PCSIR ملکی معیشت میں معاون ادارہ پہلا حصہ
موجودہ چیئرمین نے بہت احسن اقدام یہ کیا ہے کہ ایک بار پھر برسوں سے رکی ہوئی ترقیوں کو بحال کیا ہے
میاں عبد الحمید کی زیر ادارت لاہور سے شایع ہونے والاپیسہ اخبار اپنی 24 اپریل 1948 کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ کسی ملک کے خوشحال مستقبل کا اندازہ اس کی تجارت برآمد اور تجارت درآمد کے توازن سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کے متعلق دشمنوں کا پروپیگنڈہ یہ تھا کہ یہ مالی لحاظ سے ایک دیوالیہ ملک ہوگا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ منفی پروپیگنڈہ جون- جولائی 1947 سے شروع ہوگیا تھا اور کئی ماہ تک بڑے زور و شور سے جاری رہا۔لیکن 10 اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 تک پاکستان کی تجارت درآمد اور تجارت برآمد کے جو اعدادو شمار شایع ہوئے وہ بیحد مسرت افزاء ہیں اور ان سے ہم پر یہ امر ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی مالی حالت ہندوستان سے زیادہ اطمینان بخش ہے۔
اس مرحلہ میں پاکستان سے 22 کروڑ روپیہ کا مال باہر گیا جسمیں سے 15 کروڑ کا مال کراچی سے اور 7 کروڑ کا مال چٹاگانگ سے برآمد ہوا اس کے مقابلے پر 9 کروڑ کا مال پاکستان میں درآمد کیا گیا جسمیں 6کروڑ کا مال کراچی اور 3 کروڑ کا مال چٹاگانگ سے۔ یعنی اس عرصہ میں 12 کروڑ کا توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اب معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کا اندازہ کرسکتا ہے کہ پاکستان کا مالی مستقبل کتنا شاندار ہے جب کہ یہ اعداد وشمار اس زمانہ کے ہیں جو قطعاً نارمل نہیں تھا۔ اخبار کے خیال میں حالات بہتر رہے تو پاکستان کی کرنسی کا شمار دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں ہوگا۔
یوں تو وطن عزیز کو اپنے قیام کے وقت سے ہی مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے مگر اس وقت ملک جس معاشی بحران سے گذر رہا ہے وہ ہر محب وطن شہری کے لیے نہ صرف تکلیف دہ بلکہ سوہان روح ہے کیونکہ اس اقتصادی بدحالی کا نتیجہ معاشرے کے تمام شعبوں پر بھیانک اثرات مرتب کررہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے یعنی اس دگرگوں صورتحال کا ملبہ ایک دوسرے پر گرانے سے بہتر ہے کہ راہ ِ حل کی جانب توجہ دی جائیاقتصادی ماہرین کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کی وجہ ملک کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کی زیادتی ہے۔
اس صورتحال کے نتیجے میں عوام مہنگائی کی دلدل میں غرق ہورہے ہیں۔ اس صورتحال کو مزید گھمبیر اور خوفناک قریبی ملک سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے اور بعدمیں پیدا ہونے والی صورتحال کرتی ہے۔ پاکستان کو رواں سال 30 جون 2022 کے اختتام تک تقریباً 16 ارب امریکی ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ موجودہ عالمی معاشی آرڈر کے تحت اگر پاکستان سود پر قرضے یا برآمدات اور درآمدات میں توازن قائم نہ کرپایا تو وہ تیل اور دیگر ضروری اشیاء درآمد نہیں کرسکے گا۔ درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پاکستان کو کئی دہائیوں سے اس شیطانی چکر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔
ذرایع کے مطابق پاکستان کی درآمدات75 ارب ڈالر ہیں جب کہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں اس طرح وطن عزیز کو 45 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ تقریباً 30ارب ڈالر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھجوانے کے بعد بھی 15 ارب ڈالر کا ایک بڑا خلا پھر بھی باقی رہتا ہے۔ حکومت کے پاس IMF سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں جو کہ اس کا مستقل حل نہیں ہے۔
