ضمنی الیکشن کے نتائج
ضمنی الیکشن نے منحرف ارکان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا اور ایک طرح سے ان کی سیاست تقریباً ختم ہو چکی ہے
پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 15نشستیں جیت کر کئی تجزیہ نگاروں کی رائے کو غلط ثابت کردیا حالانکہ پی ٹی آئی کے حامی تجزیہ نگار دعویٰ کررہے تھے کہ پی ٹی آئی فاتح رہے گی۔
پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور دوسرے لیڈر عوامی جلسوں اور اپنے میڈیا بیانات میں تواتر سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بیس کی بیس نشتیں جیت جائیں گے جب کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کاروں کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن پندرہ سے سترہ نشتیں باآسانی جیت جائے گی لیکن نتائج مختلف نکلے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) صرف 4 سیٹیں جیت سکی ہے جب کہ ایک نشست پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔
پنجاب کے 20 حلقوں میں ٹرن آؤٹ 49.69 فیصد رہا۔جن نشستوں پر اتوار کو پولنگ ہوئی یہ تمام حلقے تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہوئے تھے ۔ پی ٹی آئی کے ان ارکان نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف (ن) لیگ کے وزیراعلیٰ حمزہ شہبازکو ووٹ دیا تھا، تحریک انصاف نے ان ارکان کی نااہلی کے لیے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔
اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرکے ان کی نششتیں خالی قرار دے دی تھیں۔ پنجاب بھر کے 14 اضلاع سے خالی ہونے والی، ان 20 نشستوں میں لاہور کی 4، راولپنڈی، خوشاب، بھکر، فیصل آباد، شیخوپورہ، ساہیوال، ملتان، بہاولنگر،لیہ کی ایک ایک، جھنگ کی 2، لودھراں کی 2، مظفر گڑھ کی 2 اور ڈیرہ غازی خان کی ایک نشست شامل تھی۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔
ن لیگ کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنے چاہئیں، عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، دل بڑا کرنا چاہیے، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے، انشاء اللّہ خیر ہوگی۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو تاریخی فتح ہوئی ہے۔ عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات ہوئی ہے۔ انھوں نے بھی عوام کی رائے کا احترام کرنے کا کہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، آج کی شکست شکستِ فاتحانہ ہے، مقابلہ اور جدوجہد جاری رہے گی، نتائج بتا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب حکومت غیر جانبدار تھے۔
الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے مکمل غیرجانبدار تھے اور یہ مکمل سیاسی مقابلہ تھا۔ انھوں نے کہا یہ نشستیں مسلم لیگ (ن) کی نہیں تھیں، ان 20 نشستوں پر مسلم لیگ(ن) ہاری یا ہروائی گئی تھی اور مخالف جیتے تھے۔ ہم نے جو چار سیٹیں حاصل کی ہیں وہی ہیں جو ہاری تھیں اور اب جیتی ہیں لیکن ہم نے اپنی کوئی سیٹ نہیں ہاری۔ یہ ایک اچھی روایت ہے، الیکشن میں شکست کو تسلیم کرنا جمہوری نظام اور جمہوری روایت کا اہم ترین جز ہے۔
ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، وہ جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے اور اس میں ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس بار مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ نے دوٹوک انداز میں ضمنی الیکشن کے نتائج تسلیم کرکے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں یا حکومت پرالزامات عائد کرنے کے کلچر کو خیرباد کہہ دے اور پرامن اور شفاف الیکشن کرانے پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہے کیونکہ یہی جمہوری اسپرٹ ہے۔
ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کی تازہ ترین صورتحال میں پی ٹی آئی پہلی پوزیشن پر آ گئی، 15 نئی نشستوں کے بعد پنجاب اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد 178 پر پہنچ گئی جب کہ پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی جماعت مسلم لیگ ق کے پنجاب اسمبلی میں دس ارکان ہیں۔
