جمہوری اقدار اور سیاسی قیادت

سیاسی عدم استحکام معاشی و اقتصادی میلٹ ڈاؤن کا شکار ہو چکا ہے

سیاسی عدم استحکام معاشی و اقتصادی میلٹ ڈاؤن کا شکار ہو چکا ہے (فوٹو: فائل)

ملک میں سیاسی استحکام کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں' سیاسی محاذ آرائی کا رخ اب سیاستدانوں کے مابین بیان بازی' الزام تراشی اور گالم گلوچ سے نکل کر اداروں کے بارے میں ایسی گفتگو کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پورا سیاسی ماحول بدنظمی اور عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے سیاسی عدم استحکام معاشی و اقتصادی میلٹ ڈاؤن کا شکار ہو چکا ہے۔

سیاسی قائدین کے غیر ذمے دارانہ اور عاقبت نااندیش بیانات ملک کے لیے خارجہ سطح پر بھی گمبھیر مسائل پیدا کر رہا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی ٹوٹنے کا باعث بن رہے ہیں۔

سیاست کا یہ چلن اور اقتدار کی رسہ کشی ملک کے پورے نظام کو زمین بوس کر سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ بہت بڑھ چکا ہے اور ایک دوسرے کو کچلنے کے راستے پر گامزن ہیں۔پنجاب میںحالیہ ضمنی الیکشن کے بعدسیاست میں مزید غیر یقینی پیدا ہوئی ہے۔پنجاب گزشتہ کئی ماہ سے انتظامی بحران اور جمود کا شکار ہے۔ ملک کے سیاستدانوں اوراداروں کو اس کے مضمرات کا اندازہ یقیناً ہو گا لیکن بعض اوقات اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اور معاملات بگڑتے بگڑتے اس مقام تک آ جاتے ہیں جہاں سے انھیں واپس لے جانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

پنجاب میں حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ سیاسی موقع پرستی اور ہوس اقتدار اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ سیاستدان بظاہر جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن ان میں جمہوری اخلاق اور جمہوری اقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضیاء الحق کے دور اقتدار کے دوران جنم لینے والی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ اورافسر شاہی میںاعلیٰ پائے کی وہ ذہانت ناپیدہو چکی ہے جو ریاستی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں میںجمہوریت موجود ہی نہیں ہے۔وہاں نامزدگی کا نظام رائج ہے۔جب سیاسی جماعتوں میں ہی جمہوریت نہیںہو گی تو وہ جمہوری روایات اور اقدار کے اصل معنی سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں۔ 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 15نشستیں جیت لی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں۔یہ جمہوری رویہ ہرگز نہیں ہے۔اس وقت پنجاب میں سیاسی صورت حال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے' سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے اور ارکان اسمبلی کے بارے میں آڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔ حالانکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ وزارت اعلیٰ کا فیصلہ ارکان اسمبلی نے کرنا ہے۔

اس پر بیان بازی کرنا 'سرکاری افسروں کو ڈرانے دھمکانے والے بیانات دینا 'سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب فیصلہ اسمبلی میں ہونا ہے تو پھر اسمبلی کے اجلاس کا انتظار کیا جائے 'ہر سیاسی جماعت کی قیادت اپنے ارکان اسمبلی کی رائے اور جذبات کا احترام کرے۔ سیاسی جماعتوں میں آمرانہ رویوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر رکن اسمبلی عوام کا نمایندہ ہوتا ہے 'اگر پارٹی کی قیادت اپنے رکن اسمبلی کی رائے کا احترام نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ جمہوری اقدار پر یقین نہیں رکھتی۔

اگر آئین و قانون اور جمہوری اصولوں کے تناظر میں دیکھا جائے توسیاسی بحران کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ پارلیمانی جمہوریت میں ارکان اسمبلی کی اکثریت جس کے حق میں ہوتی ہے' وہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب ہو جاتا ہے۔ اس سیدھے معاملے کو پیچیدہ اور متنازع بنانے میں بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا بڑاحصہ ہے۔ دیکھا جائے تو سیاسی قائدین کی کم فہمی اور ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی بے لگام خواہش 'ملک میں بحرانوں کا باعث بنی ہے۔

اگر سیاسی قیادت میچور ہو 'کسی سیاسی نظریے پر کاربند ہو 'عالمی امور پر دسترس ہو' معیشت کی نظاقتوں اور باریکیوں کو سمجھتی ہو تو ملک میں سیاسی بحران پیدا نہیں ہوتا ۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں وزیراعظم بورس جانسن کو اس کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے وزراء نے ہی عدم اعتماد کر کے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ یہ بھی مدنظر رکھنے والی بات ہے کہ بورس جانسن نے بھی فوری اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔

اسی طرح اپوزیشن لیبر پارٹی کے قائدین نے بھی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بلاجواز اور بے بنیاد الزامات کی سیاست کو اپنایا۔ بورس جانسن نے عہدے سے چمٹے رہنے کے لیے کوئی منفی ہتھکنڈا استعمال کیا اور نہ ہی عدالت کا رخ کر کے سیاسی گند ڈالنے کی کوشش کی۔


انھیںپتہ چل گیا کہ ان کی پارٹی بھی چاہتی ہے کہ وہ عہدے سے الگ ہو جائیں تو انھوں نے کوئی دیر نہیں کی اس لیے برطانیہ میں کسی قسم کا کوئی سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔بھارت کو بھی بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے اکثریت حاصل کر کے اپنا وزیراعلیٰ منتخب کر الیا۔

عام آدمی پارٹی کی مخالف کانگریس'اکالی دل اور جنتا پارٹی کی قیادت نے جوڑ توڑ کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کسی نے یہ جدوجہد کی کہ عام آدمی پارٹی کے ارکان کو توڑ کر اسے اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ بھارتی سیاست میں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اسمبلی میں چند نشستیں رکھنے والی جماعت اکثریتی جماعتوں کی باہمی آویزش کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

اس وقت ملک کی سیاسی قیادت کے پاس آدرش اور اصول جیسی خصوصیات نہیں ہیں' ایسا نہیں ہے کہ یہ رویے صرف سیاست میں ہیں' یہ رویے ادارہ جاتی سطح پر بھی ہیں 'میڈیا میں بھی ہیں' ٹریڈ اینڈ کامرس ٹائیکونز میں بھی ہیں۔ ملک کا تعلیمی نظام ایسا ہے جس نے پورے معاشرے کو زوال پذیر بنا دیا ہے۔

سرکاری نصاب تعلیم پڑھ کر عملی زندگی میں آنے والے لوگوں کی سوچ کے زاویے غیر جمہوری ہو چکے ہیں جب کہ ملک کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس اپنے بچوں کو جن اسکولوں میں بھیج رہی ہے 'وہاں سے پڑھ کر عملی زندگی میں آنے والی نسل اپنے کلچر 'اپنے دیہات ' اپنی فصلوں 'اپنے جانوروں سے ناآشنا ہوتی ہے۔ ان کا طرز زندگی مغربی ہوتا ہے لیکن ذہنی طور پر نظریاتی کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امیر گھرانوں کے بچوں میں بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جذبات دیکھنے میں ملتے ہیں۔

پاکستان کو بچانے اور اسے ایک مستحکم جمہوریت بنانے کے لیے طویل المدتی تعلیمی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسا تعلیمی نصاب مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق طالب علموں کی ذہن سازی کر سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی سیاسی قیادت جمہوری اور پارلیمانی اقدار کاربند ہو گی۔ملک میں سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ کیونکہ ملک کی معیشت بڑی تیزی سے لڑک رہی ہے۔

الیکشن میں شکست کو تسلیم کرنا جمہوری نظام اور جمہوری روایت کا اہم ترین جز ہے۔ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، وہ جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے اور اس میں ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت آئین و قانون کو خود پر نافذ کریں۔جمہوری اقدار پر کاربند رہنے کا نمونہ بن کر عوام کے سامنے آئیں ' سیاسی جماعتوں کے قائدین چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کے کلچر کو ختم کریں۔

اسی طرح ادارہ جاتی سطح پر بھی آئین اور جمہوری سوچ غالب ہونی چاہیے 'آئین اور قانون بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ریاستی نظام میں روانی اور توازن پیدا ہو سکے۔ الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں یا حکومت پرالزامات عائد کرنے کے کلچر کو خیرباد کہہ دے اور پرامن اور شفاف الیکشن کرانے پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہے کیونکہ یہی جمہوری اسپرٹ ہے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ فی الحال تو ایسا لگتاہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے وفاق اور پنجاب حکومت کی رسہ کشی شروع ہوسکتی ہے کیونکہ مرکزی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے فوری انتخاب کے آپشن کو رد کر کے اقتدار میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بہرحال جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔جمہوریت کا پہلا قرینہ یہ ہے کہ الیکشن نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کیا جائے۔جمہوری اصولوں سے انحراف نہ کیا جائے تو کوئی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت میں کئی صوبے ایسے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نہیں ہے لیکن وہاں کسی قسم کا سیاسی یا آئینی بحران موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
Load Next Story