ہمارے سماج کا ہر کردار مر چکا ہے
ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس کی زد میں ہیں
کراچی:
اسکائی لس 525 قبل مسیح کا عظیم المیہ نگار جسے یونانی God Intoxicated Man کے خطاب سے یاد کرتے تھے، ان کا ایمان تھا کہ اسے دیوتا ڈایونی سس نے ڈراما لکھنے کی طرف مائل کیا، اس نے 90 ڈرامے لکھے جن میں سے 7ڈرامے موجود ہیں۔
آج بھی ہم اس کے ایک ڈرامے کے کردار پرومی تھیوس کے ان جملوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جملے ہمارے لیے ہی کہے گئے تھے '' اذیتیں سالہا سال کی جن کا شمار کوئی نہیں ،قیدو بند کی یہ صعوبتیں اور اذیتیں سب دین ہیں ، اس کی جو دیوتاؤں کا نیا آقا ہے ، درد کے یہ نہ ختم ہونے والے سلسلے ، یہی انتہائے خیال میرا مداوا ہے ، یہ درد کب ٹہرے گا ساعت درماں کب آئے گی۔ ''
آئیں! اپنے حالات زندگی کی صحیح عکاسی کے لیے سو فیکلیز کو بھی یاد کرتے ہیں ۔ وہ496قبل مسیح کا عظیم المیہ نگار تھا جسے دنیا کا سب سے بڑا ڈراما نگار قرار دیا جاتا ہے 124ڈرامے لکھے۔ ٹریجڈی فیسٹیول میں24بار انعام جیتا ْ۔ اس کے ایک ڈرامے '' شاہ اوئی دی پوس '' کے ایک منظر میں تھیبیز میں اوئی دی پوس بادشاہ کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گزاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے جو بادشاہ سے کہتا ہے ۔ ''عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے موت جو اس کے اوپر منڈ لارہی ہے اب اسے عافیت چاہیے، چار سو موت پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر ، فصلوں میں ،چراگاہوںمیں جو مویشی گھوم رہے ہیں موت کی زد میں ہیں ۔
ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس کی زد میں ہیں ۔ شہر میں طاعون پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیرے میں لے رہا ہے کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہو رہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے۔ ''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مہنگائی ، غربت وافلاس کی وجہ سے موت ہم سب پر منڈلا رہی ہے؟ آج پورا ملک کس قدر تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے۔ ہر جگہ کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے۔ لوگ فقط ایک روٹی کی خاطر اپنے جسموں کے اعضا بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے لوگ شہر کے بیچ چوراہوں پر اپنے بچے فروخت کررہے ہیں ۔ گھر گھر میں ماتم برپا ہے ۔
گھر گھر سے آہ و بکاؤں کی آوازیں آرہی ہیں۔روز مرہ زندگی کی اشیاء خریدنے کے لیے اب لوگوں کے پاس بیچنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا ہے حتیٰ کہ جسم کے اعضاء تک نہیں ۔ ہمارے سماج کا ہر کردار مر چکا ہے اب ہر کہانی وحشت ناک اور ڈراونی ہے کوئی بیٹی ماں کے مرنے پہ ابھی تک نوحہ کناں ہے تو کسی کا بیٹا باپ کے مرنے پر پہروں گھر کو نہیں لوٹتا ۔ کوئی پھیری والا زور زور سے کچھ بیچنے کی صدائیں لگاتا ہے لیکن کوئی کان اس کی آہوں کو نہیں سنتے ۔ کوئی باپ اسپتال کے باہر ہاتھ میں بچوں کے کھلونے لیے ہرراہگیر سے التجا کررہاہے کہ کوئی تو کچھ خریدلے تاکہ وہ اسی اسپتال کے گندے اوربدبو دار بستر پر پڑی اپنی بیٹی کی دوائی لے سکے جو سسک سسک کر مررہی ہے ۔ کوئی اپنے پیارے کے کفن کے لیے قرض مانگتا پھرر ہاہے ۔
