سیاسی سماجی اور معاشی حالات

منافقت، جعل سازی، برتری کے کھوکھلے رویوں اور جائیداد کاروبار کی ہوس پرستی گفتگو میں ظاہر ہوتی ہے

zb0322-2284142@gmail.com

آج سماج کا ہر شعبہ گزشتہ برسوں سے کہیں زیادہ خستہ حالی اور ذلت کا شکار ہے، سیاست، صحافت، مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، رشتے، جذبے، احساس غرض یہ کہ کوئی بھی ایسا شعبہ ہائے زندگی نہیں ہے جس میں تنزلی، اکتاہٹ اور انتشار شدت اختیار نہ کر گئے ہوں۔ تمام طبقات مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے اس بحران سے متاثر ہو کر بے چینی اور بیزاری کا شکار ہیں۔ تمام طبقاتی ڈھانچہ ایک ہلچل، ایک اضطراب میں مبتلا ہو کر کسی بہتر اور ترقی پسند مستقبل سے یاس، ناامیدی اور مختلف درجوں کی مایوسی میں مبتلا ہے۔ رائج الوقت طبقاتی تعلقات اور مروجہ کلاسیکی طبقاتی ڈھانچہ ظاہری طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور انتہائی مسخ شدہ شکلیں اختیار کر گیا ہے۔ سطحی سوچ اور کیفیت کے حوالے سے طبقاتی تفریق مبہم اور بگڑی ہوئی شکل اختیار کر چکی ہے سیاسی و سماجی جمود پرانے اور نئے تعصبات کو معاشرے کے اوپر مسلط کیے جا رہا ہے۔ سماجی افق پر طاری پژمردگی اور یاس نے سماج میں بیگانگی کو مزید کئی پہلو دے دیے ہیں۔

مارکس نے بیگانگی کی جو تعریف اور تشریح کی ہے اس محرومی نے اپنی پراگندگی کی نئی انتہاؤں میں داخل ہو کر اس کو کہیں زیادہ بگاڑ اور مسخ کر دیا ہے۔ آج اس معاشرے کا ہر باسی پہلے سے کہیں زیادہ تنہا اور بیگانہ ہو گیا ہے۔ صرف موبائل فون پاس نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ، بے چین اور مضطرب محسوس کرتا ہے۔ '' بِھیڑ اتنی پر دل اکیلا'' کا مصرعہ آج کہیں زیادہ سلگتی ہوئی حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے۔ روح غریب ہو چکی ہے۔ ہر طبقے کے ہر اول افراد بھی شدید عدم اعتماد کا شکار ہو چکے ہیں۔ جذبوں میں سچائی نہیں رہی، رشتوں سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور احساس پتھر ہو گیا ہے۔ ایسے میں ہر کوئی بقا کی اندھی اور خوفزدہ دوڑ میں بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سوچنے سمجھنے اور پوری طرح حالات اور حتیٰ کہ اپنے آپ کا ادراک رکھنا بھی محال ہو گیا ہے۔ معاشی اور اقتصادی بحران اتنا بھیانک ہو چکا ہے کہ اس نے زندگی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کر دیا ہے لیکن ماضی کی نسبت زندگی کے مسائل میں سلجھاؤ اور ''کاموں کا ہونا زیادہ دور ہوتا چلا گیا ہے۔

اتنی تیزی کے باوجود زندگی کی رفتار بہت سست ہو کر رہ گئی ہے۔ ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایک امتناعی عمل شعور کو مجروح اور زخمی کر رہا ہے۔ عمومی سماجی نفسیات شل سی ہو کر رہ گئی ہے۔ آسروں کی تلاش میں شدت آ گئی ہے۔ ملازمت سے لے کر چھوٹے کاروبار تک کی کامیابی کے حصول کے امید نہ ہونے کے باوجود امید لگائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ امید ہی شاید اب واحد سہارا ہے اور زندہ رہنے کا ذریعہ بھی۔ امیدیں بار بار ٹوٹتی ہیں اور بار بار نئی امیدیں لگائے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے جہاں مستقبل اندھیر ہو تو مستقبل سے پہلو تہی کے رویے پھیل جاتے ہیں۔ مستقبل کی بجائے ماضی کے تعصبات میں پناہ لینے کے رجحانات بڑھنے لگے ہیں، کبھی خونی رشتوں سے آس لگائی جاتی ہے تو وہ سرمائے کی اس خود غرضی میں اس حد تک غرق ہو چکے ہیں کہ وہاں سے بھی عموماً دھوکہ اور فریب ہی حاصل ہوتا ہے۔ خاندان کا ادارہ بری طرح بکھر چکا ہے۔ اس کا ڈھانچہ اور تعلقات درحقیقت ایک سراب، ایک بے آس خواہش اور ناقابل حاصل جستجو بن چکے ہیں۔


خاندان میں بھی ہر ناطہ مالیاتی مفادات سے جڑا ہوا ہے لیکن اس کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ پرانے روایتی اعتقاد اور حکایتوں کے حوالے سے نفسیات پر حاوی رہتا ہے۔ نجی ملکیت اور جائیداد خاندانی رشتوں کو اوپر سے لے کر نیچے تک زہر آلود کرتی جا رہی ہے اس ہولناک اقتصادی بحران میں جائیداد پر نفسیاتی انحصار بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے اگر کوئی 5مرلے کا مکان بھی ہے تو اس پر بھی خاندان کے ہر فرد کی نظر ہے کیونکہ اتنی معاشی بیگانگی اور بے یقینی کی کیفیت میں اس کو ذاتی اور انفرادی بقا کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ سمجھ کر اس کے حصول کی ہوس بڑھ جاتی ہے۔ انفرادی مفاد کی غیر محفوظ صورتحال میں اس کے حصول کے لیے خاندانی اور خونی رشتوں میں تنازعات عام ہو گئے ہیں۔ یہ سماج کا ایسا معمول بن گیا ہے جس کی مثال جاگیردارانہ نظام میں بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ زن، زر اور زمین کی چھینا جھپٹی اور قبضہ اب مسلسل تنازعات، قتل اور تصادموں کو جنم دے رہا ہے۔ خاندان کا مرکزی نقطہ ''ماں'' جو روایتی طور پر اس کا محور اور جرأت کا باعث سمجھا جاتا تھا، اپنی روایتی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ خاندان کا ادارہ اندر سے ان ہی تضادات اور تنازعات کا شکار ہو گیا ہے جن کی شدت پورے معاشرے میں پائی جاتی ہے۔