کیونکہ IMF کی شرائط معیشت کو تباہ اور قرض کی دلدل کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ IMF تیل ، بجلی اور گیس کی قیمتوں اور دیگر ٹیکسوں میں اضافہ کا حکم دیتا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار اور مینوفیکچرنگ کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی سود پر مبنی قرضے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ IMF کے نسخے مہنگائی کا طوفان برپا کرکے عوام کو مشکلات سے دوچار کرتے ہیں، نتیجتاً ہرنئی حکومت جانے والی پچھلی حکومت کو ان جرائم کا ذمے دار قرار دے کر خود بری الذّمہ ہوجاتی ہے اور خود کو مشکل فیصلوں جیسے الفاظ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار اس کی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کیے بغیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اس ملک کی بقاء کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے معرضِ وجود میں آتے ہی اس وقت کی مخلص قیادت نے اس شعبہ کی جانب بھرپور توجہ دی۔ در حقیقت غیر منقسم ہندوستان میں سائنسی تحقیق کے اداروں کی تعداد ایک درجن کے قریب تھی مگر بٹوارے کے بعد اپنے محل وقوع کے سبب ایک بھی تحقیقی ادارہ پاکستان جو کہ دو حصوں پرمشتمل تھا یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے حصے میں نہ آیا۔
لہٰذا اربابِ اقتدار نے سائنسی تحقیق کی اہمیت کے پیش نظر 1949 میں وزارتِ صنعت کے تحت جس کے سربراہ سردار عبد الرب نشتر تھے، سائنسی تحقیق کا ادارہ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) قائم کردیا، جسکا مقصد ملکی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے درآمدات پر انحصار کم سے کم کرنا تھا، جس کی چار لیباریٹریز ملک کے مختلف شہروں میں معرضِ وجود میں آئیں اور ملک میں سائنسی تحقیق کو فروغ دینے کی خاطر اسمبلی سے 1860 ایکٹ کے مطابق ایک بل منظور کرایا جس سے PCSIR کو آئینی حیثیت حاصل ہوگئی اور کراچی، لاھور، پشاور اور ڈھاکا میں سائنسی تحقیق کے مراکز قائم ہوگئے۔
ان مراکز نے اپنے محدود وسائل کیباوجود بہت جلد ملک میں ایک مضبوط سائنسی تحقیق کی بنیاد قائم کردی۔ حکمرانوں کی بھرپور توجہ اور جذبہء حب الوطنی سے سرشار سائنسدانوں نے سب سے پہلا کام پاکستان میں لاکھڑا گول مائن سے حاصل ہونیوالے کوئلہ میں گندھک کی مقدار کم کرکے دکھایا۔ اس وقت کے سائنسدانوں کی محنت اور جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ادارے کی پانچ سالہ ترقیاتی رپورٹ جو 1953-58 کے دورانیہ پر مشتمل ہے کا جائزہ لینا ضروری ہے جسمیں سے ایک قابلِ ذکر منصوبہ لاہور کے مذبح خانے کے کچرے سے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہونے والی انسولین تیار کرنا شامل تھا۔
یہ ادارہ اپنے انتہائی محدود وسائل،کم افرادی قوت اور چند تحقیقی آلات کے باوجود اس قدر تیزی سے اپنے سفر پر گامزن ہوا کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس نے پاک فضائیہ کو بعض اہم پرزہ جات کی فراہمی میں بھرپور کردار ادا کیا مگر شاید اس کے بعد ادارے کو کسی کی نظر لگ گئی یا پھر نظروں میں رکھ لیا گیا کہ یہ ادارہ بتدریج فنڈز کی قلت کا شکار ہوتا چلا گیا۔
ہر سال بجٹ میں کٹوتی کے نام پر اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی کم ہوتی چلی گئی۔ مگر چونکہ اس وقت ادارے کے بانی نامور سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی بقیدِ حیات تھے لہٰذا ان کی بھاری بھرکم شخصیت کی بنا پر ادارہ کو کچھ بجٹ مل جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ 1980 کی دہائی کا زمانہ تھا کہ PCSIR شدید مالی مشکلات کا شکار تھا، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد جارہے تھے۔
