مشکل فیصلے اور آسان فیصلے
حکمرانوں کے پاس خدا کا دیا ہوا اور عوام سے چھینا ہوا، سب کچھ ہے
لاہور:
بات اگر ''سیاست'' کی نہیں انصاف کی ہو تو ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ خدا نے ہمیں ایسے لیڈر اور حاکم دیے ہیں کہ اپنا عیش وآرام تیاگ کر، خواب وخور حرام کرکے دن رات ہماری خدمت میں جتے ہوئے ہیں، ان کے پاس کیا نہیں ہے، خدا کا دیا ہوا اور عوام سے چھینا ہوا، سب کچھ ہے۔ بنگلے ہیں، زمینیں ہیں، کارخانے ہیں اوراپنی دولت ہے کہ اگر مٹھیاں بھربھر کر چاروں طرف پھینکیں تب بھی ختم نہیں ہوگی۔
لیکن یہ ''خدا کے پراسرار بندے'' وہ سب کچھ تیاگ کر صرف ایک دھن میں لگے ہوتے ہیں کہ کسی طرح ہماری خدمت کرنے کی سعادت حاصل کریں۔ وہ یہ سب کچھ تو صدیوں سے کر رہے ہیں، محمود آف غزنی سے شہاب الدین آف غور اور خاندان غلاماں تک، پھر مغلوں کے زمانے سے لے مرہٹوں، احمد شاہ آف ابدالیان سے رنجیت سنگھ آف لاہورتک اور سلسلہ در سلسلہ آج تک ان کا کام ہی یہی ہے لیکن پاکستان بننے کے ساتھ ہی جب انگریزوں نے ان پر اپنی ذمے داری ڈال کر کھلا چھوڑ دیا تو ان کا جذبہ خدمت اور زیادہ تیز ہوگیا جس میں خدمت گاری کے ساتھ ''مشکل فیصلوں'' کی اضافی ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر آپڑی چنانچہ جس حکومت میں آتے ہیں یا جو بھی حکومت ان کے قبضے میں آتی ہے اور یہ سلسلہ پچھتر سال سے جاری وساری ہے کہ عوام کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں بلکہ صبح سے شام تک اور شام سے صبج تک مشکل فیصلوں میں مصروف رہتے ہیں، اپنے عوام تو کالا انعام ہیں، سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ یہ لوگ یاخاندان یا درباری طبقہ ان کے لیے کیا کیا اور کیسے کیسے فیصلے کرتے رہتے ہیں، بیچارے ان مشکل فیصلوں میں اتنے تجریہ کار ہوگئے ہیںکہ ان کا نام ہی ''مشکل '' رکھا جانا چاہیے۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈرکو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
مگر یہ تو بہت پرانی بات ہوگئی کہ ''حکام'' کے ساتھ قوم کا غم صرف''ڈنر'' میں کھاتے تھے ، اب تو چونکہ یہ خود ''حکام ''ہوگئے ہیں، اس لیے ڈنرکے ساتھ لنچ، بریک فاسٹ، عصرانوں، ظہرانوں اورراتوں کو بھی عوام کے غم میں مصروف رہتے ہیں اور''مشکل فیصلے'' کرتے رہتے ہیں بلکہ اب تو مشکل فیصلوں کے عادی ہوگئے ہیں کہ جس دن مشکل فیصلے نہ ہوں بیچارے کھوئے کھوئے اور بے چین رہتے ہیں ۔
بے چین بہت پھرنا گبھرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی ''سینے''میں دہکائے ہوئے رہنا
اورعادت کے بارے میں تو ہم آپ کو رحمان باباکا فرمودہ بتاچکے ہیں کہ ''علت''چھوٹ جائے گی لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی اور عادت بھی مشکل فیصلوں کی ہو اور وہ بھی بہت پرانی خاندانی عادت ہو۔
رنج سے خوگرہواانسان تومٹ جاتاہے رنج
''مشکلیں''مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں
ہمارے عوام تو انتہائی بے حس ،بے درد،بے مروت بلکہ احسان فراموش، ناشکرے، ناقدرے لوگ ہیں، اس لیے پرواہی نہیں کر رہے ہیں کہ ان کے ''خادم'' ان کے لیے کتنی مشکلات سے گزر رہے ہیں لیکن ہم ایسے نہیں ہیں، ہمیں، احساس ہے کہ ان ''خادموں''پر مشکل فیصلوں کی وجہ سے کیا کیا گزر رہی ہے۔
جو ہم پہ گزری سوگزری مگر''نادان عوام''
ہمارے اشک تری عاقبت سنوارچلے