کوئی پانی کی ایک بالٹی کے لیے میلوں پیدل چل رہاہے کوئی گھر کا کرایہ نہ دینے کی وجہ سے بے دخل کیا جا رہاہے ۔ کسی کے گھر کی بجلی بل نہ دینے کی وجہ سے کاٹی جارہی ہے کوئی اپنے گھروالوں کو دلاسہ پہ دلاسا دیے جارہا ہے کوئی جگہ جگہ سے دھتکارا جارہا ہے کوئی گندگی کے ڈھیر میں کھانے کی کوئی چیز تلاش کررہا ہے ۔ کوئی بچہ د کان کے باہر کھڑا کھانے کی ہر شے کو ترستی آنکھوں سے تک رہاہے ۔
کوئی آسمان سے بارش کامنتظر ہے کہ وہ اس کے کھیتوں کی پیاس بجھائے ۔ کوئی گورکن اس انتظار میں ہے کب کوئی مرے تو اس کو پیسے ملیں اور وہ ان پیسوں سے مرے ہوئے باپ کا قرض اتار سکے ۔ کوئی مزدور آج بھی شام ڈھلے بغیر مزدوری کے واپس گھر لوٹ رہاہے کوئی ماں اپنے بچوں کے فاقے دیکھ کر گلے میں پھندہ ڈال کر پنکھے سے لٹک رہی ہے ۔ سب کردار مرے ہوئے ہیں لیکن درد سے چیختے سوال چھوڑ رہے ہیں ۔ جب ان کرداروں کو موت آئے گی تو کیا وہ شرمسار نہیں ہوگی کہ وہ مرے ہوئے ہوؤں کو دوبارہ مار رہی ہے ۔
نازی عقوبت خانے کی دیوار پر ایک یہودی قیدی نے اپنے ناخنوں سے کھرچ کر درد بھرے الفاظ لکھے تھے کہ آخر ہمیں کس گناہ اور جرموں کی سزا دی جارہی ہے آخر ہم سے کون سا ایسا گناہ سر زد ہو گیا ہے کہ اے خدا تو ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ تیری رحمتیں ہم سے کیوں ناراض ہیں ۔کیا ہم پرترس نہیں آتا ہے ، ہماری حالت دیکھ کر تو رحم کیوں نہیں کرتا ہے ۔
فارسی ناول بو ف کور (اندھا الو ) میں مصنف لکھتا ہے '' نہ جانے میرے کمرے کی دیواروں میں کیا تا ثیر تھی کہ میرے خیالات بھی زہریلے ہوجاتے تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ کبھی کسی زنجیر میں جکڑے ہوئے پاگل خونی کو مرتے تک یہاں رکھا گیا ہوگا نہ صرف کمرے کی دیوار میں بلکہ باہر کا منظر ، وہ قصاب ، بوڑھا بساطی ،میری آیا ، وہ حرافہ اور سب لوگ جنھیں میں دیکھتا تھا اور وہ پیالہ تک جس میں مجھے جو کا شوربہ دیا جاتا تھا۔سب مجھ میں یہ خیالات پیدا کرنے کی سازش میں شریک تھے ۔''
ہمارا سماج ہرانسان کو اس کے خیالات کے ساتھ ساتھ اسے مکمل زہریلا بناتا چلا جارہاہے ۔ایسے زہریلے انسان جو ابھی تو چپ ہیں لیکن وہ جس روز بھی پھٹ پڑے تو پھر محفوظ سے محفوظ محل یا کوئی جگہ پھر ان کے زہر سے محفوظ نہیں رہے گی ۔
ہم اپنے ذکر کو یہاں روکتے ہیں تھوڑی دیر کے لیے 1818 کے یورپ میں چلتے ہیں واٹرلو کی لڑائی لڑی جاچکی تھی انقلاب مر چکا تھا اورفرزند انقلاب نپو لین دور سمندر میں ایک چٹان پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہا تھا تما م یورپ ویران ہوچکاتھا لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اتر چکے تھے ۔
دیہات میں غلاظت اور ابتری پھیلی ہوئی تھی زمیندار قلاش ہوچکے تھے شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے جن ملکوں سے نپو لین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گزری تھیں وہاں ہر طرف غار ت گری کے آثار نمایاں تھے ماسکو راکھ کا ڈھیر تھا انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گندم کی رقم اتنی گری کہ زمین دار تباہ ہوگئے یوںمعلوم ہوتا تھا کہ گویا یورپ جسد بے روح ہو ۔ ازالہ فریب اور حرماں نصیبی کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں ، لیکن اونچے طبقے کے اکثر افراد کا یہ عالم تھا کہ آخرت پر سے ان کااعتما د ہی اٹھ گیاتھا ۔