اسی فلائیٹ میں اسوقت کے وزیر خزانہ غلام اسحٰق خان بھی محو پرواز تھے، دوران سفر ڈاکٹر صاحب کی غلام اسحٰق خان سے ملاقات ہوگئی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے غلام اسحٰق سے کہا خان صاحب میں نے ایک پودا لگایا تھا جو کہ آجکل پانی کی کمی کا شکار ہے۔ غلام اسحٰق خان نے اسلام آباد پہنچتے ہی PCSIR کے فنڈز بحال کردیے جس سے یہ ادارہ وقتی طور پر گرداب سے باہر نکل گیا۔
مجھے یاد ہے کہ یہ 1980 کی دہائی کا ہی زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے O&M ڈویڑن سے ایک صاحب PCSIR کراچی لیباریٹریز آئے تھے وہ انتظامی بلاک میں بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کرتے تھے ، میراان سے ایک دوست کی معرفت تعارف ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت بین الاقوامی اداروں ورلڈ بینک اور IMF کا حکومت پاکستان پر دباؤ ہے کہ PCSIR کو بند کیا جائیکیونکہ یہ قومی خزانہ پر بوجھ ہے لہٰذا وہ اعداد و شمار کو جمع کرنے کی خاطر یہاں آئے ہیں۔
اسوقت کے PCSIR کراچی لیبارٹریز کے ڈائریکٹر جنرل سید صدر الحسن رضوی مرحوم نے مجھے بلایا اور کہا کہ بھائی آپ میڈیا میں آواز بلند کریں کہ PCSIR جو ملک کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے حکومت اسکو مضبوط کرنے کے بجائے اسکو بند کرنا چاہتی ہے میں نے مختلف صحافی حضرات سے رابطہ کیا مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ صحافی برادری نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اس ضمن میں ادارے کی نامور شخصیت عظمت علی خان صاحب جو کہ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر تھے ، نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
ماہنامہ گلوبل سائنس کے ایڈیٹر علیم احمد نے ایک کثیر الاشاعت اردو روزنامہ کے فرائڈے ایڈیشن میں جمع شدہ اعداد وشمار کی روشنی میں لکھا کہ حکومت کی جانب سے PCSIRکے سائنسدانوں کو تحقیقی کام کے لیے فی سائنسدان 75 پیسے ماہانہ یعنی 9 روپے سالانہ ملتے ہیں جس سے ایک چپل کی مرمت بھی ناممکن ہے۔PCSIR میں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ایک الگ پروگرام کے تحت کچھ انجینئرز اور سائنٹفک اسٹاف بھرتی کیا مگر پھر 14 سال تک ادارے میں نہ صرف یہ کہ نئے لوگ بھرتی نہیں کیے گئے بلکہ پروموشن بھی نہیں کیے گئے۔
یہ غالباً 1999کی بات ہے کہ اس وقت کی حکومت نے ڈاکٹر مصباح العین سابق شیخ الجامعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو جو کہ بیلجیئم میں مقیم تھے بلایا اور PCSIR کا چیئر مین نامزد کردیا۔ ڈاکٹر مصباح العین نے سب سے پہلا کام برسوں سے رکے ہوئے اسٹاف پروموشن کو بحال کرکے کیا۔
جس سے ملازمین میں ایک نئی جان پڑگئی اور وہ ایک نئی ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ مصباح العین پہلی بار کراچی تشریف لائے تو انھوں نے PCSIR کراچی لیب کے ملازمین سے خطاب کیا جو کہ نہایت حقیقت پسندانہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ادارے کے ایک ملازم محمد افراہیم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے 16 سال ہوگئے ہیں مگر ابتک کوئی پروموشن نہیں ملا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ آپ اتنے عرصے سے اس ادارے سے وابستہ ہیں جہاں صرف سوکھی تنخواہ ملتی ہے، آپ کی سچائی اور ایمانداری کے لیے یہی کافی ہے۔
