طاقت

طاقت زبان کی ہوتی ہے اور دولت کی بھی۔ طاقت قلم کی بھی اور علم کی بھی دیکھی جاتی ہے اور کیمرے کی بھی،

03332257239@hotmail.com

جنگل میں چند جانور مل کر ایک شکار کرتے ہیں۔ ان جانوروں میں شیر بھی شامل ہوتا ہے۔ جب شکار کی تقسیم کا موقع آتا ہے تو شیر کہتا ہے کہ اس کے تین حصے ہونے چاہئیں۔ سب جانور متفق ہو جاتے ہیں۔ شیر کہتا ہے کہ ایک حصہ میرا اس لیے ہونا چاہیے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔ شکار میں شامل تمام جانور رضامند ہو جاتے ہیں۔ شیر کہتا ہے کہ دوسرا حصہ بھی مجھے ملنا چاہیے کہ میں بھی شکار کرنے میں شریک تھا۔ مجبوراً کمزور جانور اس پر بھی راضی ہو جاتے ہیں کہ انھیں کچھ نہ کچھ تو ملے گا۔ شیر کہتا ہے کہ اب سوال رہ گیا ہے کہ تیسرا حصہ کسے ملنا چاہیے؟ وہ کہتا ہے کہ جس میں ہمت ہے وہ یہ حصہ لے لے۔ تمام جانور منہ لٹکا کر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہے طاقت کی تعریف۔ کوئی خبر پڑھ لیں، کسی کا بیان سن لیں، کوئی ٹاک شو نظر سے گزر جائے، ہر جگہ ہمیں نظر آتا ہے کہ طاقت کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ سارے مسائل کی جڑ یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے جائز حصے پر راضی نہیں۔ جس میں طاقت ہے وہ پہلے کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے حصے پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اسے اردو محاورے میں ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کہتے ہیں۔ طاقت کے اندھا دھند استعمال پر شاید یہ مختصر جملہ نا انصافی، دھونس، جبر اور دھاندلی کی پوری صورت حال واضح کر دیتا ہے۔

طاقت زبان کی ہوتی ہے اور دولت کی بھی۔ طاقت قلم کی بھی اور علم کی بھی دیکھی جاتی ہے اور کیمرے کی بھی، طاقت جسمانی بھی ہوتی ہے اور اسلحے کی بھی، طاقت اکثریت کی بھی ہوتی ہے اور زمین پر قبضے کی بھی۔ ہم اس طاقت کے ناجائز استعمال کی بات کریں گے جس نے ہمارے معاشرے کو اس حال پر پہنچایا ہے۔ ذرا یہ مثال دیکھیں۔ ایک سڑک پر پولیس وین تیزی سے بھاگتی ہوئی آ رہی تھی۔ سگنل پر رکی تو ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر جاننے والا سب انسپکٹر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے کہا کہ تمہارے ڈرائیور کے پاس تین طاقتیں ہیں جو ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں اس وقت تو گفتگو کا موقع نہ تھا جب عدالت میں ملاقات ہوئی تو پولیس افسر نے تین طاقتوں کا راز پوچھا۔ جوانی، وردی اور اسٹیئرنگ کی طاقت بیک وقت ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ گاڑی تو ضرور بھگائے گا جب ایک یا دو طاقتوں کا نشہ ہوتا ہے وہاں تین طاقتیں کہاں ٹھہر سکتی ہیں۔ آقائے دو جہاںؐ کی یہ حدیث اگر ہمارے سامنے رہے تو ہمارے اکثر مسائل حل ہو سکتے ہیں ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک دوسرا شخص اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ نہ ہو'' یہ مفہوم تھا اس بات کا جو دنیا کو امن فراہم کر سکتا ہے۔ ہماری بے سکونی اس وقت ختم ہو گی جب ہم آج کے معاشرے میں طاقت کے غلط استعمال کو سمجھیں۔ بد قسمتی سے آج ہم صرف اسلحے کے غلط استعمال کو ہی برا سمجھ رہے ہیں۔ طاقت کے دوسرے اظہار پر ہماری نظر نہیں ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ اگر ایک آدمی دوسرے کو گالی دے اور جواب میں وہ اسے تھپڑ مار دے تو قصور وار کون؟ تھپڑ کی گونج ایک کو قصور وار ٹھہراتی ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ غلطی پہلے کی ہو۔ بوجھل ہوتے کالم کو ایک لطیفے سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسے لطیفہ سمجھیں یا کوئی قصہ کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو گلوکارہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ بڑی محبت اور چاؤ سے اس کے لیے طبلہ، ہارمونیم اور گٹار لایا ہوتا ہے۔ جب وہ خاتون گانا شروع کرتی تو پڑوسی کا کتا بھونکنا شروع کر دیتا ہے۔ کئی مرتبہ کتے کی بے جا مداخلت سے موسیقی کے خوب صورت رنگ میں بھنگ پڑ چکا تھا۔ وہ شوہر نامدار برابر والے سے شکایت کرنے پہنچ گئے۔ پڑوسی بڑا شرمندہ ہوا کہ ہمارے جانور کی بدولت ان صاحب کی بیگم کے شوق کا حرج ہو رہا ہے۔ اس نے کتے کو یہاں وہاں کرنے کی کوشش کی۔ اب بیگم صاحبہ کے گانے کا کوئی وقت تو متعین نہیں تھا۔ پھر وہ گانے لگیں اور کتا بھونکنے لگا۔ وہ صاحب پڑوسی سے پھر شکایت کرنے پہنچ گئے۔ اس نے جواب دیا کہ ''اب کیا کروں جانور تو جانور ہے۔ اب اس کے بھونکنے پر میرا کیا کنٹرول'' وہ صاحب نہ مانے تو پڑوسی نے کہاکہ ''میرا کتا بھونکتا ہے آپ کی بیگم کی نغمہ سرائی پر'' یہی شکایت ہے نا۔ انھوں نے کہا بالکل یہی شکایت ہے۔ پڑوسی نے جواب دیا کہ دیکھیں اس معاملے میں پہل تو آپ کی بیگم ہی کرتی ہیں نا۔


