تھر میں کچھ ہوا ہے کیا

ذراسوچیں توہماراکیاہوگا یہ کوئی پہلاواقعہ توہرگزنہیں ہےان حکومتوں کےمظالم کاذکرکرناچاہیں توسیاہی توختم ہوسکتی ہے...

ان حکمرانوں کا کام تو ہم پر حکومت کرنا ہی ہے اچھائی کی امید کرنا تو محض خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ فوٹو: آئی این پی

مجھے آپ ایک سیدھے سے سوال کا جواب دیجیے اگر میں آپ کو گالی دوں یا ایک زور دار تھپڑ رسید کردوں تو آپ جواباً میرے ساتھ کیسا رویہ اپنائیں گے۔اس سوال کے دو جواب ہوسکتے ہیں اور ہم دونوں پر بات کرلیتے ہیں۔پہلا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ آپ بھی جواب میں مجھے بھی گالی دیں اور ایک زور دار تھپڑرسید کردیں۔لیکن کچھ لوگ کمزور ہونے کے سبب، یا مصلحتاً خاموشی بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر تو آ پ نے مجھے بھی برابر کا جواب دیا تو شاید میں آئندہ آپ کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے کئی بار سوچوں گا لیکن اگر آپ خاموش ہوگئے تو بس پھر کیا ہے ۔ میرے مزے ہیں اور جب دل چاہے گا میں بار بار یہ کرتا رہوں گا۔

یہ ایک مختصر سی تمحید تھی ان رویوں کو بیان کرنے کے لیے جو ہمارے حکمراں بار بار نہیں بلکہ ہر بارہمارے ساتھ اپناتے ہیں۔وہ ہمیں ایک ہاتھ پر ڈنگ مارتے ہیں تو ہم ہوشیار ہونے کے بجائے اپنا دوسرا ہاتھ آگے کردیتے ہیں۔اور اب تو ایسا وقت آچکا ہے کہ ہمارے جسم ان حملوں کے نتیجے میں چور چور ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہم اُف تک کریں۔



آج کل ہر طرف شور مچا ہوا ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سےعلاقے تھر میں قحط کی وجہ سے سینکڑوں بچے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ شور کا لفظ استعمال کرنا مجھے اس وقت بالکل اچھا نہیں لگ رہا یہ لفظ مجھے ان بچوں اور ان کے والدین کا مذاق اُڑانے کے مترادف معلوم ہورہا ہے ۔ لیکن میں مجبور ہوں ۔ اب سے کچھ دن قبل حکومت اور قوم تو سورہی تھی یا پھر پاکستان کے کرکٹ مقابلوں سے محظوظ ہونے میں مصروف تھی۔یہ تو میڈیا تھا جس نے ہمیں بیدار کرنے کے کوشش کی کہ جناب عالی جاگیے جاگیے آپ ہی کہ ملک کے ایک حصے میں بچے خوراک کی کمی کے سبب سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں اور جب تھک گئے تو اُس جہاں کو اِس جہاں سے بہتر سمجھے ہوئے اپنے رب کے پاس منتقل ہوگئے ہیں۔ اب اُن کا رب ہی اُن بچوں کی شکایتوں کو سنے گا اور پھر ساری خواہشات بھی پوری کرے گا آخر اب یہ بچے جنت کے پھول جو بن چکے ہیں۔شاید یہی ان بچوں کے لیے بہتر تھا۔




لیکن ذرا سوچیں تو ہمارا کیا ہوگا یہ کوئی پہلا واقعہ تو ہرگز نہیں ہے ان حکومتوں کے مظالم کا ذکر کرنا چاہیں تو سیاہی تو ختم ہوسکتی ہے ، میں اور آپ تھکاوٹ کا شکار تو ہوسکتے ہیں مگر ان مظالم کا تذکرہ باقی رہے گا۔کس کس ظلم کی بات کی جائے ۔ کراچی میں قتل وغارت گری کے نتیجے میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کی ہلاکت کا ذکر کیا جائے یا پھر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آنے والے سیلاب کے بعد حکومتوں کی نالائکیوں اور نکمے پن کی وجہ سے مرنے والوں اور بے گھر ہونے والوں کی بات کی جائے۔یا پھر بلوچستان اور پورے ملک میں لاپتہ ہونے والے افراد کا رونا رویہ جائے۔

اب ہوگا کیا ۔وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دیگر اعلیٰ عہدیدار علاقے کا دورہ کریں گے مریضوں کی عیادت کریں گے مقامی رہنماوں سے بریفنگ لیں گے ، امداد کا اعلان کرکے علاقے سے رخصت ہوجائیں گے اور پھر علاقے میں کیا ہوگا اِس بات سے اُن کو کوئی سروکار نہیں رہیگا۔ نہ یہ پہلی بار ہورہا ہے اور نہ ہی آخری بار ۔ پھر کچھ عرصے بعد ایک اور تھر کا واقعہ رونما ہوگا پھر ایمرجنسی لگے گی اور وہی کچھ ہوگا جو اس بار ہورہا ہے ۔ ناجانے کب طویل مدتی پالیسی ہماری حکومتیں بنائیں گی تاکہ ایسے افسوسناک واقعات کو روکا جاسکے۔



میں نے اکثر لوگوں کو ان مسائل کی کلی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے دیکھا بھی ہے اور سنا بھی۔میں تو حیران ہی رہ جاتا ہوں کہ آخر مجھ سمیت پوری قوم کیسے یہ ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتی ہے۔دیکھیے ان حکمرانوں کا کام تو ہم پر حکومت کرنا ہی ہے اچھائی کی امید کرنا تو محض خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ان حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ عوام ہمیں ووٹ دیتی رہے گی اور ہم حکومت کرتے رہیں گے۔مجھے ایک بات بتائیے کہ حکومتیں عوام کی خدمت کیوں کیا کرتی ہیں؟ صرف اس لیے نہ کہ لوگ اُن کو ووٹ دیں تو ووٹ تو یہاں نواز شریف کو بھی ملتے ہیں اور آصف زرداری کو بھی ۔ بس فرق اتنا پڑتا ہے کہ کبھی پورے ملک پر حکمرانی کے لیے ووٹ پڑتا ہے اور کبھی ایک صوبے پر ۔ اس لیے اگر اس ظلم کا خاتمہ خواہش اور مقصود ہے تو اب بہتر ہے کہ تھپڑ کے جواب میں خاموشی نہ اختیار کی جائے بلکہ برابر کا جواب دیں تاکہ نہ صرف ان ظالم حکمرانوں کو ہوش آئے بلکہ یہ مزید ظلم کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story