اگر آپ منسٹری میں لوئر ڈویڑن کلرک ہوتے تو اب تک ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر کام کررہے ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کی پرخلوص اور شفیق شخصیت ہونے کی بنا پر ادارے کے لوگوں میں کام کرنے کا ایک نیا حوصلہ اور جستجو پیدا ہوئی، مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سازشی عناصر نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی ریشہ دوانیوں سے چئیر مین کے عہدے سے ہٹا دیا اور پھر ادارہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آگیا۔ مگر 2000کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں ادارے کو زبردست گرانٹ ملی اور یہ ادارہ جو کہ ICU کا مریض تھا اسکو نارمل سلائن واٹر کی جگہ قورمہ بریانی کھلائی گئی جس سے مریض کی حالت اور بگڑ گئی۔
ادارے میں جدید آلات خریدے گئے، بلاوجہ سول تعمیراتی کام کرایا گیا، وہ سائنسدان جسے تحقیقی کام کے لیے 75 پیسے ماہانہ ملتے تھے 50-150 کروڑ روپیہ PSDP پروجیکٹ کی مد میں ملے مگر جس اہم کام کی جانب توجہ نہیں د ی گئی وہ افرادی قوت کو بڑھانا تھا اور نتیجتاً یہ ہوا کہ گزشتہ ادوار کے بھرتی کیے گئے ملازمین 1990کے بعد سے تیزی سے ریٹائر ہونا شروع ہوگئے اور ادارے میں کام کرنے والوں کا قحط پڑنا شروع ہوگیا۔
مزید یہ کہ ادارے کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ یہ تحقیقی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے ادارے کے بجائے ایک روزگار فراہم کرنے والا ادارہ بن گیا۔ جو لوگ تحقیقی مزاج کے حامل تھے اگر غلطی سے آبھی گئے تو وہ موقع ملتے ہی بیرونِ ملک یا پھر ملک کی کسی جامعہ میں چلے گئے نتیجتاً آج PCSIR جس بحران کا شکار ہے اس کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
موجودہ چیئرمین نے بہت احسن اقدام یہ کیا ہے کہ ایک بار پھر برسوں سے رکی ہوئی ترقیوں کو بحال کیا ہے او ر ایسی پالیسی بنائی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ادارے میں مختلف ادوار میں ترقی کے لیے مختلف پیمانے بنائے گئے۔ کبھی کہا گیا کہ ترقی تحقیقی مقالہ جات پر ہوگی، کبھی کہا گیا کہ ترقی سائنسدانوں کی کمائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہوگی۔ ایک وقت یہ تھا کہ ادارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ترقی پالیسی منظور نظر افراد کو سامنے رکھ کر تیار کی جاتی ہے، اس صورتحال کا ادارے کی کارکردگی پر نہایت منفی اثر پڑا۔
جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے یہ ادارہ ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے درآمدات پر کم سے کم انحصار کرنے کی خاطر بنایا گیا تھا مگر ہوا یوں کہ نادیدہ قوتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان ایک بھاری خلیج پیدا ہونا شروع ہوگئی۔
جو کہ اب 100 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ آج بھی PCSIR اگر برآمدات نہیں بڑھا سکتا تو کم ازکم درآمدات میں بڑی واضح کمی پیدا کرسکتا ہے اور بالخصوص بین الاقوامی کمپنیوں کی ملک میں اجارہ داری ختم کرسکتا ہے، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ قیمتی زر مبادلہ کی بڑی بچت ہوگی۔ اس کی ایک ادنا سی مثال منرل واٹر ہے۔
اس کی سب سے پہلے فارمولیشن PCSIR-KLC نے کی اگر حکومت باہر کی تمام کمپنیوں کو بند کرکے صرف PCSIR کو یہ ذمے داری تفویض کردے تو پورے ملک میں ہزاروں افراد کو روزگار کے ساتھ ساتھ سستا اور معیاری پانی ملے گا۔ اس وقت بڑے شہروں میں جگہ جگہ R.O. پلانٹ لگے ہیں جنکا پانی صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں جو پانی فراہم کررہی ہیں وہ انتہائی مہنگا ہے۔
جب کہ ان کمپنیوں کو پانی مفت میں ملتا ہے وہ صرف پراسس کرنے کے بہت زیادہ رقم چارج کرتی ہیں۔ مگر شاید ہماری انتظامیہ کے لیے ان بین الاقوامی کمپنیوں سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ (جاری ہے)