معاشرے کی تمام سطحوں پر عورت کے کردار اور اس کے سماجی رتبے میں ذلت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ مذہبی تعصبات کی شدت بعد میں بنتی ہے۔ پہلی بنیادی وجہ جائیداد اور خاندانی اثاثوں کی لڑائی میں حصہ داریوں کی کمی کرنا مقصود ہے۔ حکمران اور درمیانے طبقے میں عورت کا استحصال اور شعوری یا لاشعوری طور پر اس کی قدر منزلت، حیثیت اور رتبہ صنفی تعصبات کی وجہ سے بھی موجود ہے۔ اس کی مختلف شکلیں اور کیفیتیں ہیں لیکن پھر آخری تجزیے میں عورت کی سماجی حیثیت بھی اس کی معاشی اور طبقاتی حیثیت سے ہی مطابقت رکھتی ہے۔ حکمراں طبقے کی خواتین تمام تر جنسی و صنفی تعصبات اور استحصال کا شکار ہونے کے باوجود اپنی طبقاتی بالادستی کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ اس کو وہ حتمی سمجھتی ہیں اور اپنے صنفی استحصال کو دوسری محنت کش طبقے کی خواتین کے استحصال پر درگزر کر کے، حکمران مردوں اور عورتوں کے مل کر کیے جانے والے طبقاتی استحصال میں فریق بنتی ہیں۔ بیشتر اوقات یہ اپنے صنفی استحصال کا غصہ غریب عورتوں پر زیادہ جابرانہ استحصال اور ظلم کر کے زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ خاتون ملازماؤں کی جانب ان کا رویہ مردوں سے بھی زیادہ ہولناک ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ مردوں کی جنسی ہوس بھی ہے اور خواتین کا باہمی حسد بھی ہے۔

درمیانے طبقے کی خواتین زیادہ شدید نفسیاتی پراگندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک طرف وہ مسلسل جنسی و صنفی جبر برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں لیکن دوسری جانب وہ درمیانے طبقے کی اس نفسیات کی کہیں زیادہ آئینہ دار ہوتی ہیں جو عام معمول کے حالات خصوصاً نیم رجعت اور سماجی جمود کے عالم میں اوپر کے طبقے میں داخل ہونے کی مسلسل اندھی دوڑ میں شریک ہوتا ہے۔ وہ اس دوڑ کو مزید بھڑکاتی ہے اور ضروریات کے علاوہ حکمران طبقے کی پرتعیش زندگی اپنانے کے لیے مسلسل متحرک اور جنون کی حد تک اس کے در پے ہوتی ہیں خصوصاً وہ ''گھریلو'' خواتین جو ملازمائیں رکھ کر خود اتنا فاضل وقت نکال سکتی ہیں کہ کارپوریٹ میڈیا کے زہر آلود خاندانی ڈراموں اور پروگراموں میں محو ہو سکیں وہ ان کے رویوں اقدار رہن سہن اور آسائشوں کے حصول کی ہوس میں درمیانے طبقے کی اس اندھی دوڑ کو مزید اذیتناک بنا دیتی ہیں۔ یہ صورت حال درمیانے طبقے کے مردوں اور بچوں میں پائی جاتی ہے۔

جو ایک طرف گرتی ہوئی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہے اور دوسری جانب ایک طبقاتی سماج میں شدت اختیار کر جانے والے احساس کمتری اور بیگانگی کی غمازی کرتی ہے۔ ملک میں تفریح کے ذرایع، مقامات اور سماجی ملاپ کے مواقعوں کی قلت کی وجہ سے شادی بیاہ اور میلاد وغیرہ ہی اجتماعی ملن کی تقاریب اور محافل رہ گئے ہیں۔ یہاں اس بیرونی مصنوعیت کے میک اپ اور نمود و نمائش کے پیچھے اندر والے کی غربت اور احساس کی تنزلی چھپی ہوتی ہے۔ منافقت، جعل سازی، برتری کے کھوکھلے رویوں اور جائیداد کاروبار کی ہوس پرستی گفتگو میں ظاہر ہوتی ہے جس کی پستی میں یہ معاشرہ گر چکا ہے۔ زیادہ تر سیاسی بحثیں بھی اس جعلی اور مصنوعی سیاست کی ظاہریت پر مبنی ہوتی ہیں جس میں نظریات کی بجائے افراد زیر بحث ہوتے ہیں، نظاموں کی بجائے شخصیات پر بات چیت ہوتی ہے، فن کے بجائے فنکاروں کے بارے میں قصے، اسکینڈل اور قیاس آرائیاں زیر بحث آتی ہیں۔ اس قسم کی تقریبات اس ثقافتی اور اقدار و اخلاقیات کے معیار کی گراوٹ کا اظہار ہوتی ہیں جو اس زوال پذیر نظام کی خستہ حالی کی دلیل ہے۔ یہ نظام گل سڑ گیا ہے۔ اس کا متبادل صرف اور صرف ایک اشتمالی نظام ہی ہے۔
Load Next Story