یوں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے ارکان کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہوجاتی ہے جب کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں 4 سیٹوں پر کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد167 پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی 7،آزاد ارکان کی تعداد 6 ہو گئی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک ممبر بھی اسمبلی کا حصہ ہے۔ یوں مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کی تعداد وزارت اعلیٰ کے لیے مطلوب تعداد سے کم ہے، سیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہے ، یہ کھیل کیا نتائج لاتا ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ کم از کم لاہور میں(ن) لیگ کو تمام سیٹیں جیتنی چاہیے تھیں لیکن وہ صرف ایک نشت ہی جیت پائی ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے لاہور پر زیادہ توجہ نہیں دی ،ماضی کی روایات کے برعکس (ن) لیگ کے امیدواران اور قیادت ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
(ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت کا خیال تھاکہ ماضی کی طرح اس بار بھی ان کے چاروں امیدوار لاہور سے جیتنے میں کامیاب رہیں گے،تاہم نتائج اس کے بالکل برعکس آئے،سیاسی ماہرین کے مطابق (ن) لیگ زیادہ بہتر انداز میں منصوبہ بندی نہ کر سکی، ووٹر کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنز تک لے جانے میں ناکام رہی۔ امیدوار بھی بہت زیادہ سرگرم نظر نہیں آئے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔کیا عمران خان اور ان کے ساتھی پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا کر بقیہ آئینی مدت پوری کرنے کو ترجیح دیں گے یا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی آپشن کی طرف جائیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر انھیں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت بھی تحلیل کرنا پڑے گی، اگر اس کے باوجود اتحادی حکومت وفاق میں قائم رہتی ہے، سندھ اور بلوچستان کی حکومت بھی قائم رہتی ہے تو کیا عمران خان اور اس کے اتحادی وفاق ، سندھ اور بلوچستان کو مجبور کرسکیں گے کہ وہ اسمبلیاں بھی تحلیل کردیں، کیونکہ اسی طرح فوری عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے،اس حوالے سے ان کی کیا حکمت عملی ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو بھی یہ بڑا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر کے آیندہ کا روڈ میپ طے کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی عام انتخابات کا آپشن اختیار کرلیں، بہرحال یہ فیصلہ انھیں کرنا ہی پڑنا ہے کہ وہ فوری الیکشن کی جانب جائیں یا پھر اقتدار میں رہنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے اپنے کارڈز کھیلیں، فی الحال تو ایسا لگتاہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے وفاق اور پنجاب حکومت کی رسہ کشی شروع ہوسکتی ہے ، ضمنی انتخابات نے ثابت کردیا کہ مخلوط حکومت کے مختصر دور اقتدار میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی نے ووٹر کے ذہن کو تبدیل کیا ہے۔
عمران خان کے بیرونی مداخلت اور لوٹا ارکان کے بیانیہ کو بھی مقبولیت ملی ہے، مسلم لیگ ن اگر ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کرتی تو شاید نتائج کچھ مختلف ہوتے لیکن منحرف ارکان کو پارٹی ٹکٹ دینے سے ن لیگ کے اندر بھی ناراضگیوں نے جنم لیا اور عوام نے بھی مسترد کردیا۔
ضمنی الیکشن کے حوالے سے مسلم لیگ ن بہت زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہوگئی تھی اور اس کا خیال تھا کہ نہایت آسانی سے13 سے زائد نشستیں جیت جائے گی لیکن پھر خطرات کا ادراک ہوا تو پولنگ ڈے سے چند روز قبل ہنگامی بھاگ دوڑ شروع کی گئی ، وفاقی و صوبائی وزراء سے استعفے دلوا کر حلقوں میں بھیجا گیا ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی گئیں لیکن تب تک حالات قابو سے نکل گئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ ضمنی الیکشن کے حوالے سے واقعی '' نیوٹرل '' رہی اور الیکشن کمیشن نے بھی بہتر کردار ادا کیا۔
ضمنی الیکشن نے منحرف ارکان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا اور ایک طرح سے ان کی سیاست تقریباً ختم ہو چکی ہے، سب سے بڑا دھچکا جہانگیر ترین اور علیم خان کی سیاست کو لگا ہے ، یہ دونوں بڑے رہنما اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو جتوانے میں ناکام رہے ۔ جہانگیر ترین کے لوگ اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم میں کہیں نظر نہیں آئے۔
بہرحال جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔جمہوریت کا پہلا قرینہ یہ ہے کہ الیکشن نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کیا جائے۔سیاسی قیادت محض الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے لیے ایسا سیاسی بیانیہ نہ بنائے جو ملک کے خارجہ اور معاشی امور کو متاثر کرے۔سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا، جمہوری سیاسی قیادت کو زیب نہیں دیتا۔پاکستان اور یہاں بسنے والے تمام لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی، گروہی،لسانی اور ذات برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کی جائے ۔
پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور دوسرے لیڈر عوامی جلسوں اور اپنے میڈیا بیانات میں تواتر سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بیس کی بیس نشتیں جیت جائیں گے جب کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کاروں کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن پندرہ سے سترہ نشتیں باآسانی جیت جائے گی لیکن نتائج مختلف نکلے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) صرف 4 سیٹیں جیت سکی ہے جب کہ ایک نشست پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔
پنجاب کے 20 حلقوں میں ٹرن آؤٹ 49.69 فیصد رہا۔جن نشستوں پر اتوار کو پولنگ ہوئی یہ تمام حلقے تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہوئے تھے ۔ پی ٹی آئی کے ان ارکان نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف (ن) لیگ کے وزیراعلیٰ حمزہ شہبازکو ووٹ دیا تھا، تحریک انصاف نے ان ارکان کی نااہلی کے لیے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔
اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرکے ان کی نششتیں خالی قرار دے دی تھیں۔ پنجاب بھر کے 14 اضلاع سے خالی ہونے والی، ان 20 نشستوں میں لاہور کی 4، راولپنڈی، خوشاب، بھکر، فیصل آباد، شیخوپورہ، ساہیوال، ملتان، بہاولنگر،لیہ کی ایک ایک، جھنگ کی 2، لودھراں کی 2، مظفر گڑھ کی 2 اور ڈیرہ غازی خان کی ایک نشست شامل تھی۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔
ن لیگ کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنے چاہئیں، عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، دل بڑا کرنا چاہیے، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے، انشاء اللّہ خیر ہوگی۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو تاریخی فتح ہوئی ہے۔ عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات ہوئی ہے۔ انھوں نے بھی عوام کی رائے کا احترام کرنے کا کہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، آج کی شکست شکستِ فاتحانہ ہے، مقابلہ اور جدوجہد جاری رہے گی، نتائج بتا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب حکومت غیر جانبدار تھے۔
الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے مکمل غیرجانبدار تھے اور یہ مکمل سیاسی مقابلہ تھا۔ انھوں نے کہا یہ نشستیں مسلم لیگ (ن) کی نہیں تھیں، ان 20 نشستوں پر مسلم لیگ(ن) ہاری یا ہروائی گئی تھی اور مخالف جیتے تھے۔ ہم نے جو چار سیٹیں حاصل کی ہیں وہی ہیں جو ہاری تھیں اور اب جیتی ہیں لیکن ہم نے اپنی کوئی سیٹ نہیں ہاری۔ یہ ایک اچھی روایت ہے، الیکشن میں شکست کو تسلیم کرنا جمہوری نظام اور جمہوری روایت کا اہم ترین جز ہے۔
ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، وہ جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے اور اس میں ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس بار مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ نے دوٹوک انداز میں ضمنی الیکشن کے نتائج تسلیم کرکے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں یا حکومت پرالزامات عائد کرنے کے کلچر کو خیرباد کہہ دے اور پرامن اور شفاف الیکشن کرانے پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہے کیونکہ یہی جمہوری اسپرٹ ہے۔
ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کی تازہ ترین صورتحال میں پی ٹی آئی پہلی پوزیشن پر آ گئی، 15 نئی نشستوں کے بعد پنجاب اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد 178 پر پہنچ گئی جب کہ پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی جماعت مسلم لیگ ق کے پنجاب اسمبلی میں دس ارکان ہیں۔
یوں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے ارکان کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہوجاتی ہے جب کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں 4 سیٹوں پر کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد167 پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی 7،آزاد ارکان کی تعداد 6 ہو گئی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک ممبر بھی اسمبلی کا حصہ ہے۔ یوں مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کی تعداد وزارت اعلیٰ کے لیے مطلوب تعداد سے کم ہے، سیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہے ، یہ کھیل کیا نتائج لاتا ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ کم از کم لاہور میں(ن) لیگ کو تمام سیٹیں جیتنی چاہیے تھیں لیکن وہ صرف ایک نشت ہی جیت پائی ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے لاہور پر زیادہ توجہ نہیں دی ،ماضی کی روایات کے برعکس (ن) لیگ کے امیدواران اور قیادت ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
(ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت کا خیال تھاکہ ماضی کی طرح اس بار بھی ان کے چاروں امیدوار لاہور سے جیتنے میں کامیاب رہیں گے،تاہم نتائج اس کے بالکل برعکس آئے،سیاسی ماہرین کے مطابق (ن) لیگ زیادہ بہتر انداز میں منصوبہ بندی نہ کر سکی، ووٹر کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنز تک لے جانے میں ناکام رہی۔ امیدوار بھی بہت زیادہ سرگرم نظر نہیں آئے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔کیا عمران خان اور ان کے ساتھی پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا کر بقیہ آئینی مدت پوری کرنے کو ترجیح دیں گے یا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی آپشن کی طرف جائیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر انھیں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت بھی تحلیل کرنا پڑے گی، اگر اس کے باوجود اتحادی حکومت وفاق میں قائم رہتی ہے، سندھ اور بلوچستان کی حکومت بھی قائم رہتی ہے تو کیا عمران خان اور اس کے اتحادی وفاق ، سندھ اور بلوچستان کو مجبور کرسکیں گے کہ وہ اسمبلیاں بھی تحلیل کردیں، کیونکہ اسی طرح فوری عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے،اس حوالے سے ان کی کیا حکمت عملی ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو بھی یہ بڑا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر کے آیندہ کا روڈ میپ طے کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی عام انتخابات کا آپشن اختیار کرلیں، بہرحال یہ فیصلہ انھیں کرنا ہی پڑنا ہے کہ وہ فوری الیکشن کی جانب جائیں یا پھر اقتدار میں رہنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے اپنے کارڈز کھیلیں، فی الحال تو ایسا لگتاہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے وفاق اور پنجاب حکومت کی رسہ کشی شروع ہوسکتی ہے ، ضمنی انتخابات نے ثابت کردیا کہ مخلوط حکومت کے مختصر دور اقتدار میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی نے ووٹر کے ذہن کو تبدیل کیا ہے۔
عمران خان کے بیرونی مداخلت اور لوٹا ارکان کے بیانیہ کو بھی مقبولیت ملی ہے، مسلم لیگ ن اگر ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کرتی تو شاید نتائج کچھ مختلف ہوتے لیکن منحرف ارکان کو پارٹی ٹکٹ دینے سے ن لیگ کے اندر بھی ناراضگیوں نے جنم لیا اور عوام نے بھی مسترد کردیا۔
ضمنی الیکشن کے حوالے سے مسلم لیگ ن بہت زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہوگئی تھی اور اس کا خیال تھا کہ نہایت آسانی سے13 سے زائد نشستیں جیت جائے گی لیکن پھر خطرات کا ادراک ہوا تو پولنگ ڈے سے چند روز قبل ہنگامی بھاگ دوڑ شروع کی گئی ، وفاقی و صوبائی وزراء سے استعفے دلوا کر حلقوں میں بھیجا گیا ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی گئیں لیکن تب تک حالات قابو سے نکل گئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ ضمنی الیکشن کے حوالے سے واقعی '' نیوٹرل '' رہی اور الیکشن کمیشن نے بھی بہتر کردار ادا کیا۔
ضمنی الیکشن نے منحرف ارکان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا اور ایک طرح سے ان کی سیاست تقریباً ختم ہو چکی ہے، سب سے بڑا دھچکا جہانگیر ترین اور علیم خان کی سیاست کو لگا ہے ، یہ دونوں بڑے رہنما اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو جتوانے میں ناکام رہے ۔ جہانگیر ترین کے لوگ اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم میں کہیں نظر نہیں آئے۔
بہرحال جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔جمہوریت کا پہلا قرینہ یہ ہے کہ الیکشن نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کیا جائے۔سیاسی قیادت محض الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے لیے ایسا سیاسی بیانیہ نہ بنائے جو ملک کے خارجہ اور معاشی امور کو متاثر کرے۔سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا، جمہوری سیاسی قیادت کو زیب نہیں دیتا۔پاکستان اور یہاں بسنے والے تمام لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی، گروہی،لسانی اور ذات برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست کی جائے ۔