کاخ امرا
سری لنکا کے حالات کے تناظر میں وطن عزیز کے معاشی و اقتصادی ماہرین خبردار کر رہے ہیں
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب آپ خلیفہ تھے، ایک شہر کو آگ لگ گئی، وہ اس بلا کی آگ تھی کہ پتھر کو خشک لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کردیتی تھی۔ وہ آگ مکانوں اور محلوں کو خاک سیاہ کرتی ہوئی درختوں، پرندوں کے گھونسلوں اور آخر کار ان کے پَروں کو بھی لگ گئی۔
اس آگ کے شعلوں نے آدھا شہر جلا ڈالا، یہاں تک کہ پانی بھی ان شعلوں کی تاب نہ لاتا تھا۔ اہل تدبیر آگ پر پانی اور سرکہ کے پرنالے بہاتے تھے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی اور سرکہ آگ بھڑکانے میں اور مدد پہنچاتا ہے۔ صورت حال کی نزاکت اور سنگینی سے گھبرا کر شہر کی خلقت چار و ناچار خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کے پاس دوڑی آئی اور عرض کیا کہ ہمارے شہر میں لگی آگ کسی پانی سے نہیں بجھتی۔
آپؓ نے فرمایا کہ یہ آگ خدا کے غضب کی علامات میں سے ہے اور یہ تمہارے بخل کی آگ کا صرف ایک شعلہ ہے۔ لہٰذا پانی کو چھوڑو اور روٹی تقسیم کرو اور آیندہ کے لیے اگر میرے مطیع ہو تو بخل کو ترک کردو۔ خلقت نے کہا کہ ہم نے تو پہلے سے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہم لوگ ہمیشہ سے صلہ رحمی کرنے والے سخی رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ سخاوت تم نے ازروئے رسم و عادت کی تھی۔ تم نے خدا کی راہ میں دروازہ نہیں کھولا تھا۔ تم نے جو کچھ دیا وہ شیخی اور اپنی بڑائی دکھانے کے واسطے دیا، خدا کے خوف اور عاجزی سے نہیں دیا اور ایسی دکھائوے کی سخاوت اور خیرات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مولانا روم کی مذکورہ حکایت میں ارباب اختیار، صاحبان بصیرت اور اہل اقتدار کے لیے ایک پیغام اور ایک سبق ہے، اگر وہ کچھ سمجھنا اور سیکھنا چاہیں۔ اہل دانش و حکمت ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں انھیں دہرانے سے گریز کرتے ہیں، یوں وہ ایک روشن اور تابناک مستقبل کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ ملک کا نظم و نسق چلانے کے ذمے دار ہیں وہی ایسے کام کرتے ہیں کہ عوام کو بجائے سہولتیں و آسانیاں فراہم کرنے ، ان کے مسائل حل کرنے، انھیں روٹی، کپڑا، مکان، روزگار اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے الٹا ان سے روٹی، روزگار چھیننے اور انھیں فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ صحت و تعلیم کا حق چھین لیتے ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد جس تیز رفتاری سے ان کے بینک بیلنس و جائیداد میں اضافہ ہوتا اس سے کئی گنا برق رفتاری سے عام آدمی کی زندگی پاتال میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، جہالت، بیماری اور انصاف کی عدم فراہمی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ملک کی معیشت تباہ و برباد اور قرضوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے۔ ملک و قوم عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے پھر لوگوں کے پاس سوائے احتجاج بلند کرنے اور حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔ وہ مجبور ہو کر گھروں سے نکلتے ہیں، اہل اقتدار کے خلاف اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کرتے ہیں، حکمرانوں کے محلات کا گھیراؤ کرتے ہیں، ان کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور اہل اقتدار کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں تازہ ترین مثال سری لنکا کی دی جاسکتی ہے۔
جہاں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بدترین معاشی بحران سے تنگ آئے عوام نے حکومت کی جانب سے گھروں سے نہ نکلنے کے انتباہ کے باوجود گھروں سے نکلنے کا دلیرانہ و جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ سری لنکن عوام کا جم غفیر صدر مملکت گوٹاراجاپاکسے کے محل کی طرف احتجاج کرتا ہوا بڑھا اور اس پر دھاوا بول دیا۔ صدارتی محل میں بپھرے ہوئے لوگوں نے توڑپھوڑ کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا، محل کی راہداریوں میں نعرے بازی کرتے رہے اور ''صدر گوٹا گھر جاؤ'' کے بلند آہنگ نعرے لگاتے رہے۔