(راقم ادارے سے 40 سال وابستہ رہاہے اور P.S.O. کے عہدے پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کا میڈیا فوکل پرسن برائے کراچی بھی رہا ہے)
اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کے متعلق دشمنوں کا پروپیگنڈہ یہ تھا کہ یہ مالی لحاظ سے ایک دیوالیہ ملک ہوگا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ منفی پروپیگنڈہ جون- جولائی 1947 سے شروع ہوگیا تھا اور کئی ماہ تک بڑے زور و شور سے جاری رہا۔لیکن 10 اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 تک پاکستان کی تجارت درآمد اور تجارت برآمد کے جو اعدادو شمار شایع ہوئے وہ بیحد مسرت افزاء ہیں اور ان سے ہم پر یہ امر ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی مالی حالت ہندوستان سے زیادہ اطمینان بخش ہے۔
اس مرحلہ میں پاکستان سے 22 کروڑ روپیہ کا مال باہر گیا جسمیں سے 15 کروڑ کا مال کراچی سے اور 7 کروڑ کا مال چٹاگانگ سے برآمد ہوا اس کے مقابلے پر 9 کروڑ کا مال پاکستان میں درآمد کیا گیا جسمیں 6کروڑ کا مال کراچی اور 3 کروڑ کا مال چٹاگانگ سے۔ یعنی اس عرصہ میں 12 کروڑ کا توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اب معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کا اندازہ کرسکتا ہے کہ پاکستان کا مالی مستقبل کتنا شاندار ہے جب کہ یہ اعداد وشمار اس زمانہ کے ہیں جو قطعاً نارمل نہیں تھا۔ اخبار کے خیال میں حالات بہتر رہے تو پاکستان کی کرنسی کا شمار دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں ہوگا۔
یوں تو وطن عزیز کو اپنے قیام کے وقت سے ہی مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے مگر اس وقت ملک جس معاشی بحران سے گذر رہا ہے وہ ہر محب وطن شہری کے لیے نہ صرف تکلیف دہ بلکہ سوہان روح ہے کیونکہ اس اقتصادی بدحالی کا نتیجہ معاشرے کے تمام شعبوں پر بھیانک اثرات مرتب کررہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے یعنی اس دگرگوں صورتحال کا ملبہ ایک دوسرے پر گرانے سے بہتر ہے کہ راہ ِ حل کی جانب توجہ دی جائیاقتصادی ماہرین کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کی وجہ ملک کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کی زیادتی ہے۔
اس صورتحال کے نتیجے میں عوام مہنگائی کی دلدل میں غرق ہورہے ہیں۔ اس صورتحال کو مزید گھمبیر اور خوفناک قریبی ملک سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے اور بعدمیں پیدا ہونے والی صورتحال کرتی ہے۔ پاکستان کو رواں سال 30 جون 2022 کے اختتام تک تقریباً 16 ارب امریکی ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ موجودہ عالمی معاشی آرڈر کے تحت اگر پاکستان سود پر قرضے یا برآمدات اور درآمدات میں توازن قائم نہ کرپایا تو وہ تیل اور دیگر ضروری اشیاء درآمد نہیں کرسکے گا۔ درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پاکستان کو کئی دہائیوں سے اس شیطانی چکر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔
ذرایع کے مطابق پاکستان کی درآمدات75 ارب ڈالر ہیں جب کہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں اس طرح وطن عزیز کو 45 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ تقریباً 30ارب ڈالر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھجوانے کے بعد بھی 15 ارب ڈالر کا ایک بڑا خلا پھر بھی باقی رہتا ہے۔ حکومت کے پاس IMF سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں جو کہ اس کا مستقل حل نہیں ہے۔
