تھر میں علاج کی مستقل سہولیات کا انتظام کرنا ہوگا

تھر کے علاقے میں جب بھی بارشیں نہیں ہوتیں، اس طرح کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

تھر کے علاقے میں جب بھی بارشیں نہیں ہوتیں، اس طرح کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

سندھ کے ضلع تھر پارکر میں نمونیا کے باعث بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت سے پورے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔

انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کے اداروں کو تھر کی صورت حال کا علم اس وقت ہوا ، جب میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا ۔ سندھ حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ سندھ نے اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی اقدامات کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔ تھر ہو یا کوئی دوسرا علاقہ ، حکومت کو اس کے حالات کے بارے میں ضلعی انتظامیہ ہی آگاہ کرتی ہے لیکن تھرپارکر کی انتظامیہ نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ مٹھی کے سول اسپتال میں جب نمونیا کے شکار بچے زیادہ تعداد میں لائے جارہے تھے تو اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ( ایم ایس ) کو چاہیے تھا کہ وہ اس غیر معمولی صورت حال سے حکام بالا کو فوری آگاہ کرتے ۔ دوسری ذمہ داری میرپور خاص ڈویژن کے ڈائریکٹر ہیلتھ کی تھی ، جو روزانہ کی بنیاد پر اسپتالوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے ذمہ دار ہیں ۔

مذکورہ دونوں افسروں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ، جس کی وجہ سے حکومت سندھ کو انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ان دونوں افسروں کو نہ صرف فوری طور پر معطل کر دیا بلکہ مجرمانہ غفلت پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا بھی حکم دیا ۔ وزیراعلیٰ نے کمشنر میرپور خاص ڈویژن ، ڈپٹی کمشنر تھر پارکر اور ایس پی تھر پارکر کو بھی ہٹانے کے احکامات جاری کیے ۔ وزیراعلٰی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ تھر کے لیے بھیجی جانے والی گندم بروقت تقسیم نہیں ہوئی۔ صورت حال کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل تاج حیدر کو امدادی کاموں کی نگرانی کے لیے وہاں مستقل بیٹھنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حکومت سندھ کی امدادی ٹیمیں بھی فوراً روانہ کر دی گئی ہیں جبکہ خوراک اور دواؤں کی تقسیم کے لیے پاک فوج کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے ۔ ان تمام ہنگامی اقدامات کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت چلانے کے نظام میں کہاں خامی ہے جس کی وجہ سے متعلقہ افسر اس قدر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے ۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری امدادی سرگرمیوں کی نہ صرف براہ راست نگرانی کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے خود تھر کا دورہ کر کے صورت حال کا جائزہ لیا اور زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کی ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی تھرکا ہنگامی دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے لیے ایک ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ۔ حکومت سندھ نہ صرف ایک لاکھ 20 ہزار گندم کی بوریاں لوگوں میں مفت تقسیم کر رہی ہے بلکہ متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے بھی مختلف اقدامات کر رہی ہے ۔ پاک فوج ، مخیر حضرات اور غیر سرکاری تنظیموں ( این جی اوز ) کی امدادی سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری ہیں ۔ اس طرح تھر کی صورت حال کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اگر ضلعی انتظامیہ غفلت کا مظاہرہ نہ کرتی تو اس طرح کی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ نمونیا ایک قابل علاج مرض ہے بشرطیکہ اس کا بروقت علاج کیا جائے۔

تھر کے علاقے میں جب بھی بارشیں نہیں ہوتیں ، اس طرح کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہ صورت حال ہر دو تین سال بعد پیدا ہوتی ہے ۔ ماضی میں بھی صوبائی حکومت اس طرح کی صورت حال سے نمٹتی رہی ہے اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے ۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کنویں یا تو خشک ہو جاتے ہیں یا ان کا پانی زہریلا ہو جاتا ہے ۔ پانی کے دیگر ذخائر بھی خشک ہو جاتے ہیں ۔ خشک سالی کے باعث لوگ وہاں سے نقل مکانی کر کے نہری علاقوں میں آ جاتے ہیں ، جنہیں بیراج کے کمانڈ ایریاز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ نقل مکانی صحرائی علاقوں کا معمول ہے ۔ نہری علاقوں میں آکر یہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں اور حالات ٹھیک ہونے کے بعد واپس اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں ۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس مرتبہ سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے نمونیا بخار کا شکار ہو گئے ۔ دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ طویل فاصلوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے بیمار بچوں کو آخری اسٹیج میں اسپتال لاتے ہیں ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں اس طرح کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں ہوتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہی ہوتا ہے کہ اسپتال کی انتظامیہ جب یہ دیکھتی ہے کہ کسی ایک مرض میں شکار لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی ہے تو وہ فوراً اعلیٰ حکام کو آگاہ کرتی ہے اور حکومت صورت حال سے نمٹنے کے لیے ان علاقوں میں اس مخصوص مرض کے علاج کے ماہر ڈاکٹرز اور مطلوبہ دوائیں بھیجتی ہے ۔ اس مرتبہ اسپتال ضلع اور ڈویژن کی انتظامیہ نے صورت حال سے آگاہ نہیں کیا ۔ جب بچوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں تو میڈیا نے اس معاملے کو اٹھایا اور حکومت کو بعد میں پتہ چلا ۔ لیکن حکومت سندھ بھی اس صورت حال سے بری الذمہ نہیں ہے کیونکہ حادثات اور آفات کی صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے صوبائی سطح پر بھی ادارے موجود ہیں ، وہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ علاقے کے منتخب ارکان بھی اگر یہ کہیں کہ انہیں صورت حال کا علم نہیں تھا تو یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔

اگر منتخب نمائندے بے خبر تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حلقوں کے عوام سے رابطے میں نہیں ہیں ۔ ان کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت کو آگاہ کرتے اور غیر معمولی اقدامات کے لیے مجبور کرتے ۔ وفاقی حکومت بھی اپنے آپ کو بری الذمہ تصور نہیں کر سکتی کیونکہ مرکزی سطح پر بھی ایسے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے موجود ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو غفلت کے مرتکب وفاقی اور صوبائی حکومت کے تمام ادارے ہیں لیکن تھر پارکر کی ضلعی انتظامیہ کی غفلت مجرمانہ حد تک ہے ۔ اس غفلت کے باعث جن بچوں کا انتقال ہو گیا ہے، اس نقصان کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا لیکن اب صورت حال کو سنبھال لینا چاہیے ۔ امدادی سرگرمیاں صرف مٹھی تک محدود نہیں رکھنی چاہئیں اورنہ ہی انہیں صرف نمائشی بنانا چاہیے بلکہ تھر کے دور دراز علاقوں تک پہنچنا چاہیے ، جہاں کے غریب لوگوں کی شہروں تک رسائی نہیں ہے اور اسپتالوں تک پہنچنے سے پہلے ان کے بچے ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ انسانی زندگیوں کو بچانا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔
Load Next Story