پہل جی ہاں پہل کون کرتا ہے؟ ہمیں طاقت کے غلط استعمال کا جائزہ لے کر طے کرنا پڑے گا۔ پہلے دولت کی طاقت پر آتے ہیں۔ تاجر حضرات بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی بات کرتے ہیں۔ بالکل ان کی شکایت بجا ہے۔ اب دیکھیں کہ بندوق کی ایک طاقت ہے اور دوسری طاقت ہے دولت کی، روپے پیسے کی طاقت سے ہمارے پاکستانی تاجر کیا کرتے ہیں؟ وہ ٹیکس نہیں دیتے اور نہ زکوٰۃ کی مکمل ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تہواروں پر چیزوں کے دام بڑھا کر غریبوں کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔ اب اگر 99 فی صد غریب چپ چاپ ظلم برداشت کریں اور صرف ایک فی صد کہیں کہ ہم مانگیں گے نہیں چھینیں گے۔ تو کیا ہو؟ وہی جو آج کل معاشرے میں ہو رہا ہے۔ اس پر تفصیلاً دو مرتبہ کالم لکھے لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا صرف تاجروں کے شکوے شکایات دکھاتا ہے۔ ضرور دکھائے کہ ان کی شکایت بجا ہے جب تک ایک فریق کو دولت کے غلط استعمال سے نہیں روکا جائے گا تو دوسرے کو کس طرح بندوق کی طاقت کے غلط استعمال سے روکا جا سکتا ہے۔ حبیب جالبؔ نصف صدی قبل ظلم اور امن کے ساتھ رہنے کو نا ممکن قرار دے چکے ہیں۔

زبان، قلم اور کیمرے کی بھی ایک طاقت ہوتی ہے۔ اگر کوئی مقرر اپنی باتوں سے دوسرے تو تکلیف پہنچا رہا ہے تو وہ اس طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ اس طرح اگر قلم پکڑے کوئی مضمون نگار، افسانہ نگار، کالم نگار، ناول نگار یا ڈراما نگار ایسی تحریر قلم بند کرے جو دل فگار ہو تو؟ یقیناً اس کا رد عمل ہو گا۔ اسی طرح اگر کسی کے ہاتھ میں کیمرہ ہے اور وہ ٹی وی چینل کے ذریعے کسی کی بھی پگڑی اچھال سکتا ہے تو یہ غلط ہو گا۔ اس حوالے سے ابھی معاشرہ ابتدائی مرحلے میں ہے، ابھی اصول طے نہیں ہوئے اور ضابطے و قانون سازی ابتدائی مراحل میں ہے، اسی لیے نالے ہیں اور فریادیں ہیں۔ شکایات کے حل کا نہ کوئی فورم ہے اور نہ عدالت۔ کسی کی بے عزتی کرنے پر ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات کی کوئی قابل رشک ملکی تاریخ ہمارے سامنے نہیں۔ اسی طرح پھر نادان لوگ بندوق کا سہارا لیتے ہیں تو ہم دانشورانہ انداز میں اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ضرور کرنی چاہیے لیکن اسے رد عمل سمجھ کر عمل کی کھوج بھی لگانی چاہیے۔

اکثریت بھی ایک طاقت ہے۔ اس کے دو انداز ہمارے پاکستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو دبانے، ڈرانے اور دھمکانے کے حوالے سے ہمارے ملک میں کئی واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر کشمیر، فلسطین، افغانستان میں مظالم سے انکار نہیں لیکن پاکستان میں غیر مسلموں کواکثریت کی طاقت سے ڈرانے کا اکا دکا واقعہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ موقع شناسی کی طاقت سے انتخابات جیتنا اور فراڈ کرنا۔ ماضی کی اکثریت کو برقرار رکھنے کے لیے شاطرانہ طاقت کا ناجائز حربہ اختیار کرنا دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کا کوئی انتخاب ایسا نہیں جس میں دھاندلی کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔ ہمارے ملک میں یہ طاقتیں کہیں الگ ہیں اور کہیں مجتمع ہو چکی ہیں۔ پولیس وین میں بیٹھے ڈرائیور کی طرح حکمران طبقے کے پاس دولت بھی ہے اور اثر و رسوخ بھی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے زبان، قلم اور کیمرے کی طاقت بھی ان کے پاس ہے۔ اگر وہ عوامی نمایندے ہیں تو اکثریت کی طاقت بھی ان کے پاس ہے۔ اگر وہ بہتر نمایندے ہیں تو اسلحے کو اپنی حفاظت ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں اگر عوامی نمایندے اس خوبی سے خالی ہے تو وہ مخالفین کو ڈرانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اب طاقت کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے تین طریقے ہیں۔ انسان سمجھے کہ میری طاقت کے مقابل دوسرے کے پاس بھی طاقت ہے تو وہ رک جائے گا۔ اگر طاقتور دیکھے کہ فریق مخالف کمزور ہے تو وہ قانون کی طاقت سے ڈرتا ہے۔ اگر مد مقابل اور قانون دونوں کمزور ہوں تو وہ اوپر والے کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر ظلم سے باز رہ سکتا ہے۔ اگر خوف خدا کی تیسری دیوار بھی وہ گرا دے تو وہ شیر کی طرح کہتا ہے کہ تیسرا حصہ وہ لے لے جس میں ہے طاقت۔!!
Load Next Story