کیونکہ IMF کی شرائط معیشت کو تباہ اور قرض کی دلدل کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ IMF تیل ، بجلی اور گیس کی قیمتوں اور دیگر ٹیکسوں میں اضافہ کا حکم دیتا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار اور مینوفیکچرنگ کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی سود پر مبنی قرضے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ IMF کے نسخے مہنگائی کا طوفان برپا کرکے عوام کو مشکلات سے دوچار کرتے ہیں، نتیجتاً ہرنئی حکومت جانے والی پچھلی حکومت کو ان جرائم کا ذمے دار قرار دے کر خود بری الذّمہ ہوجاتی ہے اور خود کو مشکل فیصلوں جیسے الفاظ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار اس کی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کیے بغیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اس ملک کی بقاء کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے معرضِ وجود میں آتے ہی اس وقت کی مخلص قیادت نے اس شعبہ کی جانب بھرپور توجہ دی۔ در حقیقت غیر منقسم ہندوستان میں سائنسی تحقیق کے اداروں کی تعداد ایک درجن کے قریب تھی مگر بٹوارے کے بعد اپنے محل وقوع کے سبب ایک بھی تحقیقی ادارہ پاکستان جو کہ دو حصوں پرمشتمل تھا یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے حصے میں نہ آیا۔
لہٰذا اربابِ اقتدار نے سائنسی تحقیق کی اہمیت کے پیش نظر 1949 میں وزارتِ صنعت کے تحت جس کے سربراہ سردار عبد الرب نشتر تھے، سائنسی تحقیق کا ادارہ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) قائم کردیا، جسکا مقصد ملکی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے درآمدات پر انحصار کم سے کم کرنا تھا، جس کی چار لیباریٹریز ملک کے مختلف شہروں میں معرضِ وجود میں آئیں اور ملک میں سائنسی تحقیق کو فروغ دینے کی خاطر اسمبلی سے 1860 ایکٹ کے مطابق ایک بل منظور کرایا جس سے PCSIR کو آئینی حیثیت حاصل ہوگئی اور کراچی، لاھور، پشاور اور ڈھاکا میں سائنسی تحقیق کے مراکز قائم ہوگئے۔
ان مراکز نے اپنے محدود وسائل کیباوجود بہت جلد ملک میں ایک مضبوط سائنسی تحقیق کی بنیاد قائم کردی۔ حکمرانوں کی بھرپور توجہ اور جذبہء حب الوطنی سے سرشار سائنسدانوں نے سب سے پہلا کام پاکستان میں لاکھڑا گول مائن سے حاصل ہونیوالے کوئلہ میں گندھک کی مقدار کم کرکے دکھایا۔ اس وقت کے سائنسدانوں کی محنت اور جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ادارے کی پانچ سالہ ترقیاتی رپورٹ جو 1953-58 کے دورانیہ پر مشتمل ہے کا جائزہ لینا ضروری ہے جسمیں سے ایک قابلِ ذکر منصوبہ لاہور کے مذبح خانے کے کچرے سے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہونے والی انسولین تیار کرنا شامل تھا۔
یہ ادارہ اپنے انتہائی محدود وسائل،کم افرادی قوت اور چند تحقیقی آلات کے باوجود اس قدر تیزی سے اپنے سفر پر گامزن ہوا کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس نے پاک فضائیہ کو بعض اہم پرزہ جات کی فراہمی میں بھرپور کردار ادا کیا مگر شاید اس کے بعد ادارے کو کسی کی نظر لگ گئی یا پھر نظروں میں رکھ لیا گیا کہ یہ ادارہ بتدریج فنڈز کی قلت کا شکار ہوتا چلا گیا۔
ہر سال بجٹ میں کٹوتی کے نام پر اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی کم ہوتی چلی گئی۔ مگر چونکہ اس وقت ادارے کے بانی نامور سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی بقیدِ حیات تھے لہٰذا ان کی بھاری بھرکم شخصیت کی بنا پر ادارہ کو کچھ بجٹ مل جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ 1980 کی دہائی کا زمانہ تھا کہ PCSIR شدید مالی مشکلات کا شکار تھا، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد جارہے تھے۔