مطلب یہ کہ اپنے عوام کی زندگی نہ سہی ''عاقبت'' تو سنوار چکے ہیں، اتنی زیادہ کہ یہاں سے سیدھے جنت میں لینڈ کریں گے، آخر خدا اتنا ناانصاف تو نہیں کہ کسی کو دونوں جہانوں میں ''دوزخ نشین'' کر دے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم بھی اپنے ''خادموں'' کی مدد کریں گے، ٹھیک ہے ہم مشکل فیصلوں کانہ کوئی تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اختیار ہے کہ مشکل فیصلے کرسکیں، اس لیے ہم صرف آسان فیصلوں پر فوکس کریں گے، وہ بھی صرف مشورے کی حد تک کیوں کہ بہرحال فیصلے ان کے اختیار میں ہیں۔
ہم اپنے ان جدی پشتی خادموں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ بہت سارے مشکل فیصلے کرکے یقیناً آپ''تھکن'' محسوس کر رہے ہوں گے اور اس تھکان کو دور کرنے کے لیے آپ کو کسی آسان فیصلے کاگلوکوز پینا چاہیے اوراسی گلوکوز کی طرف ہم آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ آسان فیصلہ یہ ہے کہ یہ جو آپ نے ''سفیدہاتھیوں'' کا قبیلا پال رکھا ہے اسے کم سے کم آدھا کر دیجیے، وزیر، چھوٹے وزیر، مشیر، معاون اور پھر ان سب کے پورے پورے جھنڈ جو اس غریب، مقروض، مقبوص اور بدنصیب ملک کو لاحق ہیں۔ چونکہ امریکا اور اس کی ہرچیز ہماری ''فیورٹ'' ہے تو وہاں پندرہ وزیر ہیں، آب بھی پندرہ کرکے امریکا جیسے ہوجایے۔
یہ جو منتخب خاندانوں کے ''منتخب''ہیں،یہ تو پیدائشی منتخب ہیں، یہاں اجمل خٹک کاایک بے موقع قطعہ یادآیا۔
غٹان غٹان خانان خانان پیدادی
دوی خودہ مورہ جنتیان پیدادی
رازی چہ ھغولہ جنت اوگٹو
سوک چہ دہ مورہ دوزخیان پیدادی
ترجمہ۔یہ بڑے بڑے خان اوررئیس تو ماںکی کوکھ سے ''جنتی''پیداہوئے ہیں،آؤان لوگوں کے لیے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے ''دوزخی'' پیداہوئے ہیں۔
مطلب یہ کہ بہت ہی آسان فیصلہ ہے، ویسے بھی قمرجلالوی نے کہا ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سامان اتاراکرتے ہیں۔
بات اگر ''سیاست'' کی نہیں انصاف کی ہو تو ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ خدا نے ہمیں ایسے لیڈر اور حاکم دیے ہیں کہ اپنا عیش وآرام تیاگ کر، خواب وخور حرام کرکے دن رات ہماری خدمت میں جتے ہوئے ہیں، ان کے پاس کیا نہیں ہے، خدا کا دیا ہوا اور عوام سے چھینا ہوا، سب کچھ ہے۔ بنگلے ہیں، زمینیں ہیں، کارخانے ہیں اوراپنی دولت ہے کہ اگر مٹھیاں بھربھر کر چاروں طرف پھینکیں تب بھی ختم نہیں ہوگی۔
لیکن یہ ''خدا کے پراسرار بندے'' وہ سب کچھ تیاگ کر صرف ایک دھن میں لگے ہوتے ہیں کہ کسی طرح ہماری خدمت کرنے کی سعادت حاصل کریں۔ وہ یہ سب کچھ تو صدیوں سے کر رہے ہیں، محمود آف غزنی سے شہاب الدین آف غور اور خاندان غلاماں تک، پھر مغلوں کے زمانے سے لے مرہٹوں، احمد شاہ آف ابدالیان سے رنجیت سنگھ آف لاہورتک اور سلسلہ در سلسلہ آج تک ان کا کام ہی یہی ہے لیکن پاکستان بننے کے ساتھ ہی جب انگریزوں نے ان پر اپنی ذمے داری ڈال کر کھلا چھوڑ دیا تو ان کا جذبہ خدمت اور زیادہ تیز ہوگیا جس میں خدمت گاری کے ساتھ ''مشکل فیصلوں'' کی اضافی ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر آپڑی چنانچہ جس حکومت میں آتے ہیں یا جو بھی حکومت ان کے قبضے میں آتی ہے اور یہ سلسلہ پچھتر سال سے جاری وساری ہے کہ عوام کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں بلکہ صبح سے شام تک اور شام سے صبج تک مشکل فیصلوں میں مصروف رہتے ہیں، اپنے عوام تو کالا انعام ہیں، سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ یہ لوگ یاخاندان یا درباری طبقہ ان کے لیے کیا کیا اور کیسے کیسے فیصلے کرتے رہتے ہیں، بیچارے ان مشکل فیصلوں میں اتنے تجریہ کار ہوگئے ہیںکہ ان کا نام ہی ''مشکل '' رکھا جانا چاہیے۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈرکو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
