غیرملکی مراسلے کو وزیراعظم سے چھپایا نہیں گیا دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کی پیشہ وارانہ کارکردگی پر شک کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے، ترجمان

فوٹو:فائل

RAWALPINDI:
دفتر خارجہ کے ترجمان نے مبینہ دھمکی آمیز غیر ملکی مراسلے سے متعلق دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے چھپایا نہیں گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن سے موصول ہونے والی سائفر کمیونیکیشن کو وزیر خارجہ یا وزیر اعظم سے چھپایا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دفتر خارجہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر کام کرتا ہے اور اس کے کام پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔


سفارتی ذرائع کے مطابق سائفر کی تحریر کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سائفر کی تحریر کو ایک طریقہ کار کے تحت ڈی کوڈ کیا جاسکتا ہے اور اس کو کاپی نہیں کیا جاسکتا نہ اس کی فوٹو کاپی ممکن ہوتی ہے، مراسلے کی تقسیم صرف متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو کی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوتی، ایسا مراسلہ موصول ہو نے کے ساتھ ہی فوری طور پر متعلقہ حکام تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

دفتر خارجہ نے پچیس اپریل کو وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس کا ٹرانسکرپٹ بھی شیئر کیا، جس کے مطابق پچیس اپریل کی پریس کانفرنس میں سفیر اسد مجید پر دباؤ اور رانا ثناء اللہ کے شاہ محمود قریشی پر سائفر کو ایڈٹ کرنے کے الزام کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے واضح کیا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاسوں میں اس معاملے پر کھل کر با ت ہوئی اور دونوں اجلاسوں کے اعلامیے ایک جیسے ہیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ کمیٹی نے مکمل جانچ پڑتال کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں تھی، پاکستانی سفیر پر کسی بھی وقت کسی قسم کا دباوٴ نہیں تھا اور کمیونیکیشن میں کسی ترمیم کا کوئی امکان نہیں، اکتیس مارچ کے این ایس سی اجلاس میں ہدایت کی گئی تھی کہ سفارتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب طریقے سے احتجاج کیا جائے۔

سازش اور مداخلت میں فرق کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا تھا کہ ان اصلاحات کے معنی واضح کرنا ان کے بس کی بات نہیں، سائفر کو وزیر خارجہ سے چھپائے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا تھا کہ اس طرح کے دعوے بے بنیاد ہیں،اس طرح کی کسی چیز کو چھپانے یا روکنے کا کوئی سوال یا امکان نہیں ہے۔ یہ سائفر ایک ٹیلیگرام تھا جو دفتر خارجہ میں موصول ہوا اور اسے فوری طور پر متعلقہ حکام میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
Load Next Story