کیا عام انتخابات کے لیے ماحول سازگار ہے
ملک میں انتخابی ماحول قطعاً سازگار نہیں اور اگر اس ماحول میں الیکشن ہوئے تو ملک میں ہنگامہ آرائی کی صورت حال ہوگی
پی ٹی آئی رہنماؤں نے اپنے موقف کا اظہار کردیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ صرف اس صورت میں بیٹھ سکتے ہیں اگر حکومت فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کردے تو انتخابی اصلاحات اور دھاندلی روکنے کے اقدامات کی آئین سازی کے لیے قومی اسمبلی میں واپس آ سکتے ہیں۔
عمران خان نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ عمران خان جب نواز شریف حکومت میں اپوزیشن میں تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کے اہم مسئلے پر جو اے پی سی منعقد کی تھی اس میں تمام پارٹیوں سمیت خود عمران خان نے بھی شرکت کی تھی جس کے بعد پانامہ میں نام نہ ہونے کے باوجود نواز شریف کو نااہل کرا کر ان کی حکومت کو ختم کرایا گیا جس کے دس ماہ بعد تک (ن) لیگ کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔
نواز شریف حکومت ختم کرانے سے پہلے ہی عمران خان نے اپنی سیاست کو جارحانہ بنا دیا تھا اور انھوں نے کرپشن کے خاتمے اور انصاف برابری کی بنیاد پر فراہمی کو اپنا منشور بنایا تھا جو ان کا اچھا فیصلہ تھا۔ عوام کی ایک تعداد باری باری طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومتوں میں ہونے والی کرپشن اور دونوں پارٹیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اسی لیے سیاست میں تبدیلی چاہتے تھے۔
2008 سے 2013 تک پی پی کی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور کرپشن پر توجہ نہیں دی تھی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو تبدیلی کی امید سمجھ کر عمران خان کا لاہور میں 2011 میں ایک بڑا جلسہ کرایا گیا اور سندھ کے علاوہ باقی تین صوبوں کے چند سیاستدانوں نے پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان نے اپنی جارحانہ سیاست شروع کی جس کے ذریعے پہلی بار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قیادت پر ملک لوٹ کر پیسہ باہر لے جا کر جائیدادیں بنانے۔
کرپشن کے ذریعے ملک تباہ اور کنگال کردینے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے اور دھمکیوں کی سیاست کا آغاز عمران خان نے کیا اور ان ہی الزامات پر پنجاب اور کے پی میں 2013 کے عام انتخابات میں بھرپور مہم چلائی جس کے آخر میں عمران خان اپنے ہی جلسے میں اسٹیج سے گر کر زخمی بھی ہوئے تھے اور اپنے شدید مخالف کے زخمی ہونے پر نواز شریف نے اخلاقی طور پر اپنی انتخابی مہم معطل کرکے اسپتال جا کر عمران خان کی عیادت بھی کی تھی۔
2013 میں پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کو بھاری کامیابی ملی تھی اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی تھی جس کی عمران خان کو توقع نہیں تھی کیونکہ الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر پی ٹی آئی نے کے پی میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں جو حکومت بنانے کے لیے ناکافی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن چاہتے تھے کہ نواز شریف ان کا ساتھ دیں تو پی ٹی آئی کو کے پی میں حکومت بنانے سے روکا جاسکتا تھا مگر نواز شریف نہ مانے اور انھوں نے وزیر اعظم بن کر اور پنجاب میں اپنی حکومت کے باوجود کے پی میں عمران خان کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کیا اور پی ٹی آئی نے دوسری جماعتوں سے مل کر اپنی حکومت بنا لی تھی۔
2013 کے انتخابات میں کے پی میں عمران خان ، پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ میں پی پی نے دوسری بار حکومت بنا لی تھی مگر عمران خان پنجاب میں اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں ہوئے انھوں نے پنجاب میں (ن) لیگ پر خصوصاً قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے الزام کو بنیاد بنا کر 2014 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور طویل دھرنا دیا۔
انھوں نے دھرنے میں (ن) لیگ حکومت سے مستعفی ہونے کا مسلسل مطالبہ کیا اور (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری دھرنے میں سیاست میں کشیدگی انتہا پر پہنچائی اور اپنی تقاریر میں اشتعال پھیلایا۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر پارٹیوں نے جمہوریت بچانے کے لیے (ن) لیگ حکومت کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے عمران خان دھرنا ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔
دسمبر 2014 میں دھرنا ناکام ہونے کے بعد عمران خان کی سیاست مزید جارحانہ ہوگئی۔ اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرا کر جیلوں میں ڈالنے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جس سے ان کی مقبولیت بڑھی اور عوام نے بھی آس لگا لی کہ عمران خان اقتدار میں آ کر ملک میں واقعی تبدیلی لے آئیں گے۔
عمران خان نے ہر اس پارٹی کو اپنا دشمن قرار دیا جو (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کے حامی اور عمران خان کی سیاست کے مخالف تھے۔ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے پی نے عمران خان کی حکومت میں اتحادی کا کردار ادا ضرور کیا مگر اپوزیشن جماعتوں کو اپنا مخالف نہیں بنایا اور تعلقات بھی برقرار رکھے کیونکہ وہ عمران خان کی جارحانہ سیاست کے برعکس ملک میں سیاسی ماحول خوشگوار رکھنا چاہتے تھے ۔
تحریک انصاف کے دور میں پی پی اور (ن) لیگ کے تمام حکومت مخالف رہنماؤں پر مقدمات بنوائے گئے جب کہ کسی بھی عدالت میں ان پر الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ ملک کا سیاسی ماحول انتہائی کشیدہ بنادیا گیا ہے۔
