آپ کی عظمت کو سلام
تھر میں قحط اور اموات نے سندھ حکومت کی کارکردگی کا گراف بہت اونچا کر دیا‘
تھر میں قحط اور اموات نے سندھ حکومت کی کارکردگی کا گراف بہت اونچا کر دیا' ہر طرف سے ایک ہی پکار اٹھی ہے' پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے کمال کر دیا' قحط سامنے تھا مگر وہ گھبرائی نہیں اور سینہ تان کر سندھ کی ثقافت بچاتی رہی لیکن اس سے چند روز قبل ہماری وزارت داخلہ نے بھی کمال کیا ہے۔ اس نے سانحہ اسلام آباد میں شہید ہونے والے جج صاحب کے قاتل کو ڈھونڈ نکالا' اسے کہتے ہیں کارکردگی۔جناب چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں ہمارے معزز عوامی نمایندوں کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد کچہری میں جو جج صاحب شہید ہوئے ہیں' انھیں دہشت گردوں نے نہیں مارا بلکہ وہ اپنے ہی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ظالم گارڈ کو گرفتار کر لیا گیاہے۔ عوام کے نمایندوں نے ہمہ تن گوش ہو کر وفاقی وزیر داخلہ کی انکشافات سے بھرپور تقریر سنی۔ جناب وزیر داخلہ خود تو اس راز تک نہیں پہنچے ہوں گے اور نہ ہی گارڈ نے ان سے بالمشافہ ملاقات کر کے اقبال جرم کیا ہو گا۔
انھیں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ہی حیرت انگیز انکشاف پر مبنی یہ رپورٹ دی ہو گی جسے وزیر داخلہ نے پرجوش انداز میں پڑھ کر سنا دیا اور تنقید کے تیروں کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ اب یہ کیس عدالت میں ہے' کون قاتل ہے اور کون نہیں' اس کا فیصلہ تو نجانے کیا ہو گا'لیکن پولیس کی اس رپورٹ نے سانحہ اسلام آباد کچہری کے سارے تاثر اور کیفیت کو ہی تبدیل کر دیا ہے' اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں دہشت گردی کی واردات نہیں ہوئی بلکہ روایتی قتل ہوا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ محترم وزیر داخلہ نے اتنے اہتمام سے یہ انکشاف کیوں کیا' انھیں تو دہشت گردی کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے تھا۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اسلام آباد کچہری میں جاں بحق ہونے والے دیگر پاکستانی چونکہ جج صاحب نہیں تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ گارڈ تھے' اس لیے ان کی موت کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔ دہشت گردی کے دیگر مقتولین ایسے ہی ہیں جیسے صحرا تھر میں مرنے والے سندھی بچے۔ ویسے اسلام آباد کچہری میں مرنے والوں کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اللہ کی طرف سے موت آئی ہوئی تھی' اس لیے وہ مر گئے' اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔دہشت گردی تو محض ایک بہانہ ہے۔
خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
سانحہ اسلام آباد کچہری کی پولیس رپورٹ نے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرنے والوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود ہی مر گئے ہوں۔ ہمارے تحقیقاتی اداروں کو اس حوالے سے از سر نو تحقیقات کرنی چاہیے کہ کہیں انھیں بھی خود کش بمبار کے بجائے کسی اندر کے آدمی نے فائرنگ کر کے مار نہ دیا ہو' یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ خود کش دھماکے کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے ہوں یا ایسا بھی ہو سکتا کہ بعض قاتل گینگ وہاں خود کش حملہ آور کے آنے سے پہلے ہی لاشیں پھینک گئے ہوں اور سارا الزام بیچارے بے گناہ خود کش اور اس کے سرپرستوں پر پڑ گیا۔ وہ تو پہلے ہی واویلا کررہے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے۔
اس خفیہ ہاتھ کی حشر سامانیوں کو چھوڑیں' ایک اور نکتہ پر غور کرتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام مرنے والوں نے خود کشی کر لی ہو۔ ویسے بھی جس ملک میں مائیں اپنے بچوں کو قتل کر دیں وہاں خود کشی کرنا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ اگر ہماری وزارت داخلہ کے ماتحت ایجنسیاں دہشت گردی کی وارداتوں میں مرنے والے پچاس ہزار افراد کی موت کی ازسر نو تحقیقات کریں تو بڑے حیران کن نتائج سامنے آسکتے ہیں اور ممکن ہے کئی ایسے سازشی عناصر بے نقاب ہو جائیں جو بلا وجہ دہشت گردوں کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں اور انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں جو پچاس ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں' ان میں مبالغہ آمیزی شامل ہے۔ یہ اعدادوشمار ملک دشمنوں نے دیے ہیں' اگر تحقیقات وزارت داخلہ کے ذریعے کرائی جائیں تو یہ حیرت انگیز اور خوش کن بات سامنے آئے گی کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں صرف خود کش حملہ آور ہی مارا گیا ہو گا باقی لوگ تو اللہ کی آئی سے یا حملہ آور کو مارنے کی کوشش میں مر گئے' اس میں کسی مبینہ دہشت گرد گروہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔عوام خود ہی مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ منیر نیازی مرحوم نے شاید انھی کے لیے کہا تھا؎