سچ پوچھئے تو 1818 میں اس کرہ زمین کی جو دردناک حالت تھی اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لا نا دشوار تھا کہ عنان اختیار دراصل خدا کے ہاتھ میں ہے ، لیکن اس ساری وحشت اور دہشت کے باوجود گرے ہوئے غم زدہ ، نڈھال ، برباد ، مایوس، اداس زخموں سے چور انسان ایک بار پھر دوبارہ جی اٹھے ۔
جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ '' کوئی ملک جن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے اس سے اس ملک کے سیاسی ارتقا کا اندازہ ہوتاہے اس ملک کی ناکامی اکثر اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آپ سے درست سوالات نہیں کیے تھے ۔'' یورپ کے لوگوں نے اپنے آپ سے درست سوالات کیے تو وہ پھر جی اٹھے دنیا بھر کہ تمام ما ہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ جواب سے زیادہ سوال کی اہمیت اور افادیت ہے ہم آج بھی اپنے آپ سے سوال کرنے سے کتراتے ہیں ۔
ہم سب اپنے قیدی بنے ہوئے ہیں ۔ ایلیز روز ویلٹ کاکہنا ہے کہ '' کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔'' گاندھی کے الفاظ ہیں '' وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے تاوقت یہ کہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کردیں۔ '' آئیں ! ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہماری اس حالت کے ذمے دار دوسرے ہیں یا ہم خود ہیں ؟ جواب آ پ کو فورا مل جائے گا۔
اسکائی لس 525 قبل مسیح کا عظیم المیہ نگار جسے یونانی God Intoxicated Man کے خطاب سے یاد کرتے تھے، ان کا ایمان تھا کہ اسے دیوتا ڈایونی سس نے ڈراما لکھنے کی طرف مائل کیا، اس نے 90 ڈرامے لکھے جن میں سے 7ڈرامے موجود ہیں۔
آج بھی ہم اس کے ایک ڈرامے کے کردار پرومی تھیوس کے ان جملوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جملے ہمارے لیے ہی کہے گئے تھے '' اذیتیں سالہا سال کی جن کا شمار کوئی نہیں ،قیدو بند کی یہ صعوبتیں اور اذیتیں سب دین ہیں ، اس کی جو دیوتاؤں کا نیا آقا ہے ، درد کے یہ نہ ختم ہونے والے سلسلے ، یہی انتہائے خیال میرا مداوا ہے ، یہ درد کب ٹہرے گا ساعت درماں کب آئے گی۔ ''
آئیں! اپنے حالات زندگی کی صحیح عکاسی کے لیے سو فیکلیز کو بھی یاد کرتے ہیں ۔ وہ496قبل مسیح کا عظیم المیہ نگار تھا جسے دنیا کا سب سے بڑا ڈراما نگار قرار دیا جاتا ہے 124ڈرامے لکھے۔ ٹریجڈی فیسٹیول میں24بار انعام جیتا ْ۔ اس کے ایک ڈرامے '' شاہ اوئی دی پوس '' کے ایک منظر میں تھیبیز میں اوئی دی پوس بادشاہ کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گزاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے جو بادشاہ سے کہتا ہے ۔ ''عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے موت جو اس کے اوپر منڈ لارہی ہے اب اسے عافیت چاہیے، چار سو موت پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر ، فصلوں میں ،چراگاہوںمیں جو مویشی گھوم رہے ہیں موت کی زد میں ہیں ۔
ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس کی زد میں ہیں ۔ شہر میں طاعون پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیرے میں لے رہا ہے کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہو رہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے۔ ''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مہنگائی ، غربت وافلاس کی وجہ سے موت ہم سب پر منڈلا رہی ہے؟ آج پورا ملک کس قدر تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے۔ ہر جگہ کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے۔ لوگ فقط ایک روٹی کی خاطر اپنے جسموں کے اعضا بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے لوگ شہر کے بیچ چوراہوں پر اپنے بچے فروخت کررہے ہیں ۔ گھر گھر میں ماتم برپا ہے ۔
گھر گھر سے آہ و بکاؤں کی آوازیں آرہی ہیں۔روز مرہ زندگی کی اشیاء خریدنے کے لیے اب لوگوں کے پاس بیچنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا ہے حتیٰ کہ جسم کے اعضاء تک نہیں ۔ ہمارے سماج کا ہر کردار مر چکا ہے اب ہر کہانی وحشت ناک اور ڈراونی ہے کوئی بیٹی ماں کے مرنے پہ ابھی تک نوحہ کناں ہے تو کسی کا بیٹا باپ کے مرنے پر پہروں گھر کو نہیں لوٹتا ۔ کوئی پھیری والا زور زور سے کچھ بیچنے کی صدائیں لگاتا ہے لیکن کوئی کان اس کی آہوں کو نہیں سنتے ۔ کوئی باپ اسپتال کے باہر ہاتھ میں بچوں کے کھلونے لیے ہرراہگیر سے التجا کررہاہے کہ کوئی تو کچھ خریدلے تاکہ وہ اسی اسپتال کے گندے اوربدبو دار بستر پر پڑی اپنی بیٹی کی دوائی لے سکے جو سسک سسک کر مررہی ہے ۔ کوئی اپنے پیارے کے کفن کے لیے قرض مانگتا پھرر ہاہے ۔
کوئی پانی کی ایک بالٹی کے لیے میلوں پیدل چل رہاہے کوئی گھر کا کرایہ نہ دینے کی وجہ سے بے دخل کیا جا رہاہے ۔ کسی کے گھر کی بجلی بل نہ دینے کی وجہ سے کاٹی جارہی ہے کوئی اپنے گھروالوں کو دلاسہ پہ دلاسا دیے جارہا ہے کوئی جگہ جگہ سے دھتکارا جارہا ہے کوئی گندگی کے ڈھیر میں کھانے کی کوئی چیز تلاش کررہا ہے ۔ کوئی بچہ د کان کے باہر کھڑا کھانے کی ہر شے کو ترستی آنکھوں سے تک رہاہے ۔
کوئی آسمان سے بارش کامنتظر ہے کہ وہ اس کے کھیتوں کی پیاس بجھائے ۔ کوئی گورکن اس انتظار میں ہے کب کوئی مرے تو اس کو پیسے ملیں اور وہ ان پیسوں سے مرے ہوئے باپ کا قرض اتار سکے ۔ کوئی مزدور آج بھی شام ڈھلے بغیر مزدوری کے واپس گھر لوٹ رہاہے کوئی ماں اپنے بچوں کے فاقے دیکھ کر گلے میں پھندہ ڈال کر پنکھے سے لٹک رہی ہے ۔ سب کردار مرے ہوئے ہیں لیکن درد سے چیختے سوال چھوڑ رہے ہیں ۔ جب ان کرداروں کو موت آئے گی تو کیا وہ شرمسار نہیں ہوگی کہ وہ مرے ہوئے ہوؤں کو دوبارہ مار رہی ہے ۔
نازی عقوبت خانے کی دیوار پر ایک یہودی قیدی نے اپنے ناخنوں سے کھرچ کر درد بھرے الفاظ لکھے تھے کہ آخر ہمیں کس گناہ اور جرموں کی سزا دی جارہی ہے آخر ہم سے کون سا ایسا گناہ سر زد ہو گیا ہے کہ اے خدا تو ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ تیری رحمتیں ہم سے کیوں ناراض ہیں ۔کیا ہم پرترس نہیں آتا ہے ، ہماری حالت دیکھ کر تو رحم کیوں نہیں کرتا ہے ۔