مگر یہ تو بہت پرانی بات ہوگئی کہ ''حکام'' کے ساتھ قوم کا غم صرف''ڈنر'' میں کھاتے تھے ، اب تو چونکہ یہ خود ''حکام ''ہوگئے ہیں، اس لیے ڈنرکے ساتھ لنچ، بریک فاسٹ، عصرانوں، ظہرانوں اورراتوں کو بھی عوام کے غم میں مصروف رہتے ہیں اور''مشکل فیصلے'' کرتے رہتے ہیں بلکہ اب تو مشکل فیصلوں کے عادی ہوگئے ہیں کہ جس دن مشکل فیصلے نہ ہوں بیچارے کھوئے کھوئے اور بے چین رہتے ہیں ۔
بے چین بہت پھرنا گبھرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی ''سینے''میں دہکائے ہوئے رہنا
اورعادت کے بارے میں تو ہم آپ کو رحمان باباکا فرمودہ بتاچکے ہیں کہ ''علت''چھوٹ جائے گی لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی اور عادت بھی مشکل فیصلوں کی ہو اور وہ بھی بہت پرانی خاندانی عادت ہو۔
رنج سے خوگرہواانسان تومٹ جاتاہے رنج
''مشکلیں''مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں
ہمارے عوام تو انتہائی بے حس ،بے درد،بے مروت بلکہ احسان فراموش، ناشکرے، ناقدرے لوگ ہیں، اس لیے پرواہی نہیں کر رہے ہیں کہ ان کے ''خادم'' ان کے لیے کتنی مشکلات سے گزر رہے ہیں لیکن ہم ایسے نہیں ہیں، ہمیں، احساس ہے کہ ان ''خادموں''پر مشکل فیصلوں کی وجہ سے کیا کیا گزر رہی ہے۔
جو ہم پہ گزری سوگزری مگر''نادان عوام''
ہمارے اشک تری عاقبت سنوارچلے
مطلب یہ کہ اپنے عوام کی زندگی نہ سہی ''عاقبت'' تو سنوار چکے ہیں، اتنی زیادہ کہ یہاں سے سیدھے جنت میں لینڈ کریں گے، آخر خدا اتنا ناانصاف تو نہیں کہ کسی کو دونوں جہانوں میں ''دوزخ نشین'' کر دے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم بھی اپنے ''خادموں'' کی مدد کریں گے، ٹھیک ہے ہم مشکل فیصلوں کانہ کوئی تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اختیار ہے کہ مشکل فیصلے کرسکیں، اس لیے ہم صرف آسان فیصلوں پر فوکس کریں گے، وہ بھی صرف مشورے کی حد تک کیوں کہ بہرحال فیصلے ان کے اختیار میں ہیں۔
ہم اپنے ان جدی پشتی خادموں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ بہت سارے مشکل فیصلے کرکے یقیناً آپ''تھکن'' محسوس کر رہے ہوں گے اور اس تھکان کو دور کرنے کے لیے آپ کو کسی آسان فیصلے کاگلوکوز پینا چاہیے اوراسی گلوکوز کی طرف ہم آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ آسان فیصلہ یہ ہے کہ یہ جو آپ نے ''سفیدہاتھیوں'' کا قبیلا پال رکھا ہے اسے کم سے کم آدھا کر دیجیے، وزیر، چھوٹے وزیر، مشیر، معاون اور پھر ان سب کے پورے پورے جھنڈ جو اس غریب، مقروض، مقبوص اور بدنصیب ملک کو لاحق ہیں۔ چونکہ امریکا اور اس کی ہرچیز ہماری ''فیورٹ'' ہے تو وہاں پندرہ وزیر ہیں، آب بھی پندرہ کرکے امریکا جیسے ہوجایے۔
یہ جو منتخب خاندانوں کے ''منتخب''ہیں،یہ تو پیدائشی منتخب ہیں، یہاں اجمل خٹک کاایک بے موقع قطعہ یادآیا۔
غٹان غٹان خانان خانان پیدادی
دوی خودہ مورہ جنتیان پیدادی
رازی چہ ھغولہ جنت اوگٹو
سوک چہ دہ مورہ دوزخیان پیدادی
ترجمہ۔یہ بڑے بڑے خان اوررئیس تو ماںکی کوکھ سے ''جنتی''پیداہوئے ہیں،آؤان لوگوں کے لیے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے ''دوزخی'' پیداہوئے ہیں۔
مطلب یہ کہ بہت ہی آسان فیصلہ ہے، ویسے بھی قمرجلالوی نے کہا ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سامان اتاراکرتے ہیں۔