اسی فلائیٹ میں اسوقت کے وزیر خزانہ غلام اسحٰق خان بھی محو پرواز تھے، دوران سفر ڈاکٹر صاحب کی غلام اسحٰق خان سے ملاقات ہوگئی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے غلام اسحٰق سے کہا خان صاحب میں نے ایک پودا لگایا تھا جو کہ آجکل پانی کی کمی کا شکار ہے۔ غلام اسحٰق خان نے اسلام آباد پہنچتے ہی PCSIR کے فنڈز بحال کردیے جس سے یہ ادارہ وقتی طور پر گرداب سے باہر نکل گیا۔
مجھے یاد ہے کہ یہ 1980 کی دہائی کا ہی زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے O&M ڈویڑن سے ایک صاحب PCSIR کراچی لیباریٹریز آئے تھے وہ انتظامی بلاک میں بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کرتے تھے ، میراان سے ایک دوست کی معرفت تعارف ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت بین الاقوامی اداروں ورلڈ بینک اور IMF کا حکومت پاکستان پر دباؤ ہے کہ PCSIR کو بند کیا جائیکیونکہ یہ قومی خزانہ پر بوجھ ہے لہٰذا وہ اعداد و شمار کو جمع کرنے کی خاطر یہاں آئے ہیں۔
اسوقت کے PCSIR کراچی لیبارٹریز کے ڈائریکٹر جنرل سید صدر الحسن رضوی مرحوم نے مجھے بلایا اور کہا کہ بھائی آپ میڈیا میں آواز بلند کریں کہ PCSIR جو ملک کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے حکومت اسکو مضبوط کرنے کے بجائے اسکو بند کرنا چاہتی ہے میں نے مختلف صحافی حضرات سے رابطہ کیا مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ صحافی برادری نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اس ضمن میں ادارے کی نامور شخصیت عظمت علی خان صاحب جو کہ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر تھے ، نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
ماہنامہ گلوبل سائنس کے ایڈیٹر علیم احمد نے ایک کثیر الاشاعت اردو روزنامہ کے فرائڈے ایڈیشن میں جمع شدہ اعداد وشمار کی روشنی میں لکھا کہ حکومت کی جانب سے PCSIRکے سائنسدانوں کو تحقیقی کام کے لیے فی سائنسدان 75 پیسے ماہانہ یعنی 9 روپے سالانہ ملتے ہیں جس سے ایک چپل کی مرمت بھی ناممکن ہے۔PCSIR میں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ایک الگ پروگرام کے تحت کچھ انجینئرز اور سائنٹفک اسٹاف بھرتی کیا مگر پھر 14 سال تک ادارے میں نہ صرف یہ کہ نئے لوگ بھرتی نہیں کیے گئے بلکہ پروموشن بھی نہیں کیے گئے۔
یہ غالباً 1999کی بات ہے کہ اس وقت کی حکومت نے ڈاکٹر مصباح العین سابق شیخ الجامعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو جو کہ بیلجیئم میں مقیم تھے بلایا اور PCSIR کا چیئر مین نامزد کردیا۔ ڈاکٹر مصباح العین نے سب سے پہلا کام برسوں سے رکے ہوئے اسٹاف پروموشن کو بحال کرکے کیا۔
جس سے ملازمین میں ایک نئی جان پڑگئی اور وہ ایک نئی ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ مصباح العین پہلی بار کراچی تشریف لائے تو انھوں نے PCSIR کراچی لیب کے ملازمین سے خطاب کیا جو کہ نہایت حقیقت پسندانہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ادارے کے ایک ملازم محمد افراہیم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے 16 سال ہوگئے ہیں مگر ابتک کوئی پروموشن نہیں ملا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ آپ اتنے عرصے سے اس ادارے سے وابستہ ہیں جہاں صرف سوکھی تنخواہ ملتی ہے، آپ کی سچائی اور ایمانداری کے لیے یہی کافی ہے۔