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو میں حکمرانوں کو ایک تجویز دینا چاہتا ہوں۔ضلع کچہریوں' پولیس تھانوں' ہائیکورٹ اور سپریم کورٹس کی عمارتوں' ایوان وزیراعظم' ایوان صدر' آئی جی آفسز اور دیگر وزرا کرام و عوامی نمایندگان تمام کی رہائش گاہوں کو بم پروف بنا دیا جائے' ان مقتدر و مقدس شخصیات کی رہائش گاہوں کی دیواریں دیوار چین کی طرح محفوظ اور مضبوط ہونی چاہئیں کیونکہ ہم نے دہشت گردوں کو کچھ نہیں کہنا' یا وہ ہمارے بس سے باہر ہیں، وہ آزاد گھومتے رہیں' جدھر مرضی چاہیں چلے جائیں' جہاں چاہیں دھماکا کردیں' وہ کسی بازار میں بم دھماکا کریں' کسی مزار' مسجد اور امام بار گاہ کو خون میں نہلا دیں' انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے' جو لوگ مر رہے ہیں یا تو اپنے گارڈز کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں یا پھر قدرت نے ان کی ایسے ہی لکھی ہوئی ہے' اس میں حکمرانوں کا کیا قصور' اے حاکمان وقت آپ کی عظمت کو سلام۔
انھیں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ہی حیرت انگیز انکشاف پر مبنی یہ رپورٹ دی ہو گی جسے وزیر داخلہ نے پرجوش انداز میں پڑھ کر سنا دیا اور تنقید کے تیروں کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ اب یہ کیس عدالت میں ہے' کون قاتل ہے اور کون نہیں' اس کا فیصلہ تو نجانے کیا ہو گا'لیکن پولیس کی اس رپورٹ نے سانحہ اسلام آباد کچہری کے سارے تاثر اور کیفیت کو ہی تبدیل کر دیا ہے' اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں دہشت گردی کی واردات نہیں ہوئی بلکہ روایتی قتل ہوا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ محترم وزیر داخلہ نے اتنے اہتمام سے یہ انکشاف کیوں کیا' انھیں تو دہشت گردی کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے تھا۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اسلام آباد کچہری میں جاں بحق ہونے والے دیگر پاکستانی چونکہ جج صاحب نہیں تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ گارڈ تھے' اس لیے ان کی موت کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔ دہشت گردی کے دیگر مقتولین ایسے ہی ہیں جیسے صحرا تھر میں مرنے والے سندھی بچے۔ ویسے اسلام آباد کچہری میں مرنے والوں کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اللہ کی طرف سے موت آئی ہوئی تھی' اس لیے وہ مر گئے' اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔دہشت گردی تو محض ایک بہانہ ہے۔
خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
سانحہ اسلام آباد کچہری کی پولیس رپورٹ نے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرنے والوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود ہی مر گئے ہوں۔ ہمارے تحقیقاتی اداروں کو اس حوالے سے از سر نو تحقیقات کرنی چاہیے کہ کہیں انھیں بھی خود کش بمبار کے بجائے کسی اندر کے آدمی نے فائرنگ کر کے مار نہ دیا ہو' یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ خود کش دھماکے کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے ہوں یا ایسا بھی ہو سکتا کہ بعض قاتل گینگ وہاں خود کش حملہ آور کے آنے سے پہلے ہی لاشیں پھینک گئے ہوں اور سارا الزام بیچارے بے گناہ خود کش اور اس کے سرپرستوں پر پڑ گیا۔ وہ تو پہلے ہی واویلا کررہے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے۔
اس خفیہ ہاتھ کی حشر سامانیوں کو چھوڑیں' ایک اور نکتہ پر غور کرتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام مرنے والوں نے خود کشی کر لی ہو۔ ویسے بھی جس ملک میں مائیں اپنے بچوں کو قتل کر دیں وہاں خود کشی کرنا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ اگر ہماری وزارت داخلہ کے ماتحت ایجنسیاں دہشت گردی کی وارداتوں میں مرنے والے پچاس ہزار افراد کی موت کی ازسر نو تحقیقات کریں تو بڑے حیران کن نتائج سامنے آسکتے ہیں اور ممکن ہے کئی ایسے سازشی عناصر بے نقاب ہو جائیں جو بلا وجہ دہشت گردوں کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں اور انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں جو پچاس ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں' ان میں مبالغہ آمیزی شامل ہے۔ یہ اعدادوشمار ملک دشمنوں نے دیے ہیں' اگر تحقیقات وزارت داخلہ کے ذریعے کرائی جائیں تو یہ حیرت انگیز اور خوش کن بات سامنے آئے گی کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں صرف خود کش حملہ آور ہی مارا گیا ہو گا باقی لوگ تو اللہ کی آئی سے یا حملہ آور کو مارنے کی کوشش میں مر گئے' اس میں کسی مبینہ دہشت گرد گروہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔عوام خود ہی مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ منیر نیازی مرحوم نے شاید انھی کے لیے کہا تھا؎
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو میں حکمرانوں کو ایک تجویز دینا چاہتا ہوں۔ضلع کچہریوں' پولیس تھانوں' ہائیکورٹ اور سپریم کورٹس کی عمارتوں' ایوان وزیراعظم' ایوان صدر' آئی جی آفسز اور دیگر وزرا کرام و عوامی نمایندگان تمام کی رہائش گاہوں کو بم پروف بنا دیا جائے' ان مقتدر و مقدس شخصیات کی رہائش گاہوں کی دیواریں دیوار چین کی طرح محفوظ اور مضبوط ہونی چاہئیں کیونکہ ہم نے دہشت گردوں کو کچھ نہیں کہنا' یا وہ ہمارے بس سے باہر ہیں، وہ آزاد گھومتے رہیں' جدھر مرضی چاہیں چلے جائیں' جہاں چاہیں دھماکا کردیں' وہ کسی بازار میں بم دھماکا کریں' کسی مزار' مسجد اور امام بار گاہ کو خون میں نہلا دیں' انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے' جو لوگ مر رہے ہیں یا تو اپنے گارڈز کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں یا پھر قدرت نے ان کی ایسے ہی لکھی ہوئی ہے' اس میں حکمرانوں کا کیا قصور' اے حاکمان وقت آپ کی عظمت کو سلام۔