کراچی کی بربادی اور طاقت کا نشہ
بچے، بڑے پانی میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے موت کے قریب پہنچ گئے
NEW DELHI:
کسی دن وقت ملے تو ان حکمرانوں کی قبروں کو دیکھ لیں جو نگاہ عبرت بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت مجھے قرآن پاک کی سورۃ التکاثر یاد آگئی ہے ''تم کو مال کی بہت سی طلب نے (اللہ سے) غافل کردیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔'' اسی سورۃ کی ایک آیات میں اللہ یقین دلاتے ہوئے زرپرستوں سے فرما رہا ہے ''ہاں، ہاں! اگر تم جانتے، یقینی طور پر (تو مال کی محبت نہ رکھتے) اب تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے، تو تم کو پختہ یقین ہو جائے گا۔''
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے ایسے کام کیے ،جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، لیکن ایک معمولی سی غلطی نے انھیں تخت سے تختے تک پہنچا دیا۔ صرف ایک قتل، بظاہر ایک قتل کی سزا ۔ جب کہ آج ایک نہیں بارہ، بارہ بلکہ اس سے زیادہ معصوم لوگوں کے قاتل شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل کیفر کردار تک آج تک نہیں پہنچ سکا۔
دنیا بھر میں بہت سے مقتدر لوگ شان و شوکت سے حکومت کیاکرتے تھے، لیکن وہ بھی اپنے کرتوتوں کی بنا پر دنیا کے لیے ایسی شرم ناک مثال بن گئے کہ ان کا کوئی نام لیوا نہ رہا۔ دولت، پیسہ، سونے چاندی کے انبار دھرے رہ گئے، اپنی زندگی کو نہ بچا سکے اور نہ اپنی دولت کی بدولت اپنی تڑپتی، سسکتی اولاد کو موت سے زیست کی طرف لاسکے۔ ہمارا ماضی اور حال عوام کے لیے ایک سا ہی تھا اور ہے۔ نہ بجلی، نہ پانی اور نہ پیٹ بھر روٹی۔۔۔ غریب کو دکھوں اور محرومیوں کے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔
ہر سال موسم بدلتے ہیں لیکن شہریوں کو مشکلات اور پریشانیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا غیر ذمے دارانہ رویہ کراچی کو لے ڈوبا، کسی طرح کا انتظام نہیں ہے،کوئی قابل تعریف کام نظر نہیں آتا۔کسی زمانے میں موسم برسات دلوں کو تازگی اور خوشی بخشتا تھا، جینے کی امنگ پروان چڑھتی تھی، لیکن انتظامیہ کی نااہلی نے عوام کا سکھ چین چھین لیا۔ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تالا ب بن گئیں، چلتا پھرتا پانی کا ریلا جو گھروں میں بھی داخل ہوا اور شاہراہوں اور گلیوں میں بھی، مکین کہاں جائیں گھر اور باہر میں کوئی فرق نہیں رہا۔ صوفہ، کرسیاں، برتن، بھانڈے گزرے برسوں کی طرح سطح آب پر تیرتے رہے۔ بچے، بڑے پانی میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے موت کے قریب پہنچ گئے اور بہت سے اللہ کے دربار میں حکمرانوں کی شکایتیں لے کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔
کراچی کے تاجر اور دوسرے تمام ادارے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔عوام اگر ٹیکس دیتے ہیں تو اس کی ادائیگی اسے فائدہ بھی پہنچاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں طاقت کے زور پر ہر وہ کام کیا جاتا ہے جس کے کرنے سے غریب انسان آہیں اور سسکیاں لینے پر مجبور ہے۔ اس برسات میں کئی لوگ جاں بحق ہوگئے، حکومت کا کیا گیا؟ اپنے محلوں میں خوش باش ہیں۔ مرحومین کے لواحقین کو دس لاکھ رقم دے دی جائے گی اور بس۔۔۔! جس کا اپنا بچھڑا، گھر کا چراغ گل ہوا، ان کے دلوں سے پوچھیں، کیا گزری ہوگی؟ جن کے گھروں میں بارش نے تباہی مچائی اس آفت نے گھر کی قیمتی اشیا خصوصاً بچیوں کے جہیز کو برباد کردیا، ان غریب ماؤں نے بڑی محنت مشقت اٹھا کر چیزیں جمع کی تھیں، وہ سب مال و اسباب برسات کی نذر ہوگیا، کوئی ان کی امداد کرنے والا نہیں۔