اگر آپ منسٹری میں لوئر ڈویڑن کلرک ہوتے تو اب تک ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر کام کررہے ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کی پرخلوص اور شفیق شخصیت ہونے کی بنا پر ادارے کے لوگوں میں کام کرنے کا ایک نیا حوصلہ اور جستجو پیدا ہوئی، مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سازشی عناصر نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی ریشہ دوانیوں سے چئیر مین کے عہدے سے ہٹا دیا اور پھر ادارہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آگیا۔ مگر 2000کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں ادارے کو زبردست گرانٹ ملی اور یہ ادارہ جو کہ ICU کا مریض تھا اسکو نارمل سلائن واٹر کی جگہ قورمہ بریانی کھلائی گئی جس سے مریض کی حالت اور بگڑ گئی۔
ادارے میں جدید آلات خریدے گئے، بلاوجہ سول تعمیراتی کام کرایا گیا، وہ سائنسدان جسے تحقیقی کام کے لیے 75 پیسے ماہانہ ملتے تھے 50-150 کروڑ روپیہ PSDP پروجیکٹ کی مد میں ملے مگر جس اہم کام کی جانب توجہ نہیں د ی گئی وہ افرادی قوت کو بڑھانا تھا اور نتیجتاً یہ ہوا کہ گزشتہ ادوار کے بھرتی کیے گئے ملازمین 1990کے بعد سے تیزی سے ریٹائر ہونا شروع ہوگئے اور ادارے میں کام کرنے والوں کا قحط پڑنا شروع ہوگیا۔
مزید یہ کہ ادارے کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ یہ تحقیقی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے ادارے کے بجائے ایک روزگار فراہم کرنے والا ادارہ بن گیا۔ جو لوگ تحقیقی مزاج کے حامل تھے اگر غلطی سے آبھی گئے تو وہ موقع ملتے ہی بیرونِ ملک یا پھر ملک کی کسی جامعہ میں چلے گئے نتیجتاً آج PCSIR جس بحران کا شکار ہے اس کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
موجودہ چیئرمین نے بہت احسن اقدام یہ کیا ہے کہ ایک بار پھر برسوں سے رکی ہوئی ترقیوں کو بحال کیا ہے او ر ایسی پالیسی بنائی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ادارے میں مختلف ادوار میں ترقی کے لیے مختلف پیمانے بنائے گئے۔ کبھی کہا گیا کہ ترقی تحقیقی مقالہ جات پر ہوگی، کبھی کہا گیا کہ ترقی سائنسدانوں کی کمائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہوگی۔ ایک وقت یہ تھا کہ ادارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ترقی پالیسی منظور نظر افراد کو سامنے رکھ کر تیار کی جاتی ہے، اس صورتحال کا ادارے کی کارکردگی پر نہایت منفی اثر پڑا۔
جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے یہ ادارہ ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے درآمدات پر کم سے کم انحصار کرنے کی خاطر بنایا گیا تھا مگر ہوا یوں کہ نادیدہ قوتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان ایک بھاری خلیج پیدا ہونا شروع ہوگئی۔
جو کہ اب 100 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ آج بھی PCSIR اگر برآمدات نہیں بڑھا سکتا تو کم ازکم درآمدات میں بڑی واضح کمی پیدا کرسکتا ہے اور بالخصوص بین الاقوامی کمپنیوں کی ملک میں اجارہ داری ختم کرسکتا ہے، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ قیمتی زر مبادلہ کی بڑی بچت ہوگی۔ اس کی ایک ادنا سی مثال منرل واٹر ہے۔
اس کی سب سے پہلے فارمولیشن PCSIR-KLC نے کی اگر حکومت باہر کی تمام کمپنیوں کو بند کرکے صرف PCSIR کو یہ ذمے داری تفویض کردے تو پورے ملک میں ہزاروں افراد کو روزگار کے ساتھ ساتھ سستا اور معیاری پانی ملے گا۔ اس وقت بڑے شہروں میں جگہ جگہ R.O. پلانٹ لگے ہیں جنکا پانی صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں جو پانی فراہم کررہی ہیں وہ انتہائی مہنگا ہے۔
جب کہ ان کمپنیوں کو پانی مفت میں ملتا ہے وہ صرف پراسس کرنے کے بہت زیادہ رقم چارج کرتی ہیں۔ مگر شاید ہماری انتظامیہ کے لیے ان بین الاقوامی کمپنیوں سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ (جاری ہے)
(راقم ادارے سے 40 سال وابستہ رہاہے اور P.S.O. کے عہدے پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کا میڈیا فوکل پرسن برائے کراچی بھی رہا ہے)