وطن عزیز کے حکمرانوں نے بھی اپنے بودے اقدامات اور کمزور معاشی پالیسیوں سے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ مہنگائی کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 13 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، نہ صرف یہ کہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں، آٹا، چاول، چینی، دالیں، گوشت، سبزیاں، دودھ اور انڈے وغیرہ غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پہ مستزاد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن کے بعد اضافہ کرنا حکومت کی مجبوری بن گیا ہے۔
آئی ایم ایف کو خوش کرکے قرضہ حاصل کرنے کے لیے حکومت عوام دشمن اقدامات کے ذریعے مہنگائی کا عذاب عوام پر مسلط کر رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے، ڈالر ہوا سے باتیں کر رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے ایک پریس کانفرنس میں شرح سود میں مزید اضافے کی خبر سناتے ہوئے تسلیم کیا کہ بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کی وجہ سے عام آدمی پر بے انتہا معاشی دباؤ پڑا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تاجر اور صنعت کار طبقہ شرح سود میں بار بار اضافے کے رجحان سے نالاں ہے۔
سری لنکا کے حالات کے تناظر میں وطن عزیز کے معاشی و اقتصادی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ حکمران معاشی حوالے سے جو سخت گیر اقدامات اور فیصلے کر رہے ہیں اور عام آدمی ان سے جس بری طرح متاثر ہو رہا ہے وہ حکومت کے لیے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کے کروڑوں غریبوں کی مشکلات کم کرنے کے اقدامات اٹھائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ سری لنکن عوام کی طرح یہاں کے غربا بھی کاخ امرا کے در و دیوار ہلانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس آگ کے شعلوں نے آدھا شہر جلا ڈالا، یہاں تک کہ پانی بھی ان شعلوں کی تاب نہ لاتا تھا۔ اہل تدبیر آگ پر پانی اور سرکہ کے پرنالے بہاتے تھے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی اور سرکہ آگ بھڑکانے میں اور مدد پہنچاتا ہے۔ صورت حال کی نزاکت اور سنگینی سے گھبرا کر شہر کی خلقت چار و ناچار خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کے پاس دوڑی آئی اور عرض کیا کہ ہمارے شہر میں لگی آگ کسی پانی سے نہیں بجھتی۔
آپؓ نے فرمایا کہ یہ آگ خدا کے غضب کی علامات میں سے ہے اور یہ تمہارے بخل کی آگ کا صرف ایک شعلہ ہے۔ لہٰذا پانی کو چھوڑو اور روٹی تقسیم کرو اور آیندہ کے لیے اگر میرے مطیع ہو تو بخل کو ترک کردو۔ خلقت نے کہا کہ ہم نے تو پہلے سے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہم لوگ ہمیشہ سے صلہ رحمی کرنے والے سخی رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ سخاوت تم نے ازروئے رسم و عادت کی تھی۔ تم نے خدا کی راہ میں دروازہ نہیں کھولا تھا۔ تم نے جو کچھ دیا وہ شیخی اور اپنی بڑائی دکھانے کے واسطے دیا، خدا کے خوف اور عاجزی سے نہیں دیا اور ایسی دکھائوے کی سخاوت اور خیرات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مولانا روم کی مذکورہ حکایت میں ارباب اختیار، صاحبان بصیرت اور اہل اقتدار کے لیے ایک پیغام اور ایک سبق ہے، اگر وہ کچھ سمجھنا اور سیکھنا چاہیں۔ اہل دانش و حکمت ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں انھیں دہرانے سے گریز کرتے ہیں، یوں وہ ایک روشن اور تابناک مستقبل کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ ملک کا نظم و نسق چلانے کے ذمے دار ہیں وہی ایسے کام کرتے ہیں کہ عوام کو بجائے سہولتیں و آسانیاں فراہم کرنے ، ان کے مسائل حل کرنے، انھیں روٹی، کپڑا، مکان، روزگار اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے الٹا ان سے روٹی، روزگار چھیننے اور انھیں فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ صحت و تعلیم کا حق چھین لیتے ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد جس تیز رفتاری سے ان کے بینک بیلنس و جائیداد میں اضافہ ہوتا اس سے کئی گنا برق رفتاری سے عام آدمی کی زندگی پاتال میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، جہالت، بیماری اور انصاف کی عدم فراہمی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ملک کی معیشت تباہ و برباد اور قرضوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے۔ ملک و قوم عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے پھر لوگوں کے پاس سوائے احتجاج بلند کرنے اور حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔ وہ مجبور ہو کر گھروں سے نکلتے ہیں، اہل اقتدار کے خلاف اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کرتے ہیں، حکمرانوں کے محلات کا گھیراؤ کرتے ہیں، ان کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور اہل اقتدار کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں تازہ ترین مثال سری لنکا کی دی جاسکتی ہے۔
جہاں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بدترین معاشی بحران سے تنگ آئے عوام نے حکومت کی جانب سے گھروں سے نہ نکلنے کے انتباہ کے باوجود گھروں سے نکلنے کا دلیرانہ و جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ سری لنکن عوام کا جم غفیر صدر مملکت گوٹاراجاپاکسے کے محل کی طرف احتجاج کرتا ہوا بڑھا اور اس پر دھاوا بول دیا۔ صدارتی محل میں بپھرے ہوئے لوگوں نے توڑپھوڑ کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا، محل کی راہداریوں میں نعرے بازی کرتے رہے اور ''صدر گوٹا گھر جاؤ'' کے بلند آہنگ نعرے لگاتے رہے۔
وطن عزیز کے حکمرانوں نے بھی اپنے بودے اقدامات اور کمزور معاشی پالیسیوں سے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ مہنگائی کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 13 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، نہ صرف یہ کہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں، آٹا، چاول، چینی، دالیں، گوشت، سبزیاں، دودھ اور انڈے وغیرہ غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پہ مستزاد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن کے بعد اضافہ کرنا حکومت کی مجبوری بن گیا ہے۔
آئی ایم ایف کو خوش کرکے قرضہ حاصل کرنے کے لیے حکومت عوام دشمن اقدامات کے ذریعے مہنگائی کا عذاب عوام پر مسلط کر رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے، ڈالر ہوا سے باتیں کر رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے ایک پریس کانفرنس میں شرح سود میں مزید اضافے کی خبر سناتے ہوئے تسلیم کیا کہ بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کی وجہ سے عام آدمی پر بے انتہا معاشی دباؤ پڑا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تاجر اور صنعت کار طبقہ شرح سود میں بار بار اضافے کے رجحان سے نالاں ہے۔
سری لنکا کے حالات کے تناظر میں وطن عزیز کے معاشی و اقتصادی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ حکمران معاشی حوالے سے جو سخت گیر اقدامات اور فیصلے کر رہے ہیں اور عام آدمی ان سے جس بری طرح متاثر ہو رہا ہے وہ حکومت کے لیے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کے کروڑوں غریبوں کی مشکلات کم کرنے کے اقدامات اٹھائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ سری لنکن عوام کی طرح یہاں کے غربا بھی کاخ امرا کے در و دیوار ہلانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