ملک کی سیاسی فضا میں کشیدگی اور تناؤ آ چکا ہے۔ ملک میں انتخابی ماحول قطعاً سازگار نہیں اور اگر اس ماحول میں الیکشن ہوئے تو ملک میں ہنگامہ آرائی کی صورت حال ہوگی جو اگر نہ رکی تو پھر ملک دور آمریت میں دھکیل دیا جائے گا۔
عمران خان نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ عمران خان جب نواز شریف حکومت میں اپوزیشن میں تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کے اہم مسئلے پر جو اے پی سی منعقد کی تھی اس میں تمام پارٹیوں سمیت خود عمران خان نے بھی شرکت کی تھی جس کے بعد پانامہ میں نام نہ ہونے کے باوجود نواز شریف کو نااہل کرا کر ان کی حکومت کو ختم کرایا گیا جس کے دس ماہ بعد تک (ن) لیگ کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔
نواز شریف حکومت ختم کرانے سے پہلے ہی عمران خان نے اپنی سیاست کو جارحانہ بنا دیا تھا اور انھوں نے کرپشن کے خاتمے اور انصاف برابری کی بنیاد پر فراہمی کو اپنا منشور بنایا تھا جو ان کا اچھا فیصلہ تھا۔ عوام کی ایک تعداد باری باری طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومتوں میں ہونے والی کرپشن اور دونوں پارٹیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اسی لیے سیاست میں تبدیلی چاہتے تھے۔
2008 سے 2013 تک پی پی کی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور کرپشن پر توجہ نہیں دی تھی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو تبدیلی کی امید سمجھ کر عمران خان کا لاہور میں 2011 میں ایک بڑا جلسہ کرایا گیا اور سندھ کے علاوہ باقی تین صوبوں کے چند سیاستدانوں نے پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان نے اپنی جارحانہ سیاست شروع کی جس کے ذریعے پہلی بار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قیادت پر ملک لوٹ کر پیسہ باہر لے جا کر جائیدادیں بنانے۔
کرپشن کے ذریعے ملک تباہ اور کنگال کردینے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے اور دھمکیوں کی سیاست کا آغاز عمران خان نے کیا اور ان ہی الزامات پر پنجاب اور کے پی میں 2013 کے عام انتخابات میں بھرپور مہم چلائی جس کے آخر میں عمران خان اپنے ہی جلسے میں اسٹیج سے گر کر زخمی بھی ہوئے تھے اور اپنے شدید مخالف کے زخمی ہونے پر نواز شریف نے اخلاقی طور پر اپنی انتخابی مہم معطل کرکے اسپتال جا کر عمران خان کی عیادت بھی کی تھی۔
2013 میں پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کو بھاری کامیابی ملی تھی اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی تھی جس کی عمران خان کو توقع نہیں تھی کیونکہ الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر پی ٹی آئی نے کے پی میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں جو حکومت بنانے کے لیے ناکافی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن چاہتے تھے کہ نواز شریف ان کا ساتھ دیں تو پی ٹی آئی کو کے پی میں حکومت بنانے سے روکا جاسکتا تھا مگر نواز شریف نہ مانے اور انھوں نے وزیر اعظم بن کر اور پنجاب میں اپنی حکومت کے باوجود کے پی میں عمران خان کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کیا اور پی ٹی آئی نے دوسری جماعتوں سے مل کر اپنی حکومت بنا لی تھی۔
2013 کے انتخابات میں کے پی میں عمران خان ، پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ میں پی پی نے دوسری بار حکومت بنا لی تھی مگر عمران خان پنجاب میں اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں ہوئے انھوں نے پنجاب میں (ن) لیگ پر خصوصاً قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے الزام کو بنیاد بنا کر 2014 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور طویل دھرنا دیا۔
انھوں نے دھرنے میں (ن) لیگ حکومت سے مستعفی ہونے کا مسلسل مطالبہ کیا اور (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری دھرنے میں سیاست میں کشیدگی انتہا پر پہنچائی اور اپنی تقاریر میں اشتعال پھیلایا۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر پارٹیوں نے جمہوریت بچانے کے لیے (ن) لیگ حکومت کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے عمران خان دھرنا ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔
دسمبر 2014 میں دھرنا ناکام ہونے کے بعد عمران خان کی سیاست مزید جارحانہ ہوگئی۔ اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرا کر جیلوں میں ڈالنے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جس سے ان کی مقبولیت بڑھی اور عوام نے بھی آس لگا لی کہ عمران خان اقتدار میں آ کر ملک میں واقعی تبدیلی لے آئیں گے۔
عمران خان نے ہر اس پارٹی کو اپنا دشمن قرار دیا جو (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کے حامی اور عمران خان کی سیاست کے مخالف تھے۔ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے پی نے عمران خان کی حکومت میں اتحادی کا کردار ادا ضرور کیا مگر اپوزیشن جماعتوں کو اپنا مخالف نہیں بنایا اور تعلقات بھی برقرار رکھے کیونکہ وہ عمران خان کی جارحانہ سیاست کے برعکس ملک میں سیاسی ماحول خوشگوار رکھنا چاہتے تھے ۔
تحریک انصاف کے دور میں پی پی اور (ن) لیگ کے تمام حکومت مخالف رہنماؤں پر مقدمات بنوائے گئے جب کہ کسی بھی عدالت میں ان پر الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ ملک کا سیاسی ماحول انتہائی کشیدہ بنادیا گیا ہے۔
ملک کی سیاسی فضا میں کشیدگی اور تناؤ آ چکا ہے۔ ملک میں انتخابی ماحول قطعاً سازگار نہیں اور اگر اس ماحول میں الیکشن ہوئے تو ملک میں ہنگامہ آرائی کی صورت حال ہوگی جو اگر نہ رکی تو پھر ملک دور آمریت میں دھکیل دیا جائے گا۔