فارسی ناول بو ف کور (اندھا الو ) میں مصنف لکھتا ہے '' نہ جانے میرے کمرے کی دیواروں میں کیا تا ثیر تھی کہ میرے خیالات بھی زہریلے ہوجاتے تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ کبھی کسی زنجیر میں جکڑے ہوئے پاگل خونی کو مرتے تک یہاں رکھا گیا ہوگا نہ صرف کمرے کی دیوار میں بلکہ باہر کا منظر ، وہ قصاب ، بوڑھا بساطی ،میری آیا ، وہ حرافہ اور سب لوگ جنھیں میں دیکھتا تھا اور وہ پیالہ تک جس میں مجھے جو کا شوربہ دیا جاتا تھا۔سب مجھ میں یہ خیالات پیدا کرنے کی سازش میں شریک تھے ۔''
ہمارا سماج ہرانسان کو اس کے خیالات کے ساتھ ساتھ اسے مکمل زہریلا بناتا چلا جارہاہے ۔ایسے زہریلے انسان جو ابھی تو چپ ہیں لیکن وہ جس روز بھی پھٹ پڑے تو پھر محفوظ سے محفوظ محل یا کوئی جگہ پھر ان کے زہر سے محفوظ نہیں رہے گی ۔
ہم اپنے ذکر کو یہاں روکتے ہیں تھوڑی دیر کے لیے 1818 کے یورپ میں چلتے ہیں واٹرلو کی لڑائی لڑی جاچکی تھی انقلاب مر چکا تھا اورفرزند انقلاب نپو لین دور سمندر میں ایک چٹان پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہا تھا تما م یورپ ویران ہوچکاتھا لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اتر چکے تھے ۔
دیہات میں غلاظت اور ابتری پھیلی ہوئی تھی زمیندار قلاش ہوچکے تھے شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے جن ملکوں سے نپو لین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گزری تھیں وہاں ہر طرف غار ت گری کے آثار نمایاں تھے ماسکو راکھ کا ڈھیر تھا انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گندم کی رقم اتنی گری کہ زمین دار تباہ ہوگئے یوںمعلوم ہوتا تھا کہ گویا یورپ جسد بے روح ہو ۔ ازالہ فریب اور حرماں نصیبی کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں ، لیکن اونچے طبقے کے اکثر افراد کا یہ عالم تھا کہ آخرت پر سے ان کااعتما د ہی اٹھ گیاتھا ۔
سچ پوچھئے تو 1818 میں اس کرہ زمین کی جو دردناک حالت تھی اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لا نا دشوار تھا کہ عنان اختیار دراصل خدا کے ہاتھ میں ہے ، لیکن اس ساری وحشت اور دہشت کے باوجود گرے ہوئے غم زدہ ، نڈھال ، برباد ، مایوس، اداس زخموں سے چور انسان ایک بار پھر دوبارہ جی اٹھے ۔
جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ '' کوئی ملک جن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے اس سے اس ملک کے سیاسی ارتقا کا اندازہ ہوتاہے اس ملک کی ناکامی اکثر اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آپ سے درست سوالات نہیں کیے تھے ۔'' یورپ کے لوگوں نے اپنے آپ سے درست سوالات کیے تو وہ پھر جی اٹھے دنیا بھر کہ تمام ما ہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ جواب سے زیادہ سوال کی اہمیت اور افادیت ہے ہم آج بھی اپنے آپ سے سوال کرنے سے کتراتے ہیں ۔
ہم سب اپنے قیدی بنے ہوئے ہیں ۔ ایلیز روز ویلٹ کاکہنا ہے کہ '' کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔'' گاندھی کے الفاظ ہیں '' وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے تاوقت یہ کہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کردیں۔ '' آئیں ! ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہماری اس حالت کے ذمے دار دوسرے ہیں یا ہم خود ہیں ؟ جواب آ پ کو فورا مل جائے گا۔