کراچی میں ایک نہیں، بے شمار پسماندہ علاقے ہیں جہاں جھگیاں اور کچے مکانات ہیں، ان گھروں اور جھونپڑیوں میں کبھی آگ لگ جاتی ہے تو کبھی دیواریں گر جاتی ہیں، جانیں بھی جاتی ہیں اور گھر گرہستی بھی، افسوس کراچی پر حکومت کرنے اور ٹیکس وصول کرنے والوں نے کراچی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اگر عوام ٹیکس دینا بند کردیں تو حکومت کی طرف سے مزید ظلم ڈھایا جاتا ہے۔بجلی کاٹ دی جائے گی، دفاتر اور دوسرے اداروں پر تالے ڈال دیے جائیں گے، تجارت کرنے والوں کو ہراساں کرنا بھی ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ عوام کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے، آمدنی ہے نہیں، جو کچھ محنت کش کماتے ہیں وہ بھتے کے طور پر پولیس کے اہلکار وصول کرلیتے ہیں، اکثر ٹھیلے اور پتھارے زمین پر الٹے نظر آتے ہیں، پھل اور سبزیاں سڑک پر پڑی اپنی بے بسی کا نقشہ کھینچتی نظر آتی ہیں اس کی وجہ پولیس اہلکاروں کو اپنی حق حلال کی کمائی کا حصہ دینے سے انکار ہوتا ہے، وہ طاقت کے بل پر غیض و غضب میں آ کر دھوپ اور شدید گرمی میں کھڑے انسان پر کبھی بوٹ کی نوک سے تو کبھی بندوق کے بٹ سے ستم کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔
حج کے موقع پر ڈاکٹر شیخ محمد بن عبدالکریم العیسی نے اپنے خطبے میں فرمایا ''نفرت پھیلانے والی چیز سے دور ہو جائیں، ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کی عزت و حرمت اس پر حرام ہے۔'' گویاایک مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، لیکن ہمارے ملک میں تو بھرے بازار میں کسی غیر کو نہیں اپنے سگے باپ کو خنجر کے وار سے قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ حالیہ واقعہ ہے، جو وزیر آباد میں پیش آیا۔ اس کی وجہ قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ یہ رویہ اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔فرعون نے پانی میں غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میں موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا، لیکن وقت نکل چکا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ سچی توبہ کرلیں۔
کسی دن وقت ملے تو ان حکمرانوں کی قبروں کو دیکھ لیں جو نگاہ عبرت بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت مجھے قرآن پاک کی سورۃ التکاثر یاد آگئی ہے ''تم کو مال کی بہت سی طلب نے (اللہ سے) غافل کردیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔'' اسی سورۃ کی ایک آیات میں اللہ یقین دلاتے ہوئے زرپرستوں سے فرما رہا ہے ''ہاں، ہاں! اگر تم جانتے، یقینی طور پر (تو مال کی محبت نہ رکھتے) اب تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے، تو تم کو پختہ یقین ہو جائے گا۔''
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے ایسے کام کیے ،جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، لیکن ایک معمولی سی غلطی نے انھیں تخت سے تختے تک پہنچا دیا۔ صرف ایک قتل، بظاہر ایک قتل کی سزا ۔ جب کہ آج ایک نہیں بارہ، بارہ بلکہ اس سے زیادہ معصوم لوگوں کے قاتل شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل کیفر کردار تک آج تک نہیں پہنچ سکا۔
دنیا بھر میں بہت سے مقتدر لوگ شان و شوکت سے حکومت کیاکرتے تھے، لیکن وہ بھی اپنے کرتوتوں کی بنا پر دنیا کے لیے ایسی شرم ناک مثال بن گئے کہ ان کا کوئی نام لیوا نہ رہا۔ دولت، پیسہ، سونے چاندی کے انبار دھرے رہ گئے، اپنی زندگی کو نہ بچا سکے اور نہ اپنی دولت کی بدولت اپنی تڑپتی، سسکتی اولاد کو موت سے زیست کی طرف لاسکے۔ ہمارا ماضی اور حال عوام کے لیے ایک سا ہی تھا اور ہے۔ نہ بجلی، نہ پانی اور نہ پیٹ بھر روٹی۔۔۔ غریب کو دکھوں اور محرومیوں کے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔
ہر سال موسم بدلتے ہیں لیکن شہریوں کو مشکلات اور پریشانیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا غیر ذمے دارانہ رویہ کراچی کو لے ڈوبا، کسی طرح کا انتظام نہیں ہے،کوئی قابل تعریف کام نظر نہیں آتا۔کسی زمانے میں موسم برسات دلوں کو تازگی اور خوشی بخشتا تھا، جینے کی امنگ پروان چڑھتی تھی، لیکن انتظامیہ کی نااہلی نے عوام کا سکھ چین چھین لیا۔ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تالا ب بن گئیں، چلتا پھرتا پانی کا ریلا جو گھروں میں بھی داخل ہوا اور شاہراہوں اور گلیوں میں بھی، مکین کہاں جائیں گھر اور باہر میں کوئی فرق نہیں رہا۔ صوفہ، کرسیاں، برتن، بھانڈے گزرے برسوں کی طرح سطح آب پر تیرتے رہے۔ بچے، بڑے پانی میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے موت کے قریب پہنچ گئے اور بہت سے اللہ کے دربار میں حکمرانوں کی شکایتیں لے کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔
کراچی کے تاجر اور دوسرے تمام ادارے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔عوام اگر ٹیکس دیتے ہیں تو اس کی ادائیگی اسے فائدہ بھی پہنچاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں طاقت کے زور پر ہر وہ کام کیا جاتا ہے جس کے کرنے سے غریب انسان آہیں اور سسکیاں لینے پر مجبور ہے۔ اس برسات میں کئی لوگ جاں بحق ہوگئے، حکومت کا کیا گیا؟ اپنے محلوں میں خوش باش ہیں۔ مرحومین کے لواحقین کو دس لاکھ رقم دے دی جائے گی اور بس۔۔۔! جس کا اپنا بچھڑا، گھر کا چراغ گل ہوا، ان کے دلوں سے پوچھیں، کیا گزری ہوگی؟ جن کے گھروں میں بارش نے تباہی مچائی اس آفت نے گھر کی قیمتی اشیا خصوصاً بچیوں کے جہیز کو برباد کردیا، ان غریب ماؤں نے بڑی محنت مشقت اٹھا کر چیزیں جمع کی تھیں، وہ سب مال و اسباب برسات کی نذر ہوگیا، کوئی ان کی امداد کرنے والا نہیں۔
کراچی میں ایک نہیں، بے شمار پسماندہ علاقے ہیں جہاں جھگیاں اور کچے مکانات ہیں، ان گھروں اور جھونپڑیوں میں کبھی آگ لگ جاتی ہے تو کبھی دیواریں گر جاتی ہیں، جانیں بھی جاتی ہیں اور گھر گرہستی بھی، افسوس کراچی پر حکومت کرنے اور ٹیکس وصول کرنے والوں نے کراچی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اگر عوام ٹیکس دینا بند کردیں تو حکومت کی طرف سے مزید ظلم ڈھایا جاتا ہے۔بجلی کاٹ دی جائے گی، دفاتر اور دوسرے اداروں پر تالے ڈال دیے جائیں گے، تجارت کرنے والوں کو ہراساں کرنا بھی ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ عوام کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے، آمدنی ہے نہیں، جو کچھ محنت کش کماتے ہیں وہ بھتے کے طور پر پولیس کے اہلکار وصول کرلیتے ہیں، اکثر ٹھیلے اور پتھارے زمین پر الٹے نظر آتے ہیں، پھل اور سبزیاں سڑک پر پڑی اپنی بے بسی کا نقشہ کھینچتی نظر آتی ہیں اس کی وجہ پولیس اہلکاروں کو اپنی حق حلال کی کمائی کا حصہ دینے سے انکار ہوتا ہے، وہ طاقت کے بل پر غیض و غضب میں آ کر دھوپ اور شدید گرمی میں کھڑے انسان پر کبھی بوٹ کی نوک سے تو کبھی بندوق کے بٹ سے ستم کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔
حج کے موقع پر ڈاکٹر شیخ محمد بن عبدالکریم العیسی نے اپنے خطبے میں فرمایا ''نفرت پھیلانے والی چیز سے دور ہو جائیں، ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کی عزت و حرمت اس پر حرام ہے۔'' گویاایک مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، لیکن ہمارے ملک میں تو بھرے بازار میں کسی غیر کو نہیں اپنے سگے باپ کو خنجر کے وار سے قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ حالیہ واقعہ ہے، جو وزیر آباد میں پیش آیا۔ اس کی وجہ قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ یہ رویہ اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔فرعون نے پانی میں غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میں موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا، لیکن وقت نکل چکا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ سچی توبہ کرلیں۔