے لیکن انکم سپورٹ یافضول لنگرخانے اسے بالکل نہیں کھٹکتے، میرے انداز ے کے مطابق اب تک ان پیسوں سے کیا نہیں ہوسکتا،اگر اس سے صرف شمسی توانائی کے سسٹم کو آسان اور سستا بنایاگیاہوتاتو آدھے سے زیادہ گھروں میں شمسی توانائی ہوتی اوربجلی کے بارے میں یہ ہائے وائے نہ ہوتی۔
ہم اس سے ٹیوب ویلزاورصنعتیں بھی چلاتے ۔ہمارے ایک مرحوم دوست انجنیئر گلزار خان تھے جو محکمہ آبپاشی کے چیف انجنئیرتھے، انھوں نے کہا کہ انھوں نے تین بار اسلام آباد کو ایک تجویزبھیجی تھی جو رد ہوئی، اس میں پندرہ بجلی گھروں کامنصوبہ تھا جو خیبر پختو نخواہ اورشمالی علاقہ جات میں ممکن تھے بلکہ ہیں اوراگروہ پن بجلی گھر تعمیرہوجاتے تو ہمارے پاس اتنی بجلی ہوتی کہ پاس پڑوس کے ملکوں کو بھی برآمد کرتے اورپاکستان کی آمدنی کویت جیسی ہوجاتی۔
آئی ایم ایف نے کبھی یہ شرط نہیں رکھی کہ وزیروں، مشیروں وغیرہ کی فوج ظفرموج میں کمی کردو،سرکاری فضولیات کم کردو،عارضی اورسیاسی اسکیمیں بند کردو، جو دوسری حکومت میں بیکار ہوجاتی ہیں۔آئی ایم ایف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم زرعی ملک ہو،زراعت کو فروغ دوبلکہ اکثرایسی شرائط رکھتاہے جو زراعت کے لیے زہرقاتل ہوتی ہیں۔اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سوال کاجواب کس سے پوچھیں۔
کس سے پوچھیں کہ ''وصل'' میں کیاہے
''ہجر''میں کیانہیں جو تم سے کہیں
زندگی میں وقت مجھ پر دوہی گزرے کٹھن
ایک تیرے آنے سے ''پہلے''ایک تیرے جانے کے بعد
لیکن ہم کودوسوالوں نے بہت پریشان کیا ہوا ہے، ایک انگریزوں کے ''جانے کے بعد'' اور دوسرا، آئی ایم ایف کے ''آنے ''کے بعد۔پہلا سوال تو ہم اکثراپنے کالموں میں کرتے رہتے ہیں، اپنے آزوبازو اورپاس پڑوس کے دانا دانشوروں سے بھی کرتے رہتے ہیں،خصوصاً ان دانا دانشوروں سے جوآزادی اورخود مختاری کی قوالیاں گاگا کر ''عزیزمیاں'' اور فریدی برادران بن چکے ہیں کہ ظالم انگریز،فرنگی سامراج ہمارا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا۔ پھر ہم نے جدوجہد کی، قربانیاں دیں، ہزاروں جان کی اور خداکے فضل سے ہمیں آزادی کی نعمت مل گئی۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعاکے بعد
سب کچھ مل گیا،مزے مزے کی حکومتیں ملیں، بڑے بڑے مجاہد ملے، ولولہ انگیزقیادت ملی، فخر ایشا، قائد عوام ملا، مرد مومن ، مرد حق ملا، چاروں صوبوں کی زنجیرملی، کمانڈو ملا،سب پر بھاری ملا،قرض اتاروملک سنواروملا اور
زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا
میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
صادق وامین،امیرالمومینین،ریاست مدینہ کا داعی و علمبردار بھی ملااوراب نہ جانے کیاکیاملنے والاہے لیکن اس مال ومتاع کا پتہ نہیں چلا جو ظالم انگریز یہاں سے لے جارہے تھے۔
روتے روتے ہم تو تنہا ہوگئے
تم نہ جانے کس جہاں میں کھوگئے
ابھی تلاش بھی جاری ہے اورتفتیش بھی، اسی لیے اس سوال کوایک طرف کرکے دوسرے سوال پر آتے ہیں، یہ سوال اس ''دیو''کے بارے میں ہے جس نے نیلم پری کا لباس پہنا ہواہے یعنی لکشمی بائی،آئی ایم ایف جو ''الو''پر سواری کرتی ہے اورگدھوں پر باربرداری ۔وہ سوال جو ایک عرصے سے ہمارے دماغ میں دھواں دے رہاہے، یہ ہے کہ اس کی شرائط میں ہمیشہ عوام کاگلاکاٹنے کی شرائط کیوں شامل ہوتی ہیں۔
اس نے کبھی کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ میرے دیے ہوئے قرضے سے عوامی بہبود یامفاد کاکام کرو،حکومتی خواص کے اللے تللے پر یہ رقم مت اڑاو،کوئی ڈیم تعمیرکرو،کوئی صنعت قائم کرو،اسے بجلی گیس، پیٹرولیم وغیرہ پرسبسڈی تو کھٹکتی ہے لیکن انکم سپورٹ یافضول لنگرخانے اسے بالکل نہیں کھٹکتے، میرے انداز ے کے مطابق اب تک ان پیسوں سے کیا نہیں ہوسکتا،اگر اس سے صرف شمسی توانائی کے سسٹم کو آسان اور سستا بنایاگیاہوتاتو آدھے سے زیادہ گھروں میں شمسی توانائی ہوتی اوربجلی کے بارے میں یہ ہائے وائے نہ ہوتی۔
ہم اس سے ٹیوب ویلزاورصنعتیں بھی چلاتے ۔ہمارے ایک مرحوم دوست انجنیئر گلزار خان تھے جو محکمہ آبپاشی کے چیف انجنئیرتھے، انھوں نے کہا کہ انھوں نے تین بار اسلام آباد کو ایک تجویزبھیجی تھی جو رد ہوئی، اس میں پندرہ بجلی گھروں کامنصوبہ تھا جو خیبر پختو نخواہ اورشمالی علاقہ جات میں ممکن تھے بلکہ ہیں اوراگروہ پن بجلی گھر تعمیرہوجاتے تو ہمارے پاس اتنی بجلی ہوتی کہ پاس پڑوس کے ملکوں کو بھی برآمد کرتے اورپاکستان کی آمدنی کویت جیسی ہوجاتی۔
آئی ایم ایف نے کبھی یہ شرط نہیں رکھی کہ وزیروں، مشیروں وغیرہ کی فوج ظفرموج میں کمی کردو،سرکاری فضولیات کم کردو،عارضی اورسیاسی اسکیمیں بند کردو، جو دوسری حکومت میں بیکار ہوجاتی ہیں۔آئی ایم ایف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم زرعی ملک ہو،زراعت کو فروغ دوبلکہ اکثرایسی شرائط رکھتاہے جو زراعت کے لیے زہرقاتل ہوتی ہیں۔اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سوال کاجواب کس سے پوچھیں۔
کس سے پوچھیں کہ ''وصل'' میں کیاہے
''ہجر''میں کیانہیں جو تم سے کہیں